• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • روس اور افغان طالبان کے تعلقات کی حقیقت۔۔۔طاہر یاسین طاہر

روس اور افغان طالبان کے تعلقات کی حقیقت۔۔۔طاہر یاسین طاہر

دنیا ایک نئی سرد جنگ کی طرف چل پڑی ہے۔ اس جنگ کے مرکزی کردار بھی بے شک روس اور امریکہ ہی ہوں گے، جبکہ چین اس بار روس کا اعلانیہ پارٹنر اور اس جنگ کا فرنٹ لائن ہوگا۔ روس کے سفارت کاروں کو پہلے برطانیہ، پھر امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک سے بے دخل کیا جانا اسی جنگ کی طرف پیش قدمی ہے۔ ملکوں کے خارجہ تعلقات کے اتار چڑھائو پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار جانتے ہیں کہ کسی ملک کے سفارت کاروں کو دنیا کے اہم ترین ممالک سے یکے بعد دیگرے بے دخل کرنے کا مقصد کیا ہے۔ روسی سفارت کاروں کو بے دخل کیوں کیا جا رہا ہے؟ اور اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟ یہ موضوع کسی دوسرے مقام کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ ہاں طے شدہ حقیقتیں تبدیل نہیں ہوتی ہیں۔ یہ بات طے ہو رہی ہے کہ اس خطے کے لئے یک نئی جنگ ڈیزائن کی جا رہی ہے۔ اس جنگ کا ہدف چین، پاکستان اور ان دونوں کا یقینی اتحادی روس ہے۔ داعش کے افغانستان میں ڈیرے اور اس دہشت گرد تنظیم کو شام و عراق سے پاکستان کے پڑوس میں لانے کے لئے عالمی اسٹیبلشمنٹ نے خاص محنت کی ہے، مگر انہیں اپنی محنت کا پھل ملتا نظر نہیں آ رہا۔ آپریشن ضرب ِ عضب نے داعش کے راستے روک دیئے ہیں۔ یہ الگ سے ایک تحقیقی موضوع ہے۔ امریکی البتہ ہیجان کا شکار نظر آتے ہیں۔ امریکی صدر کے بارے میں دنیا کے سارے تجزیہ کار متفق ہیں کہ وہ غائب الدماغ اور جارحانہ مزاج ہیں۔
افغانستان میں لڑنے والے امریکی فوجیوں کی مہارت پہ شک نہیں، مگر وہ فوجی و نقلی اعتبار سے اپنی طے شدہ امریکی ڈاکٹرائن کی طرف گامزن ہیں۔ کالم نگار کا یہ یقین ہے کہ امریکیوں کا ہدف افغانستان پہ قبضہ یا افغان طالبان کا خاتمہ کبھی بھی نہیں رہا۔ بالخصوص نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جارحانہ بمباری شروع کی، تو بھی حملہ آوروں کا ہدف اپنی ہیبت بٹھانا تھا نہ کہ افغان طالبان کا خاتمہ۔ اس حوالے سے کئی بار لکھ چکا ہوں۔ امریکی البتہ اپنی ظاہری ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے آرہے ہیں۔ ایسا غالباً پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ نے روس پہ الزام عائد کیا کہ روس افغان طالبان کو  امریکہ کے خلاف منظم کر رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج کے سربراہ نے بی بی سی کو ایک انٹرویو بتایا ہے کہ روس نہ صرف طالبان کی مدد کر رہا ہے بلکہ انہیں اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے۔ جنرل جان نکولسن نے کہا کہ انہوں نے روسیوں کی جانب سے غیر مستحکم کرنے والی سرگرمیاں دیکھی ہیں۔ افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ روسی ہتھیاروں کو تاجکستان کی سرحد سے سمگل کیا جا رہا ہے، تاہم وہ اس کی تعداد نہیں بتا سکتے۔ جنرل نکولسن نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ہم نے افغانستان میں شدت پسند تنظیم کے جنگجوؤں کی موجودگی کو ایک ثبوت کے طور پر دیکھا ہے۔
جنرل جان نکولسن نے یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس طالبان کی جانب سے لکھی جانے والی ایسی کہانیاں موجود ہیں، جو میڈیا میں شائع ہوئی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ دشمن نے ان کی مالی مدد کی۔ ہمارے پاس ہتھیار ہیں، جو ہمیں افغان رہنماؤں نے دیئے ہیں اور یہ ہتھیار روسیوں نے طالبان کو فراہم کئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس میں روسی ملوث ہیں۔ اس سے قبل واشنگٹن میں کانگریس ممبران کو نیٹو کے جنرل کرٹس نے بھی بتایا کہ  شاید روس طالبان کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ بی بی سی کے مطابق جنرل کرٹس کی جانب سے یہ الزام ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب ایک ماہ قبل افغانستان میں نیٹو فورسز کے امریکی کمانڈر نے کہا تھا کہ روس طالبان کو بڑھاوا دے رہا ہے اور افغانستان میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے اور نیٹو کو شکست دینے کے لئے سفارتی ڈھال کا استعمال کر رہا ہے۔ روس ان تمام الزامات کی برملا تردید کرتا آرہا ہے، البتہ روس یہ مانتا ہے کہ اس کے طالبان کے ساتھ محدود روابط ہیں، جن کا مقصد ان کو مذاکرات کے لئے آمادہ کرنا ہے۔
سفارتی جنگیں بڑی پیچیدہ اور اپنے اندر کئی گرہیں لئے ہوتی ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ جنگ کی پہلی مقتولہ سچائی ہوتی ہے۔ نہ تو امریکہ اور نیٹو پورا سچ بول رہے ہیں اور نہ روس و افغان طالبان۔ یہ بات اپنی جگہ بڑی حیرت افروز ہے کہ امریکہ کن بنیادوں پہ اور کیوں افغان طالبان سے مذاکرات کرے گا؟ اور افغان طالبان کے پاس مذاکرات کی میز پر لینے کے لئے کیا ہے؟ اور دینے کو کیا ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس وقت افغانستان سمیت خطے کو افغان طالبان سے بھی بڑا خطرہ داعش سے ہے اور داعش امریکی فوجوں پر حملہ آور ہونے کے بجائے مسلمانوں کے قتل میں زیادہ “لطف اور ثواب” لیتی ہے۔ روس جانتا ہے کہ موجودہ افغان طالبان وہ ہی “مجاہدین” یا ان کی ولادیں یا پیروکار ہیں، جو امریکہ اور پاکستان نے مل کر روس کے خلاف بنائے تھے۔ ہاں مسلسل جنگ نے ان “مجاہدین” کو کم از کم یہ بات سمجھا دی کہ عالمی مفادات کی منڈی میں ان کا بری طرح استعمال ہوا ہے۔ ان کی مگر مجبوری یہ ہے کہ نام نہاد جہادی جذبے سے سرشار افغانستان کی قتل گاہ میں مصروف ہیں۔
امن انسان کی اولین ضرورتوں میں سے ہے۔ افغان طالبان کی نگاہ بھی محفوظ راستے کی طرف ہے، جبکہ روس کی خواہش ہے کہ امریکہ سے اپنا بدلہ چکائے۔ حالات کا بدلتا دھارا روس و افغان طالبان کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ ابھی دونوں ایک دوسرے پہ پورا بھروسہ نہیں کر پا رہے مگر تا بہ کے؟ طالبان جان چکے ہیں کہ روس نے ایران اور شامی فوجوں کے ساتھ مل کر شام سے داعش کو نکالنے میں فیصلہ کن کردارا ادا کیا۔ وہ اپنے فہم میں افغانستان سے امریکہ کو نکالنے کے لئے روس کے کردار کے متمنی ہیں۔ یہ کردار مگر ویسا نہیں ہوگا جیسا روس نے شام میں ادا کیا۔ یہاں روس کا کردار اور طرح کا ہوگا اور خطے میں ایک نئی گرم و سرد جنگ کی لہر اٹھے گی۔ ایک ہیجان اور نفسیاتی کشمکش اس کے سوا ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply