میں ہمیشہ لکھتا ہوں کہ قوموں کی زندگی میں جب قیادت کا فقدان اور سیاست میں قحط الرجال ہو تو اُس قوم کے فیصلے ہمیشہ غیروں کے اشاروں پر ہوتے ہیں۔ میرا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جہاں میں اگر اپنے حقوق کیلئے قلم اُٹھاؤں یا لب کشائی کروں تو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ میں ایک ایسے علاقے کافرد ہوں جہاں اظہارِ رائے کی آزادی کتابوں میں بھی موجود نہیں کیونکہ یہاں مراعات کی خاطر انسانی اور ریاستی حقوق کے سوداگر حکمرانی کرتے ہیں ۔ مسئلہ کشمیر سے منسلک گلگت بلتستان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چُکا ہے۔ لہٰذا ماضی کے قصوں میں جائے بغیر موجودہ صورت حال پر بات کریں ۔
خدا کی مہربانی ہے کہ یہ عظیم خطہ جو پچھلے ستر سالوں سے بنیادی سیاسی حقوق سے محروم تھا مگر سی پیک کی آمد نے اس خطے کی اہمیت کو مزید چار چاند لگادیئے ہیں ۔لہٰذا آج ہم دیکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے مسئلے کو لیکر پاکستان سمیت عالمی طاقتیں سوچنے پر مجبور ہیں کہ سی پیک کی قانونی حیثیت کو یقینی بنانے کیلئے اس خطے کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کیلئے کونسا فارمولا اچھا رہے گا۔ قارئین کو معلوم ہونا چاہئے کہ گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہے اور سی پیک گزارنے کیلئے گلگت بلتستان کے 600کلومیٹر رقبے کا استعمال ضروری ہے لیکن یہ خطہ چونکہ آج بھی آئینی اور قانونی طور پر کسی ملک کا قانونی حصہ نہیں ،گلگت بلتستان کی قسمت کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ مربوط ہے جوکہ اُس وقت کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کا نتیجہ تھا ۔
سی پیک کیلئے قانونی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے چائنا کے خدشات کے پیش نظر پاکستان کے فیصلہ سازوں نے شاید محسوس کیا کہ اب گلگت بلتستان کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کے حوالے سے کچھ باتیں کیا گردش میں آئیں کہ دنیا بھر میں مقیم کشمیری سڑکوں پر نکل آئے اور اس فیصلے کو تقسیم کشمیر کی سازش قرار دے کر مسترد کیا حالانکہ کشمیریوں کے اس مطالبے کے بالکل برعکس پیپلز پارٹی کے دور میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں اس خطے کو آئینی طور پر پاکستان میں شامل کرنے کے حوالے سے کئی بار متفقہ قراداد پاس کرچُکی ہے لیکن اُس قراداد کے بارے میں کوئی خبر نہیں ۔ یوں اس تمام صورت حال کو دیکھ کر 12اپریل کو اسلام آباد میں کشمیریوں نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا اصل مقصد گلگت بلتستان صوبے کی افواہوں کو دفن کرنا تھا کیونکہ کشمیریوں کی رائے یہی ہے جسے پاکستانی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان سابق ریاست جموں کشمیر کی ایک اکائی ہے اور اس خطے کے مستقبل کا فیصلہ 84ہزار مربع میل سے جڑا ہوا ہے لہٰذا پاکستان کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ایک متنازعہ علاقے کو بغیر رائے شماری کے اپنے ساتھ ضم کرے۔
اُس کانفرنس کے مقررین کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بناتے ہیں تو بھارت جو پہلے ہی مقبوضہ کشمیر کو آئینی حصہ بنانے کیلئے تیار بیٹھا ہے اور وہ موقع پا کر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل کرسکتا ہے۔ یاد رہے بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی حیثیت حاصل ہے جس کو منسوخ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس میں کوئی ترمیم کی جا سکتی ہے۔ آرٹیکل 370 بھارت اور ریاست جموں کشمیر کے درمیان تعلق کا نظریاتی فریم ورک ہے۔ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت ہے جس کے تحت ہندوستان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ جموں و کشمیر بھارت میں ضم کرے جبکہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 35 اے 1954 کے بعد جموں و کشمیر میں ریاستی اسمبلی اور حکومت کے وضع کردہ قوانین کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے بنائے گئے قوانین کو بھارتی پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔
واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت حاصل محدود خودمختاری کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کسی غیرکشمیری حتیٰ کہ کسی ملٹری افسر کو لاکر آباد کیا جا سکتا ہے نہ اسے جائیداد خریدنے کا حق حاصل ہے۔ دوسری طرٖف آزاد کشمیر ایک الگ ریاستی نظام کے تحت ایک مملکت کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ خود کشمیریوں کی وجہ سے یہ مملکت اختیارات سے خالی ہے لیکن اس تنازعے کا ایک اہم فریق گلگت بلتستان جو بھارتی مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر سے رقبے میں کئی گنا زیادہ ہے اور اس خطے کی اہمیت بھی با لکل مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی طرح ہے لیکن نہ ہی اس خطے کو مقبوضہ کشمیر کی طرح خصوصی آئینی پروٹیکشن حاصل ہے اور نہ ہی آزاد کشمیر طرز کا نیم خود مختار ریاست کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ خطہ چونکہ سی پیک،سیاچن،کے ٹو،شندور ،دیوسائی اور قراقرم کے مالک ہیں اس خطے کی جغرافیائی اور تجارتی اہمیت کشمیر کے دیگر حصوں سے کہیں زیادہ اہم ہے جس کی وجہ سے مملکت پاکستان نے اس خطے کو صدارتی آرڈننس کے تحت ایک نظام دیا ہوا ہے جسے قانون ساز اسمبلی کہتے ہیں لیکن اس اسمبلی کی نہ ہی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت ہے اور نہ ہی اس اسمبلی کے مکینوں کے پاس اس خطے کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ یہ خطہ آج زندگی کے ہرشعبے میں ترقی پذیر یا ترقی یافتہ دنیا سے بہت پیچھے نظر آتا ہے۔
آل پارٹیز کانفرنس میں گلگت بلتستان کے سٹیک ہولڈر کو مدعو نہیں کیا تھا ۔البتہ کچھ افراد نے انفرادی طور پر اس کانفرنس میں ضرور شرکت کی ،راقم نے بھی فیس بک لائیو کے ذریعے اس پروگرام میں شرکت کو یقینی بنایا لیکن سوال کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اچھی بات ہے کہ کشمیریوں کو آج احساس ہوا کہ گلگت بلتستان کو شامل کئے بغیر کشمیر کی تعریف ممکن نہیں۔یہ بھی ایک اچھی پیش رفت ہے کہ کشمیر والوں کو آج احساس ہوا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے ماضی میں اُن کے حکمرانوں سے غلط فیصلے ہوئے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام میں کشمیریوں کے حوالے سے ایک غلط تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ لوگ دراصل حقوق گلگت بلتستان کے خلاف ہیں۔ اس کانفرنس میں جن مطالبات کا ذکر کیا گیا ان میں کشمیر کو ساتھ ملا کر ایک مخلوط حکومت کی تشکیل اور دوسرا آپشن گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کے طرز پر ایک خود مختار نظام دینے کی بات کی۔لہٰذا بحیثیت باشندہ گلگت بلتستان یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام کا نظریہ اس سے قدرے مختلف ہے ۔ہمارے عوام کا دیرینہ مطالبہ آئینی صوبے کیلئے ہے لیکن یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کوفوقیت مل سکتی ہے اور اگر گلگت بلتستان آئینی صوبہ بن جاتے ہیں تو یقیناًاس عمل کیلئے دستور پاکستان میں ترمیم ضروری ہے جس کے بغیر ایسا ممکن نہیں ۔ ایسا کرنے کی صورت میں مملکت خداداد کی خارجہ پالیسی اور اقوام متحدہ کے اندر کشمیر کاز کے حوالے سے گہری ضرب لگ سکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں