عدم برداشت، آخر کب تک

کیا آپ میں اتنی ہمت ہے کہ اپنے مخالف فریق کی ایسی باتوں کو تحمل سے سن سکیں جو آپ کے خیالات کی نفی کر رہی ہوں؟
کیا آپ دوسرے کی ان باتوں کو جو آپ کے مطابق سو فیصد غلط ہیں سن کر حوصلے کے ساتھ اپنے حواس قابو میں رکھ کر ان کا جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں؟
کیا آپ میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ جوآپ کے خیالات کی نفی کر رہا ہے جدا ہوتے ہوئے آپ اس کے ساتھ ہاتھ ملائیں اور دوسرے ہاتھ سے اس کے کندھے پر تھپکی دیں؟
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی آپ کو غصہ دلانے کی کوشش میں ہو اور آپ اسے ناکامی کا منہ دکھا دیں؟
کیا آپ نے کبھی اپنے اندر اُس آنکھ سے جھانکا ہے جو دوسروں کے عیب تلاش کرنے کی کوشش میں رہتی ہے؟
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جو علم آپ کو پڑھایا گیا ہے وہ حرف آخر نہیں ہے اس میں سے کچھ غلط بھی ہو سکتا ہے؟
کیا آپ یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں کہ آپ کسی بات کو سمجھنے میں غلطی بھی کھا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے سمجھانے والے کا مطلب کچھ اور ہی ہو؟
کیا آپ واقعی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ علم کبھی مکمل نہیں ہوتا سیکھنے کی گنجائش ہر آن باقی رہتی ہے؟
کیا آپ ہارنے پر جیتنے والے کو گلے لگانے کی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟
آپ اگر کسی سیاسی پارٹی کے جیالے ہیں.
تو کیا آپ مخالف پارٹی کے لیڈر کے کسی بیان کی داد دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔؟
کیا آپ کی آنکھ مخالف پارٹی کے کسی منصوبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی طاقت رکھتی ہے؟
کیا آپ اپنے ہی لیڈر کے کسی بیان کی مذمت کر سکتے ہیں؟ یا کیا آپ اپنی پارٹی کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہونے کا اظہار کر سکتے ہیں؟
کیا آپ اپنے حلقہ احباب میں ان لوگوں کو جگہ دے سکتے ہیں جو آپکی مخالف پارٹیز کے ووٹرز ہیں۔ یا کیا آپ گالی دیئے بغیر دوسری پارٹی لیڈرز کا ذکر کر سکتے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

آج ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر جس نہج پر جا رہا ہے اگر ہم نے اجتماعی کوششوں سے اسے سنبھالنے کی کوشش نہ کی تو شاید ہماری آنے والی نسلیں کبھی ہمیں معاف نہ کریں۔ عدم برداشت کی حالت یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے مخالف فریق کی بات تک سننے کو تیار نہیں۔ خود میں کتنی ہی برائیوں کیوں نہ ہوں ہم خود کو دوسروں سے افضل سمجھتے ہیں اور دوسروں کے اخلاق بھلے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں چونکہ وہ ہمارا مخالف فریق ہے اس لئے بہرحال وہ غلط اور ہم سے کمتر ہے۔
مذہب کا نام لے کر ہم دوسروں کی جان و مال تک چھین لینے کو ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ اکثریت کا یہ اعتقاد ہے کہ اگر کسی پر گستاخی کا الزام لگ جائے تو اسے اپنی صفائی دینے کا بھی حق نہیں فوراً سے پہلے اس کی گردن اس کے تن سے جدا کرنا ہی کارثواب ہے۔ آئے دن ہماری اقلیتیں (لفظ اقلیت بذات خود امتیازی سلوک کا ترجمان ہے) ہم سے پوچھتی ہیں کہ ہمیں کس قصور کی سزا مل رہی ہے۔ ہمارا جواب ہوتا ہے کہ ہم نے تو ایسا ہی سلوک کرنا ہے تم اگر اتنے ہی تنگ آ چکے ہو تو چھوڑ دو ہمارا ملک۔
ستم تو یہ ہے کہ جو ملک چھوڑ جاتے ہیں انہیں بھی یہ طعنے سننے کو ملتے ہیں کہ یہ باہر جا کر ہمارے ملک کا نام بدنام کر رہا ہے۔
مذہب تو دور کی بات یہاں تو سیاسی کارندے اپنے لیڈرز کو خدا بنائے بیٹھے ہیں۔ انکے لیڈر کے خلاف کوئی بات ہوئی نہیں اور ان کی زبان کھلی نہیں۔ سوشل میڈیا نے پلیٹ فارم مہیا کر رکھا ہے بس ایک دنگل جاری ہے۔ اٹھتے ہیں اور شروع ہو جاتے ہیں اور یہ کام جاری رہتا ہے جب تک سو نہیں جاتے۔
سوشل اور الیکٹرانک میڈیا مثبت کی بجائے منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے خبر پہنچانے کے چکر میں میڈیا نےایسا بے حس بنا دیا ہے کہ اب چھوٹے موٹے واقعات ہماری توجہ کا مرکز ہی نہیں بنتے۔ کسی نے کسی کو گالیاں دے دیں اس کا گریبان پھاڑ دیا بالکل بورنگ قصے لگتے ہیں۔
کہتے ہیں منزل سامنے بھی ہو تو اگر قدم اٹھانا ہے تو منزل کی طرف اٹھاؤ ورنہ اپنے قدم روکے رکھو۔ اگر منزل سے مخالف سمت ایک قدم بھی اٹھایا تو واپس منزل تک پہنچنے کے لئے دوہری مشقت اٹھانا ہو گی۔ ہم تقریباً پچھلی پانچ دھائیوں سے عدم برداشت اور شدت پسندی کے راستے پہ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ آخر ہم کب سمجھیں گے اس سمت میں چلنے سے ہم منزل کے نزدیک نہیں بلکہ منزل سے مسلسل دور ہوتے جا رہے ہیں۔ جتنا دور گئے واپسی اتنی ہی مشکل ہو گی۔
آئیے واپسی کا سفر شروع کریں پرامن پاکستان کی طرف۔ قبل اس کے کہ واپسی کے دروازے بند ہوجائیں۔ ہم اگر دوران سفر اپنا وجود کھو بھی بیٹھے تو غم نہیں کہ ہماری نسلیں اس منزل پر پہنچ کر سکون محسوس کریں گی جس کی طرف ہم نے سفر شروع کیا تھا۔
ابھی نہیں تو کبھی نہیں

Facebook Comments

محمد شفیق عادل
ذیادہ لکھنا پڑھنا نہیں آتا. اور ذیادہ کوشش بھی نہیں کی. بس کبھی آنکھ کھلتی ہے تو قلم پکڑ لیتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply