وارث علوی،تنقید کا رجحان ساز ناقد۔۔احمد سہیل

میری وارث علوی مرحوم سے آخری ملاقات مارچ 2013 میں ہوئی تھی ۔ اس وقت وہ بہت بیمار تھے۔ زیادہ وقت  مسکراتے رہے اور دھیمے دھیمے باتِیں کرتے رہے۔ سفید رنگ کا آدھی آستین کا روایتی گجراتی کرتا اور نیلا تہبند پہن رکھا تھا۔ پرانی باتیں کرتے رہے۔ اس ملاقات میں نظم نگار اور مصّور جنیت پری مار بھی میرے ہمراہ تھا۔ ان کے انتقال کے بعد جے پور، راجھستان ، بھارت کے ادبی جریدے ” استسفار” شمارہ 2، مارچ 2016 میرا مضمون ۔۔”اردو تنقید نی نئی بازیافت” شائع ہوا تھا۔ [ مدیران : عادل رضا منصوری۔ شین کاف نظام}میرا یہ مضمون میری کتاب ” تنقیدی مخاطبہ”، 2017، ممبئی میں بھی شامل ہے۔
وارث علوی کی ولادت 11 جون، 1928ء احمد آباد، گجرات، ہندوستان میں ہوئی۔ ان کا اصل نام سید وارث حسین علوی تھا۔ اردو، فارسی،انگریزی تینوں زبانوں سے ایم اے کیا۔ سینٹ زیویرس کالج احمدآباد میں پروفیسر رہے اور1988 میں صدر شعبہ انگریزی کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
وارث علوی کا انتقال 9 جنوری 2014ء میں اپنے آبائی گھر آسٹوڑیا،سیدواڑہ، احمد آباد، بھارت میں ہوا۔
وارث علوی احمد آباد گجرات میں پیدا ہوئے اور ساری عمر اسی کے جوار میں بسر کی، مشہور شاعر محمد علوی ان کے پھوپھی زاد بھائی ہیں جن کے بڑے بھائی ان کی خاندانی گدی کو سنبھالے ہوئے ہیں وارث نے ہمارے بیشتر اچھے اردو نقادوں کی طرح عمر بھر انگریزی پڑھائی ان کا انگریزی کلاسیکی اور جدید ادب کا مطالعہ بھی بہت گہرا اور بھرپور تھا مگر ان کی تنقید ہمیں اس کے حوالے سے گراں بار دکھائی نہیں دیتی۔ انتظار حسین نے وارث علوی کے متعلق لکھا ہے ” نئے افسانے پر ان کا اعتراض یہ ہے کہ اس نے جادوئی چھڑی گم کر دی۔ پھر وہ افسانہ نہیں رہا۔ ادب لطیف بن کر رہ گیا۔ یعنی اس قسم کی تحریر کہ افسانے کے نام پر شاعری ہو رہی ہے۔ اچھی نثر غائب، شاعرانہ نثر پر اتر آیا۔ اس چکر میں اچھی نثر بھی ہاتھ سے گئی۔ اور بیچ میں سے کہانی بھی غائب ہو گئی۔ اور پھر یہ ہوا کہ افسانے کا قاری ایسا بِِدکا کہ افسانے کے ساتھ ادب ہی سے بھاگ کھڑا ہوا۔اس سے آگے سنیے ’’ایک زمانہ تھا جب اعلیٰ ترین ناولوں کے تراجم کی ہمارے یہاں ریل پیل تھی۔ عسکری نے فلابیر اور ستاں دال کے ناولوں کے ترجمے کیے۔‘‘ تو پھر کیا ہوا۔ وارث علوی کے حساب سے سنجیدہ فکشن کا قاری بھوکا مرنے لگا ’’انگریزی وہ پڑھتا نہیں، تراجم ہوتے نہیں، روایتی افسانہ دم توڑ چکا ہے اور پڑھنے کے لیے یا تو بیسٹ سیلرز رہ گئے ہیں یا بے کیف اور بدہیئت تجرباتی یا تمثیلی افسانے۔ چنانچہ وہ ادب پڑھنے کے بجائے دوسری تفریحات تلاش کر لیتا ہے۔”وارث علوی اردو میں فکشن تنقید کے میدان میں ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور دبنگ طریقے  سے اپنی راءے کا اظہار کرتے ہیں۔انھوں نے فکشن تنقید بالخصوص افسانے کی تقنید میں نظری اور عملی دونوں اعتبار کے بیش بہا اضافے کیے ہیں۔ انھوں نے شعری تقنید کے عملی نمونے بھی پیش کیے ہیں، نظریاتی تنقید کے مسائل پر بھی لکھا ہے تاہم فکشن تنقید بالخصوص افسانے کی تنقید ان کا خاص میدان ہے اس سلسلے میں انھو ں نے اردو کے بہت سے افسانوں کے لاجواب تنقیدی جائزے پیش کیے ہیں۔ انھو ں نے افسانوی متن کے ان نہاں خانوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے جہاں تک عموماً دوسرے نقادوں کی رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے وہ ادب بلکہ  افسانوی ادب کا ایک منفرد شعور رکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں ترقی پسند تھی پھر اس سے متنفر ہوگئے کیونکہ وہ ادب میں  مارکسی آئیڈیا لوجی کے خلاف تھے۔تخلیق ادب میں وارث علوی نے سخت ریاضت اورسعی پیہم کو شعار بنانے پر توجہ مرکوز رکھی ۔ ان کا خیال تھا کہ مشکوک ،مہمل اور غیر معیاری ادبی تخلیقات کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے ۔اس سلسلے میں وہ کسی سمجھوتے کے بالکل قائل نہ تھے ۔وہ ہر قسم کی عصبیت کے سخت خلاف تھے اور ان کی یہ دلی تمنا تھی کہ ادیب کو حریت ضمیر سے جینے کے لیے کسی قسم کی نظریاتی جکڑ بندی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔وہ تخلیق کاروں کو آزادیء اظہارکے مواقع فراہم کرنے کے پر جوش حامی تھے۔ بیگ احساس نے لکھا ہے ” انہوں نے ترقی پسند نقادوں کی ساری خامیاں نمایاں کیں۔ ان کے اسلوب کے سقم کو واضح کیا۔ وارث علوی جدیدیت سے بھی بہت خوش نہیں رہے جدیدیت کے دور میں جب دوسرے نقاد افسانہ اور شاعری کی نئی نئی تعبیریں کررہے تھے وارث علوی نے ہیتی اور اسلوبیاتی تنقید کی مخالفت کی۔ جدید افسانے کو انہوں نے مکمل رد کیا، اور پورے دلائل کے ساتھ رد کیا۔ وارث علوی نے کسی آئیڈیالوجی، کسی خاص تنقیدی مکتب کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے زندگی کے تجربات، مشاہدے، مطالعے اور علم کو اپنی تنقید کا رہنما بنایا۔ وہ تنقید کو اُبالی کھچڑی نہیں بلکہ دلچسپ بنانے کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تنقید سے آدمی فرحت حاصل کرنا چاہتا ہے جو ایک مہذب اور شائستہ آدمی کی گفتگو میں ہوتی ہے۔ تنقید بھی وہی اچھی لگتی ہے جس میں بصیرت کے ساتھ ساتھ مسرت ہو۔ بے تکلفی، برجستگی اور خوش طبعی ہو۔ اور یہ سارے اوصاف وارث علوی کی تنقید میں پائے جاتے ہیں ۔اسی سبب ان کو کچھ لوگ “منہ پھٹ” نقاد کہتے تھے۔ وارث علوی نے نصابی تنقید اور ناقدین کو بھی  آڑھے  ہاتھوں لیا۔ ان کا خیال ہے”۔ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جاہل کو اس کی جہالت کا انعام مل جاتا ہے ۔چربہ ساز ،سارق ،کفن دُزد اور لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں نے تمام ادبی منظر نامہ گہنا دیاہے ۔تحقیق اور تنقید کی حالت زار کسی سے مخفی نہیں تنقیدی نشستوں نے انجمن ستائش باہمی کی ناقابل برداشت صورت اختیار کرلی ہے ۔عقابوں کے نشین زاغوں کے تصرف میں ۔اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ جید جاہل ،خفاش منش کندہء نا تراش اور بُزِ اخفش رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں ۔ جب سے سندی تحقیق کے ساتھ مدرسین کومالی منفعت اور اضافی ترقیوں کی جھلک دکھائی گئی ہے ،تحقیق اور تنقید کو بازیچہء ا طفال بنا دیا گیا ہے ۔اب ہر مدرس جلد از جلد ایم ۔فل اور پی ایچ ۔ڈی کر کے زرو مال سمیٹنے اور خود کو اعلی تعلیم یافتہ ثابت کرنے کے لیے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی فکر میں مبتلا ہے تعلیمی اداروں میں مدرسین کی صورت میں جو نام نہاد نقاد براجمان ہیں ،ان کی بو العجبیوں اور خام خیالی نے ہمیں اقوام عالم کی صف میں تماشا بنا دیاہے ۔تحقیق اور تنقید کے نام پر جو گل کھلائے جا رہے ہیں انھیں دیکھ کر ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس کے بارے میں کیا کہا جائے اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے “۔ انھوں نے اردو تنقید بالخصوص فکشن کی تنقید میں ایک منفرد طریقۂ کار روا رکھا ہے اور اس طرز تنقید کے وہ ہی خودموجد ہیں اور خود ہی خاتم ہیں ۔ وہ جب کسی متن کے تجزیے پر آتے ہیں تو اس کے اندر اُن تمام محرکات اور جہات کو سامنے لاتے ہیں جو اس کے لفظ و دربست میں پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ بیدیؔ ‘منٹوؔ اور دوسرے افسانہ نگاروں کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے افسانوی تنقید کو ایک خاص معیار اور وقار بحشا ہے ۔ وارث علوی نے اردو کے تنقیدی روایت کی دھلائی کی۔ اور فکری طہارت کا سبب بھی بنی۔ وارث علوی کا موقوف ہے “’’ایک زمانہ تھا جب اعلیٰ ترین ناولوں کے تراجم کی ہمارے یہاں ریل پیل تھی۔ عسکری نے فلابیر اور ستاں دال کے ناولوں کے ترجمے کیے۔‘‘ تو پھر کیا ہوا۔ وارث علوی کے حساب سے سنجیدہ فکشن کا قاری بھوکا مرنے لگا ’’انگریزی وہ پڑھتا نہیں، تراجم ہوتے نہیں، روایتی افسانہ دم توڑ چکا ہے اور پڑھنے کے لیے یا تو بیسٹ سیلرز رہ گئے ہیں یا بے کیف اور بدہیئت تجرباتی یا تمثیلی افسانے۔ چنانچہ وہ ادب پڑھنے کے بجائے دوسری تفریحات تلاش کر لیتا ہے۔” انھوں  نے اپنے جگری دوست باقر مہدی کے متعلق لکھا ہے ” ’’میں یہ نہیں کہتا کہ باقر مہدی کھرے باغی نہیں ہیں… میں یہ بھی نہیں کہتا کہ چے گویرا کے افکار کو اپنانے والا صحیح باغی نہیں ہو سکتا مجھے ان سے جھگڑا اس بات پر نہیں ہے کہ وہ باغی کیوں ہیں اور چے گویرا کا ذکر کیوں کرتے ہیں میں تو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انھوں نے اپنی بغاوت میں شاعری سے بھرپور کام نہیں لیا وہ صرف بغاوت کے نعرے لگاتے ہیں… انھوں نے اپنی بغاوت سے اتنا ہی کام نہیں لیا جتنا ترقی پسندوں نے اپنی انقلاب پسندی سے لیا تھا اس لیے باغی کا نقاب ان کی شاعری کے چہرے پر نہیں جچتا‘۔۔۔۔‘ وارث علوی نے اپنی کتاب ” حالی، مقدمہ اور ہم” میں رقمطراز ہیں ” دراصل مولانا حالی کو غزل پر ویسا ہی اعتراض تھا جیسا مسلمانوں کو رنڈی بازی پر۔ ان کے نزدیک یہ صرف ایک عیاشی تھی، اور عیاشی کے معنی مولانا کی لغت میں ہر اس کام کے تھے جس سے قوم کا بھلا نہ ہو۔ قوم چوں کہ بدحالی اور تباہی کا شکار تھی اس لیے حالی نے یہ سبق دیا کہ غزل سے عشقیہ جذبات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ حالی نے پہلے تو ’’اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کر چھوڑا‘‘ والی مسلسل غزل لکھ کر قوم کو ڈرایا، اور ڈرانے کے باوجود اگر قوم راہ راست پر نہ آئی تو اسے مشورہ دیا کہ کم از کم شرفا میں بیٹھ کر اس سرِمّکتوم کو فاش کر کے اپنی تنگ ظرفی اور بے جو صلگی کو ظاہر نہ کیجیے۔”
“وارث علوی نے ’’لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر‘‘ لکھ کر سچائی کے زہر کا پیالہ پیا ہے۔ یہ مضمون ان کی ساری ادبی زندگی کا نچوڑ ہے۔ انہوں نے اردو کا موجودہ منظر نامہ پیش کیا ہے اور بڑے کرب کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جس سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن انکار ممکن نہیں ہے۔ اس مضمون میں نقادوں کی حکمرانی، گروہ بندی، ادیبوں کی کمزوریاں، اردو معاشرے کی نفسیات، بے ضمیری، بے قدری خود اپنا محاسبہ وہ سب کچھ ہے جس کے اظہار کے لیے ایک صوفیانہ بے نیازی ضروری ہے ۔ کہیں کہیں وارث علوی کا فرسٹریشن بھی جھلکتا ہے جسے وہ طنز کا پردہ ڈال کر چھپاتے ہیں۔ وہ تنقید پر تخلیق کی بالادستی کو تسلیم کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ انہوں نے مصلحتوں سے اونچا اٹھ کر تلخ حقیقتوں کو پیش کیا، توازن برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی۔ کہیں لڑکھڑائے، ڈگر سے ہٹے پھر سنبھلے اور سچائی کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ اپنی اسی کھری سچائی کی وجہ سے وہ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اردو ادب میں ان کی وہی حیثیت ہے جو یونانی ادب میں سقراط کی تھی ایک ایسا فن کار جس نے سچائی اور اصول پسندی پر اپنا سب کچھ قربان کردیا۔” {اردوتنقید کا سقراط : وارث علوی از بیگ احساس ۔۔۔ ‘ جہان اردو’} ڈاکٹر مشتاق حیدرؔ نے کہا کہ ’’ وارِث علوی اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ادب کے نبض شناس ہونے کا دعویٰ تو کئی لوگ کرتے ہیں لیکن اردو تنقید کا بھرم گنتی کے نقادوں سے واقعی ہیں،اُن میں وارِث علوی کا نام سب سے درخشاں ہیں ۔ ایسے بے لاگ نقاد کے گزرنے پر لیلائے اردو اپنے بال کھولے یاس و الم میں آوارہ پھر رہی ہوگی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ غالبؔ کی طرح وارث علوی بھی زمانے کی ناقدری کا شکار ہوئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply