ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

کچھ عرصہ پہلے تک ہر ماں صبح اٹھ کر بچوں کو یہ سوچتے ہوئے اسکول بھیجتی تھی کہ یہ ٹھکانے لگے تو میں بھی اطمینان سے گھر کے کام نمٹا لوں ، لیکن 16 دسمبر 2014 اے پی ایس (آرمی پبلک سکول) حملے کے بعد کوئی ماں دوبارہ ایسا نہ سوچ سکی ۔۔۔۔ اس دن ڈیڑھ سو سے زائد بچوں کو ان کے اسکول میں ذبح کردیا گیا تھا ۔۔۔۔ ! ٹی وی دیکھتی آنکھوں نے اچانک خولہ کے بارے میں چلتی خبر پڑھی ۔۔ اسکول میں پہلا دن ، پڑھائی کا شوق اور دل میں ڈھیروں خواب لئے اس خولہ کو گولی مار دی گئی ۔ خولہ فقط 5 سال کی تھی، تب سے اب تک وہ بچی آنکھوں میں بسی ہے ۔۔۔ نکلی ہی نہیں! تب سے ہر ماں اپنے بچوں کو اسکول بھیج کر ایک پل چین سے نہیں رہ پائی۔
ابھی یہ خوف، ڈر اور وحشت اپنی جگہ قائم تھی کہ 27 مارچ 2016 کا دن آگیا ۔ لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ایک سو سے زائد لوگ جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی تھی، خودکش دھماکے میں موت کی نیند سلا دیے گئے۔ دیکھنے والوں نے بتایا کہ پارک میں ہر طرف بچوں کے جسمانی اعضاء اور ٹکڑے بکھرے پڑےتھے ۔۔اور پھر آیا کل کا دن۔۔ جب ایک تعلیمی ادارے میں ہونہار طلب علم کا قتل ہوا ،اور جیسے ہوا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ مائیں اپنے بچوں کو اسکول ، کالج ، یونیورسٹی یا پارک میں کس لئے بھیجتی ہیں۔۔ قتل ہونے کے لئے ؟ ۔مامتا ہر پل اس جان لیوا خدشے سے ڈری سہمی ہے کہ سکول گیا بچہ نجانے کس حالت میں واپس آئے،آئے بھی یا نہیں ۔ پارک میں دوستوں کے ساتھ کھیلنے گئے بیٹے کو کہیں موت نہ دبوچ لے۔ حصولِ علم کی خا طر یونیورسٹی جانے والا جوان سالہ ماں باپ کا آخری سہارا کہیں محض ایک الزام کی زد میں آکر درندوں کے ہتھے نہ چڑھ جائے،ناقابلِ شناخت حالت میں نہ پایا جائے۔ تعلیم کا حصول اور دیگر تفریحی سرگرمیاں تو اس قوم کے لئے خواب بنتی جارہی ہیں ۔دل میں ہزار وسوسے لیئے اب ہر شخص اپنے ارد گرد موجود پیاروں کو یوں بے اعتباری سے دیکھتا ہے جیسے آخری بار دیکھ رہا ہو کہ نجانے کب وہ نظروں سے اوجھل ہو جائیں ۔

Facebook Comments

آمنہ احسن
کتابیں اور چہرے پڑھنے کا شوق ہے ... معاملات کو بات کر کے حل کرنے پر یقین رکھتی ہوں ....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply