اس سے بڑھ کر اور دشمنی کیا ہوگی؟

سوچا تھا آج پاکستان کے ایران اور سعودیہ سے تعلقات میں توازن کے حوالے سے کچھ لکھوں گا، کچھ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا سجا کر عقلیت پر مبنی رائے پیش کروں گا، تاہم مردان کی ایک جامعہ میں پیش آنے والے اندوہناک واقعے نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس قدر بربریت؟ اس قدر حیوانیت۔ درندوں نے یہ تو سوچ لیا ہوتا کہ جن آقائے نامدار سرور کونین محبوب یزدانی ﷺ کے ناموس مبارک کے تحفظ کے نام پر یہ خونی کھیل کھیلنے جا رہے ہیں خود ان ﷺ کی عدل و انصاف کے حوالے سے کیا تعلیمات ہیں؟ یہ کیا روش ہے؟ کس کے اسوہ کی پیروی کی جا رہی ہے؟ ناموس رسالت ﷺ کی آڑ میں اپنے ذاتی حسابات چکانے کی یہ روش کس قدر قبیح ہے، اس کا اندازہ ان حیوانوں کو تب ہوگا جب روزِ محشر ان کو آقا ﷺ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مت بھولیں کہ آقا ﷺ کی فطرتِ مبارکہ میں رحمت، عفو و درگزر اور احسان غالب ہیں۔ کسی کو بغیر مقدمہ سزا دے کرآپ نے ایک انسان کا حق مارا ہے، رسول اللہ ﷺ کی شریعت کی خلاف ورزی کی ہے۔ وہ رسولِ اکرم ﷺ جو نیکوکار و خطاکار سب کے سانجھے ہیں۔ جب روز حشر ایک ملزم، جس کو آپ نے اپنی درندگی سے خود مظلوم بنا دیا ہے، اپنا مقدمہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں رکھے گا اور اپنے خونِ ناحق پر اپنا حق طلب کرے گا تو کیا عدل مصطفوی ﷺ کو جوش نہ آئے گا؟ کس منہ سے آقا ﷺ کو بتاؤ گے کہ تم نے اپنے کھوکھلے جذبات میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا بھی پاس نہیں کیا؟ خود ہی الزام لگایا ، خود ہی مقدمہ چلایا، خود ہی منصف بن گئے اور خود ہی جلاد بھی۔ اس مذہب کے نام پر جو گواہی مکمل نہ ہونے پر حد ود تک ساقط کرنے کا حکم دیتا ہے، تم نےایک جیتے جاگتے انسان کو، جو غالب امکان ہے کہ ابھی بھی نبی ﷺ کا کلمہ پڑھتا تھا، بغیر اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیئے موت کی نیند سلا دیا۔ مقتول مشال کا تو ناموس رسالت ﷺ کا مجرم ہونا اب شاید تا قیامت مشکوک ہی رہے گا، مگر تم سب ناموس رسالت ﷺ کے نام پر اپنی حیوانیت دکھا کر خود ناموس رسالت ﷺ کے مجرم بن گئے ہو۔ آقا ﷺ کا نام لے کر اس قدر ناپاک کھیل! شرم آنی چاہیئے ان انسان نما درندوں کو اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو۔ یہ قاتل ہیں، عاشق نہیں۔ عاشق تو اپنے محبوب کی ہر ہر ادا کو عزیز رکھتا ہے۔ وہ تو اپنے ہر ہر عمل میں اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ کہیں میرا کوئی عمل میرے محبوب کے لیے ایذا کا باعث نہ بن جائے۔ یہ کیسے عشاق ہیں جن کو پروا ہ ہی نہیں کہ ان کا عمل ان کے معشوق ﷺ پر کس قدر گراں گزرے گا!
جب یہ واقعہ خبروں میں آیا اور اس کے ساتھ ناموس رسالت ﷺ کا ذکر ہوا تو میں نے خود مقتول مشال کی فیس بک پروفائل دیکھی۔ مرحوم کی حالیہ کسی سرگرمی سے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ شانِ رسالت میں کسی گستاخی کا مرتکب ہوا ہے یا ایسا کچھ کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوگا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ مرحوم سوشل ازم سے ضرور متاثر تھا، مگر اس کی کسی سرگرمی سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ وہ ملحد تھا۔مرحوم ایک لبرل سوچ رکھنے والا پشتون قوم پرست ضرور تھا، مگر اس سے یہ کیسے لازم آجاتا ہے کہ وہ لازماً ملحد ہو۔ میری ذاتی رائے میں ایسا تقریباً ناممکن ہے۔ یوں تو اے این پی والے بھی اپنے اجتماعی معاملات میں بہت لبرل سوچ رکھتے ہیں، مگر نجی زندگی میں ان کو دین کے احکامات مثلاً نماز روزہ وغیرہ کی پابندی کرتے خود دیکھا ہے۔ پختون کتنا بھی لبرل کیوں نہ ہو، اکثریت کے دل سے اسلام کبھی نہیں نکلتا۔ کچھ ایسا ہی گمان مجھے مرحوم مشال کے بارے میں بھی ہے، اور ہمیں یہ حکم بھی ہے کہ اپنے بھائی کے بارے میں حسن ظن سے کام لیں۔ پھر کس منطق کی بنیاد پر یہ نجی عدالتیں سجائی جارہی ہیں اور شیڈو ٹرائل کئے جا رہے ہیں؟ کسی کے پا س رتی برابر بھی جواز ہے تو مجھے بتائے۔
ان وحشیانہ اقدامات سے ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ میں اگر رائی کے دانے کے برابر بھی بہتری آئی ہو تو کوئی سامنے لائے۔ الٹا ان چند گنواروں کی حرکتوں کو وجہ سے دین کے دشمنوں کو مستقل ایک نکتہ ملا ہوا ہے مسلمانوں کی نبی اکرم ﷺ سے محبت کا مذاق اڑانے ، اور تحفظ ناموس رسالت کی سنجیدہ کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے۔ اور اب یہ جو روش چلی ہے کہ کسی کو بھی مشکوک،گمنام گستاخانہ مواد تقسیم کرنے والے شوشل میڈیا پیج کا منتظم بتلا کر اس پر دھاوا بول دینا، یہ اس قدر خطرناک کہ اس کے نتائج کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لئے عالی دماغ ہونا ضروری نہیں۔ اگر ابھی اس روش کا تدارک نہ کیا گیا، تو جو عوام کی اخلاقی حالت ہے، الامان الحفیظ! کل کو کسی بھی راہ چلتے پر اس کا مخالف ’’وہ دیکھو بھینسا پیج کا ایڈمن جارہا ہے‘‘ کی صدا بلند کر کے اپنے پرانے حساب چکانےکے لئے پل پڑے گااور ساتھ میں جذباتی لوگوں کا ایک جم غفیر نعرہ تکبیر لگا کر میدان میں ’’گستاخ کی ایک سزا‘‘ نافذ کرنے کود پڑے گا۔
میں اس موقع پر کسی بھی ایسے بیانئے کہ حق میں نہیں جو اس بربریت کو موہوم سا جواز بھی مہیا کرے۔ اگر آپ کا استدلال یہ کہ ایسا عوام کے عدالتی نظام سے مایوسی کے نتیجے میں ہوتا ہے، تو پھر اس کلیے کا اطلاق دیگر جرائم پر کیوں نہیں ہوتا؟ کیا دیگر تمام معاملات میں عدالتی نظام مثالی کہ وہاں آپ از خود انصاف کرنے نہیں نکل پڑتے؟ جب وہاں قانون کو ہاتھ میں لینا ایک ناپسندیدہ امر ہے ، تو آقائے نامدار ﷺ کے ناموس مبارک کا معاملہ دیگر مسائل سے کہیں بڑھ کر مقدس ہے کہ اس کی آڑ لے کر قانون شکنی کی جائے۔ پھر آپ نے کون سا اتمام حجت کر لیا تھا جو آپ پر یکدم مایوسی چھا گئی؟ آپ کوشش تو کرتے معاملے کی رپٹ درج کروانے کی، مقتول پرمقدمہ قائم کرکے دلائل اور شہادتوں سے اس کا مبینہ جرم ثابت کرنے کی۔ اگر عدالت میں جرم ثابت ہونے کے بعد بھی اسے کوئی رعایت ملتی اور پھر آپ عدم انصافی کا عذر تراشتے تو شاید وہ در خوراعتنا بھی ہوتا۔ آپ کو کس نے آسان راستہ اختیار کرنے کا لائسنس دے دیا؟ جبکہ اس ملک کے عدالتی نظام میں جسٹس شوکت صدیقی جیسے لوگ ابھی باقی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک کھوکھلا جواز ہے جو آپ عشق رسول ﷺ میں اپنی سہل پسندی کو فراہم کر رہے ہیں جو آپ کو مقدمہ بازی کی مشقت اٹھانے سے روکتی ہے۔
تاہم یہ اس سانحے کا ایک انتہا پسندانہ پہلو ہے۔ اس کا دوسرا انتہاپسندانہ پہلو وہ ہے جو ہمیں حسب سابق دیسی لبرل فاشسٹوں کی جانب سے دیکھنے کو مل رہا ہے، جن کو شاید پانی بھی ہضم نہیں ہوتا اگر وہ ہر ایسے واقعے کے بعد مولوی کی آڑ لے کر اسلام کو نہ لتاڑ لیں۔ مشال کے معاملے پر بھی ان کی یہی خطرناک روش جاری ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی کون سے مدرسے میں یہ واقعہ پیش آیا تھا؟ بلوائی کون سے دارالعلوم کے سند یافتہ یا طالب علم تھے؟ کون سے دارالافتا کے رئیس نے مرحوم مشال کے قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا؟ اس کے مظلومانہ قتل کے بعد کس ’’دیوبندی تکفیری ‘‘ نے قاتلین کو ہار پھول پہنائے یا ’’جرنیلِ تحفظ ناموس رسالت‘‘ کا خطاب عطا کیا؟ کس دنیا میں رہتے ہیں آپ؟ کیا آپ نے اس بربریت کے مظاہرے کے بعد سامنے آنے والے مذہبی طبقے کے عمومی موقف کو جاننے کی کوشش بھی کی؟ الحمداللہ انہیں ’’تکفیری دیوبندیوں‘‘ نے مرحوم کے قتل کی آپ سے بڑھ کر مذمت کی ہے۔
جہاں آپ مرحوم کو موت کے بعد بھی ملحد ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں تاکہ اس کی لاش پر کھڑے ہو کر اپنے نام نہاد استحصال کا رونا تو سکیں اور الحاد کا چورن بیچ سکیں۔ الحمد اللہ مذہبی طبقے نے تو کھل کر کہا کہ مرحوم کے ملحد ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، اور اگر بالفرض وہ ملحد تھا بھی تو اس کا یوں ماورائے عدالت قتل کسی درجے میں جائز نہیں، کہ یہی صائب رائے ہے، مگر آپ یہ سب نظر انداز کر کے ایک بار پھر ناموس رسالت ﷺ اور اس کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قانون کے لیے اپنے خبث باطن کا اظہار کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ شور مچایا جا رہا ہے کہ سب اس قانون کی وجہ سے ہواہے، اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے، وہی پرانے منجن! مجھے حیرانی ہوتی کہ ان بقراطوں اتنی سے بات سمجھ نہیں آتی کہ یہاں مسئلہ قانون کے غلط استعمال کا ہے یا قانون کے عدم استعمال کا؟ قانون کا استعمال توتب غلط کہلائے گا جب اس کے تحت کسی پر جھوٹا الزام لگا کر عدالت سے اس کو سزا دلوائی جائے۔ اس میں بھی ملزم کے پاس ٹرائل کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک کئی فورم مہیا ہوتے ہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے۔ اس حوالے سے اعداد و شمار بھی یہی بتاتے ہیں کہ اکثر مقدمات میں ملزمان کو سزا نہیں ہوئی ۔ 80 کی دہائی میں اپنے نفاذ کے بعد سے آج تک کسی کو بھی ابھی تک ان قوانین کے تحت سزائے موت نہیں دی گئی ۔ جن کو سزائے موت سنائی گئی ان کی سزا پر بھی بوجوہ آج تک عمل نہیں ہوا۔ معروف اعداد و شمار کے مطابق آج تک توہین مذہب و رسالت کے 1300 مقدمات درج ہوئے ہیں، جن میں سے 51 لوگوں کی موت واقع ہوئی، وہ بھی ماورائے عدالت قتل کی صورت میں، نہ کہ عدالتی سزا کی وجہ سے۔ یعنی ان کی موت کا سبب قانون کا غلط استعمال نہیں، قانون کا عدم استعمال رہا۔ جہاں قانون اپنی عملداری قائم رہا وہاں تو 1249 لوگوں کی جان سلامت رہی۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ عوام کی اکثریت نے قانون کا ’’صحیح‘‘ استعمال کیا۔ جبکہ عدم استعمال کی شرح 4فیصد سے بھی کم ہے! سوچیں اگر عوام کے پاس قانونی آپشن سرے سے ہوتا ہی نہیں تو دیگر 1249 لوگوں کی زندگیوں کی کیاضمانت ہوتی؟ یہ جو خودساختہ عدالتیں ابھی 4 فیصد سے بھی کم جنونی لگا رہے ہیں، کیا دیگر کے پاس بھی صبر کرنے کے علاوہ دوسرا آپشن صرف یہی نہیں ہوتا؟ اتنے واضح اور چشم کشا حقائق کے بعد بھی آپ کا اصرار ہے کہ عوام سے قانونی کاروائی کا آپشن ہی واپس لے لیا جائے تو یقیناً آپ اپنے بھائی بندوں کے تحفظ سے زیادہ اس ملک میں انتشار پھیلاکر تماشہ دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جتنی تعداد 295سی کے ماورائے عدالت متاثرین کی ہے، اس سے کہیں بڑی تعداد تعزیرات پاکستان کی دیگر دفعات کے عدالتی متاثرین کی ہے، جنہیں جھوٹے مقدمات میں سزائیں سنا کر ان پر عمل درآمد بھی کردیا جاتا ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں جھوٹا الزام لگانے والے کو وہی سزا دو جو وہ ملزم کو دلوانا چاہتا تھا، فرق یہ ہے کہ آپ پورے آئین اور تمام تعزیرات میں فقط ناموس رسالت کا قانون ہی اس اصلاح کا محتاج نظر آتا ہے، اور ہم مکمل نظام کی اصلاح چاہتے ہیں۔
امید ہے کہ مقتول مشال کے قاتل جلد گرفتار ہو کر قانون کی پکڑ میں آئیں گے اور جرم ثابت ہونے پر انہیں قرار واقعی سزا دے کر ایک مثال قائم کی جائے گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply