اچھا ملک ریاض، برا ملک ریاض

ماضی قریب میں جنرل (ر) راحیل شریف نے محترم جناب لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب صاحب کے توسط سے قوم سے یہ گلہ کیا کہ جن کے لیے چند دن قبل میں ہیرو کا درجہ رکھتا تھا ، اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیے میرا نام سامنے آنے پر انہوں نے ہی ایسے مجھ سے منہ پھیرا کہ جیسے میں نے کوئی جرم کر دیا ہو۔ اور پاکستان کے خلاف کوئی کام کرنے جا رہا ہوں۔ اور اس میں حقیقت بھی ہے جو لوگ ٹرکوں ، بسوں، رکشوں پہ جنرل صاحب کی تصاویر بنا بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہوئے انہیں ہیرو قرار دیتے تھے انہوں نے ہی ان کی ذات کے وہ بخیے ادھیڑے کے الاماں۔۔۔ اور اب ایک سیاسی جماعت ان کی اس اتحاد کی سربراہی کے حوالے سے باقاعدہ پارلیمنٹ کے فورم پہ احتجاج کا عندیہ بھی دے چکی ہے۔ یعنی کل کا ہیرو آج زیرو بنا نہیں دیا تو کم از کم ہیرو کی مسند سے اتارا جا چکا ہے۔ یہ دیکھے بناء کہ اس کے اس فیصلے سے امت مسلمہ اور پاکستان کو کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اور خطے میں اس کا کردار کتنا سود مند ہو سکتا ہے۔
کچھ ایسا ہی آج کل پاکستان کے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض حسین کے ساتھ ہو رہا ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے راولپنڈی صدر، گھکھڑ پلازہ میں آ گ لگی تو انتظامیہ کے پاس مناسب انتظام نہیں تھا ، بحریہ ٹاؤن کے فائر بریگیڈ نے آگ بجھانے میں مدد فراہم کی کہ ان کے پاس ٹیکنالوجی جدید تھی۔ اور موقع پر موجودلوگ تشکر کی نگاہوں سے گاڑیوں پر لگے بحریہ ٹاؤن کے مونوگرام کو دیکھ رہے تھے۔ زلزلہ آیا ملک ریاض آگے بڑھا، عوام کا ہیرو بن گیا۔سیلاب کی تباہ کاریاں پھیلیں ، نظریں ملک ریاض کی طرف گئیں، غریبوں نے جھولیاں پھیلا کر دعائیں دیں۔ قزاقوں نے پاکستانیوں کو یرغمال بنا لیا، پوری حکومتی مشینری ہوتے ہوئے، آگے ملک ریاض بڑھا، کئی گھرانوں کو اجڑنے سے بچا لیا۔
تمام ٹی وی چینلز ، اخبارات و سوشل میڈیا نے خاندان کے افراد، چھڑائے جانے والوں کے بچوں کی دعائیں براہ راست دکھائیں، ملک ریاض ہیرو بنا ۔ پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی مرکز میں کچرے کے ڈھیر جمع ہو گئے۔ حکومتی مشینری پوری طرح ناکام ہو گئی ۔ نتیجتاً شاہراہیں بند ہونے لگیں، گٹر ابلنے لگے، ہزارو ں ، لاکھوں تنخواہیں لینے والے چپ سادھے کسی مسیحا کا انتظار کرتے رہے۔ ملک ریاض یہاں بھی آگے آیا اور ایک شاہراہ نمونے کے طور پر مانگی کہ جس کی صفائی کی جا سکے، کچرے کو ٹھکانے لگایا جا سکے۔ ایک شاہراہ دے دی گئی ۔ اور کچرا ٹھکانے لگ گیا۔ ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کی واہ واہ بھی ہو گئی اور ہیرو بھی بن گیا۔
یہاں تک ملک ریاض بہت اچھا تھا، اور ہیرو بھی تھا۔ یہاں سے نئی کہانی نے جنم لیا۔شہر قائد کا باغ ابن قاسم جو 130ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اس کی دگرگوں حالت کو دیکھتے ہوئے حکومت سندھ نے اس پارک کو دس سال کے لیے بحریہ ٹاؤن کو لیز پہ دینے کا معائدہ کر لیا۔ اس معائدے میں ہرگز اس پارک کی ہیئت تبدیل کرنے کے بارے میں کوئی خیال نہیں تھا نہ اس کو بحریہ ٹاؤن کو فروخت کرنے کے حوالے سے کوئی بات چیت ہوئی۔ اس باغ کو لیز پر دینے کا واحد مقصد اس اجڑتے ہوئے باغ کی ہریالی واپس لوٹانا تھا۔ اور کراچی کے عوام کو دوبارہ ایک ایسی تفریح فراہم کرنا تھا جو وقت کے تھپیڑوں سے مٹی میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی ۔ لیکن ملک ریاض حسین کو شاید پتا نہیں تھا کہ اس ایک قدم سے وہ اچھے ملک ریاض حسین سے برے ملک ریاض حسین بن جائیں گے۔ بدقسمتی سے کیوں کہ بحریہ ٹاؤن پراپرٹی کمپنی ہے۔ اور تعمیراتی مراحل سے ڈیل کرتی ہے۔
لہٰذا کچھ میڈیا گروپس نے یہ واویلا شروع کر دیا کہ اس باغ کو بحریہ ٹاؤن کے ہاتھوں بیچ دیا گیا ہے۔ کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ اگر پارک کی ہئیت تبدیل نہیں ہو رہی ، پارک کا سبزہ قائم رہنا ہے، بلکہ پہلے سے بہتر انداز میں قائم رہنا ہے، پارک میں لوگوں کو معیاری تفریح عالمی معیارات کے مطابق ہی ملتی رہنی ہے تو پھر ان میڈیا گروپس کو کیسے الہام ہو گیا کہ اس پہ بحریہ نے پلازے بنا دینے ہیں۔ جب کہ یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی ایک عمدہ سی مثال تھی۔ مگر اس کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔ اور جو میئر کراچی وعدے کے باجود کچرا صاف نہ کر پائے وہ بھی اس سیاست میں یوں کود پڑے جیسے راتوں رات پارک کی جگہ پلازہ بن چکا ہو۔میرے ایک عزیز دوست نے ملک ریاض کو ان داتا اور نہ جانے کیا کہہ کے طنزاً لفظوں کے نشتر چلا ڈالے۔
ملک ریاض حسین نے کہہ دیا ہے کہ جب تک تمام فریقین متفق نہ ہوں وہ پارک کا کنٹرول نہیں سنبھالیں گے۔
لہٰذا میرے عزیز دوست خوش ہو جائیں کہ کچھ عرصہ مزید ابن قاسم باغ کا سبزہ اجڑنے کا وقت مل گیا ہے۔ اور ملک ریاض صاحب سے اتنی سی گذارش ہے کہ آپ ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔ یہ دھول مٹی میں اٹے رہیں گے اف نہیں کریں گے، جیسے ہی کوئی ان کے بھلے کی بات کرئے گا یہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اگر کراچی کے عوام اس باغ کو خوبصورت نہیں دیکھنا چاہتے تو ملک صاحب آپ اپنی باقی خواہشیں بھی بحریہ ٹاؤن میں ہی پوری کر لیجیے اور باغ کو مٹی میں مزید مٹی ہونے دیں ۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply