بڑبولے حکمراں ،گدھے اور پنجاب پولیس

اکثر دیکھا گیا ہے کہ لکھنے والے کم بولتے ہیں کیوں کہ وہ سوچنے میں مصروف رہتے ہیں اور بولنے والوں کا دھیان لکھے ہوئے کی طرف کم ہی جاتا ہے،انہیں بس ہانکنے کی فکر ہوتی ہے،شاید اس ڈر کے پیشِ نظر کے سننے والا سماعت سے محروم ہی نہ ہو جائے پھر ان کی ڈور کون لپیٹے گا،کچھ لوگ سیانوں سے سنی گفتگو مزید مرچ مسالہ لگا کر آگے پہنچاتے ہیں اور کچھ اپنے زورِ زبان پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک کی پانچ ملانے کے ماہر ہوتے ہیں۔چند سال پہلے ایک کپڑے دھونے والی خاتون رکھی تو پندرہ دن بعد ہی صرف اس لیئے ملازمت سے فارغ کرنا پڑا کہ کپڑے کم دھوتی تھی اور دماغ زیادہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

دماغ سے کام لینے کی عادت اب دم توڑ رہی ہے کیوں کہ اس کے حصے کا کام اب گوگل آسانی سے کر دیتا ہے،بس چند بٹن دباؤ اور مطلوبہ نتائج آنکھوں کو سینکنے کے لیئے کمپیوٹر سکرین پر جلوہ افروز ہوجاتے ہیں، فرض کیجئے کمپیوٹر اگر رزلٹ دینے کے ساتھ بول کر بتانا بھی شروع کر دے تو سامنے بیٹھے شخص کی حالت کیا ہوگی ؟
ایک بے حد پریشان عورت نے ڈاکٹر سے کہا،
ڈاکٹر صاحب میں بہت زیادہ بولنے لگی ہوں،یہاں تک کہ میں اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی ہوں۔
ڈاکٹر بولا تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟
عورت بولی،ڈاکٹر صاحب آپ کو معلوم نہیں ہے کہ اتنا زیادہ بول کر میں اپنے آپ کو کس قدر پریشان کرتی ہوں۔
پچھلے دنوں عمران خان صاحب کے ایک بنا سوچے سمجھے دئیے گئے بیان کے مطابق انہوں نے پختونخوا میں ایک کروڑ درخت لگا دیا ہے ۔۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ نجانے خان صاحب کو اپنے اس قدر بولنے سے کس قدر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا،لیکن یہ ضرور ہے کہ خان صاحب کے بولنے بلکہ اس طرح بولنے سے کچھ لوگ بالکل ایسی ہی اذیت کا شکار ہوتے ہیں جیسے کہ ایک کم گو بیوی زیادہ بولنے والے شوہر کی گفتگو سے۔
بیوی،تم سوتے ہوئے مجھے گالیاں دے رہے تھے؟
شوہر،تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے،
بیوی، کیا غلط فہمی؟
شوہر، یہی کہ میں سو رہا تھا۔
اس سے بخوبی اندازہ لگا جا یا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے حقیقت سے کوسوں دور خیالی بیانات پورے ہوش و حواس میں دئیے جاتے ہیں۔یوں تو ہوش و حواس قائم رکھنا کوئی آسان بات نہیں ہوتی،بوا ایک روز بتانے لگیں کہ جب ان کی شادی کے موقع پر شیشے میں منہ دکھائی کی رسم ہوئی تو پھوپھا جی ایک جھلک دیکھتے ہی غش کھا کر گر پڑے تھے۔۔میں نے پوچھا کیوں؟
کہنے لگیں ،ہوش وحواس قائم نہیں رکھ سکے تھے نا!
اسی طرح کے ہوش و حواس میں خان صاحب نے چین کوگدھے درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے،حالانکہ اس کی چندا ضرورت نہ تھی،اب بیچارے اس کے کباب کوفتے کھانے والے بھی خان صاحب کو ہی جھولی بھر بھر بد دعائیں گے،
ایک لڑکا گدھے کو کان سے پکڑ کر کھینچتا ہوا پولیس ا سٹیشن کے پاس سے گزر رہا تھا،
پولیس والے کو شرارت سوجھی تو بولا،ارے بھئی اپنے بھائی کو کان سے پکڑ کر کیوں کھینچتے لے جا رہے ہو؟
لڑکا بولا،اس لیئے کہ یہ کل کو کہیں پولیس میں بھرتی نہ ہو جائے!
گزشتہ ماہ ہماری پولیس کی وردی تبدیل کر دی گئی ہے اور قیاس کیا گیا تھا کہ و ردی کے ساتھ ذہنیت بھی بدل جائے گی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا، نوائے وقت میں ایک کالم نگارنے سعدی کی حکایت نقل کرتے لکھا ہے کہ” ایک چھوٹے قد والا آدمی نوشیرواں کے دربار میں پیش ہُوا، اس نے بادشاہ کو بتلایا کہ ایک ظالم شخص نے اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے ہیں،اس کے مکان پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے اور جائیداد چھین کر اس کے بیوی بچوں کو بھی یرغمال بنا لیا ہے،نوشیرواں بولا،میں نے سنا ہے کہ پستہ قد لوگ بہت شاطر اور فتنہ ساز ہوتے ہیں، اس لیئے میں تمھاری بات پر اعتبار نہیں کر سکتا، اس پر وہ شخص برجستہ بولا، عالم پناہ! جس نے مجھے مارا ہے وہ مجھ سے بھی زیادہ چھوٹا قد رکھتا ہے”۔
ہماری پنجاب پولیس آئے روز کوئی نہ کوئی کارنامہ سر انجام دیتی ہی رہتی ہے،کل شام جیل میں اپنے رشتہ دار کے ناحق پکڑے جانے پر احتجاج کرنے آئی خاتون کو گیٹ پر کھڑے وردی والے نے زبردستی جیل کی حدود میں روکنے کی کوشش کی،خاتون زبردستی باہر نکلی تو اسی وردی والے نے اسے پیچھے سے پکڑ کر روکنا چاہا، جس کھینچا تانی میں خاتون کی قمیض بھی پھٹ گئی۔اب آپ اوپر تحریر کردہ سعدی کی حکایت ایک بار پھر سے پڑھیے۔
وقت بے وقت گھوڑوں کی مانند فضولیات کی جگالی کرنے والے،مزے لے لے کر گدھے کھانے والی قوم کوکیا کہانی سنائیں یہ تو سب کو معلوم ہی ہے لیکن وردی بدل کر پیسے ضائع کرنے سے کہیں بہتر تھا کہ سی پیک منصوبے پر عملدرآمد کرنے کے ساتھ ساتھ دوست ملک چِین سے ایک ایسی “چِپ” تیار کروا لی جاتی جوان پولیس والوں کے دماغ میں فٹ کر کے ان کی “چِیپ” حرکتوں سے عوام کو نجات دلا سکتی، کیوں کہ ہمارے مفلوک الحال وزیر اعلیٰ کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ پولیس فورس میں موجود ان ہتھ چُھٹ اور منہ پھٹ غنڈوں کے ذہنی امراض کے لیئے ایک تربیتی ادارہ قائم کر سکیں۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply