سوشلزم بمقابلہ کیپٹل ازم

سوشلزم بمقابلہ کیپٹل ازم
نصیر اللہ خان
دنیا میں معیشت اور منڈی کی جنگ عروج پر ہے۔ کیپٹل یعنی سرمایہ اور سوشل یعنی سماج، جب اس کے ساتھ’’ ازم‘‘ لگا جائے، تو یہ سرمایہ داری بمقابلہ اشتراکی نظام کی دو الگ اصطلاحات بن جاتی ہیں۔ سرمایہ داری یعنی پرائیویٹ پراپرٹی یا نجی ملکیت کا نظام ہے جبکہ اشتراکیت نجی ملکیت، پرائیوٹ پراپرٹی کے خاتمے اور حکومتی سطح پر وسائل کی منصفانہ تقسیم کار کا نظام دیتی ہے۔ سرمایہ داری قومی ملکیتوں کی نجکاری کی اجازت بھی دیتی ہے۔ اس کے برعکس سوشل ازم قومی اداروں اور وسائل کی نجکاری و نجی ملکیت کے خلاف ہے۔ سرمایہ داری، جمہوری نظام یعنی ڈیموکریسی اور سوشل ڈیموکریسی کی روح رواں ہے اور بطور سیاست سیکولرازم اور لبرل ازم کے بندوبست کا نظام دیتی ہے۔ اس طرح جمہوری نظام میں مذہب کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ دراصل سیکولرازم ا ور لبرل ازم کا نظام، سیاست سے مذہب کی علیحدگی پر رضا مندہوتا ہے۔ یہ نظام آزادی اظہار رائے اور روشن خیالی کے مجسم پیروں پر اپنا رخت سفر باندھتا ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ داری، ریاستی مفادات کا تحفظ اور اپنی بقا کی جنگ نت نئے قوانین اور اصلاحات سے کرتی ہے۔
اشراکیت کا معاملہ اس سے مختلف ہے، کیونکہ اس میں ریاستی قوانین مجموعی معیشت اور ضروریات کے تابع بنائے جاتے ہیں۔اس طرح ذاتی جائیداد اور مال بنانے کے ملکی قوانین کے تابع ایک خاص حد تک اجازت ہوتی ہے۔ ریاست ہی لوگوں اور شہریوں کو تمام شہری حقوق جیسے تعلیم، صحت، علاج معالجہ، مکان، روٹی اور کپڑا، گاڑی وغیرہ کی سہولت سرکاری طور پردیتی ہے۔ ریاست ان امور کے علاوہ شہری کی ذاتی ضروریات مثلاً دیگر ضروری اشیا کے علاوہ گاڑی، گھڑی، جوتے، کپڑے وغیرہ، اُن کی ذاتی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے اجازت دیتی ہے، جبکہ ہر قسم اداراتی، بیورو کریسی، فنی اور ہنر مندی کا کام صرف حکومت کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کے بدلے عوم کو مذکورہ سہولیات دی جاتی ہیں جبکہ مذہب، سیکولرازم کے برعکس سوشل ازم میں جذبہ محرکہ کے طور پر ریاست میں بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
مذہب ہی کی وجہ سے سوشل ازم میں مسلمان ملکوں میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی توانائی موجود ہے۔ اس کی واضح مثال ہمارے سامنے ایران کی شکل میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ جس طرح جمہوری نظام میں کئی نظام شامل ہیں، اسی طرح سوشل از م میں بھی قومی سوشل ازم او رمذہبی سوشل ازم ہوتاہے۔ ماضی میں جرمنی، چائنہ،جاپان، کوریا، روس وغیرہ جو کہ اب جمہوری ممالک ہیں یعنی سرمایہ دارممالک بن گئے ہیں ۔ کوریا اور وینزویلا کے سوشل ازم کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ یونان اور اٹلی میں سرمایہ دار ممالک کی سائیریزاپارٹی کی جیت اور قرضہ بیل آوٹ پیکیج کے خلاف عوام کا غم و غصہ ابھی حالیہ دور کی کہانی ہے، اور ان ملکوں کے عوام نے سوشلسٹ نظام کو سرمایہ داری پر ترجیح دی ہے۔ حالانکہ دنیا میں کیپٹل ازم بمقابلہ سوشل ازم پروپیگنڈا سامراجی ممالک زور و شور سے کرتے رہتے ہیں۔
سرمایہ داری میں منڈی مارکیٹ میں مقابلے کا رجحان ہوتا ہے۔ عوامی ضرورت کے برعکس منڈی کی ڈیمانڈ اور سپلائی کے مطابق ترسیل یقینی بنانے کے وعدے وعید کئے جاتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ عوامی ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے مال اورخوراک کو یا تو ذخیرہ کیا جاتا ہے یا دریا برد اورعوام پربوجھ بن کر اصل رقم سے زیادہ وصول کیا جاتا ہے۔ مال بنا کر افراطِ زر مسلط کیا جاتا ہے۔ اس طرح قدر زائد جس میں مزدور کا حصہ ہونا چاہئے، مال کے ڈیمانڈ اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے سرمایہ دار کی جیب کی زینت بنتا رہتا ہے ۔
کسی قسم کے ریاستی جبر اور مزدور یونین کی انقلابی فعالیت کے خلاف سرمایہ دار جمہوری حکومتیں وقتاً فوقتاً اصلاحاتی پیکیجز کا اعلان کرتے ہوئے عوامی جذبات کو کنٹرول کرتی ہیں، اور نان ایشوز کو ترتیب وار سیاسی رنگ دیا جاتا ہے۔ دراصل سرمایہ دار جمہوری ممالک اپنے شہریوں کو صحت،تعلیم، مکان اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے وعدے وعید کرتے ہیں، لیکن عملاً ان سہولیات کو دینے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں بھی صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع ناپید ہیں۔ امریکہ، جاپان، چائنہ، یورپ اور روس میں صحت، تعلیم، روزگار اور مکان وغیرہ انتہائی مہنگے ہوکر غریب کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں۔ غربت اور لاچارگی مذکورہ ممالک میں برہنہ ہوکر ناچتی ہے اور غریب مزدور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سویڈن، ڈنمارک میں سوشل ڈیموکریسی ہے، جو سوشل ازم کی نزدیک اور جمہوریت کی اعلی سطح ہے۔ وہاں تعلیم،صحت وغیرہ کافی حد تک مفت ہیں۔ اس طرح مذکورہ ممالک میں قانونی پابندی کے تابع سرمایہ جمع کرنے کی بھی کسی حد تک گنجائش رکھی گئی ہے۔
اس طرح جمہوریہ سلوینیہ اور فن لینڈ میں بھی تعلیم مفت ہے۔ سوشل ازم علاوہ سوویت یونین، اپنی بھر پور شکل میں اب تک وقوع پذیر نہیں ہوا ہے۔ سوویت یونین میں بھی اس کے پیش رؤوں کی ناقص حکمت عملی، توسیع پسندانہ عزائم اور سوشل ازم کو دوسرے ممالک کو برآمد کرنے کی وجہ سے یہ نظام زوال پذیر ہوا۔ چائنہ، ماؤزے تنگ کی سربراہی میں سوشل ازم لاگو کرنے کی وجہ سے معاشی طور پر مستحکم ہو چلا تھا لیکن سرمایہ دار اور سرمایہ دار ممالک کی ریشہ دوانیوں سے پھر رجعت کرکے کیپٹل ازم اور امپیرئیلسٹک بلاک میں شامل ہوگیا۔ حالانکہ چائنہ نے اس سارے عرصہ میں ریکارڈ ترقی کی منازل طے کی تھیں۔
ماؤ زے تنگ کی تحریک کارل مارکس کی تحریک سے کافی مختلف تھی، یعنی چائنہ قومی سوشل ازم کے لئے کوشش کر رہا تھا۔اس سارے عرصہ میں چائنہ کے سرمایہ پرستوں کے رجحانات و مفادات امپیرئیلسٹوں کے ساتھ تھے۔ اس لئے چین نے بہ امر مجبوری اس طرف رجعت کی، چونکہ سوویت یونین کا زور زائل اور ٹوٹ چکا تھا، تو دنیا کے سرمایہ دار بلاک اس کے پیچھے لٹ لیکر پڑگئے۔ اب چائنہ نے دوبارہ سرمایہ داری کو اپنا لیا ہے۔
قارئین، یہ معیشت اور منڈی کا دور ہے۔ مادہ ہی اصل حقیقت کے طور پر سامنے آچکا ہے۔ روحانی اور مذہبی حقائق کو ذاتی طور پر انسان کے اپنے عقیدہ کے مطابق اس کے حوالہ کیا جاچکا ہے۔ پوری دنیا کے سرمایہ داروں اور غریبوں کے مابین مفادات یکساں ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں مزدور، دہقان اور زمیندار کی بنیادی ضروریات اور بھارت میں مزدور کی ضروریات کم و بیش یکساں ہوتی ہیں۔ اس طرح بھارت اور پاکستان کے سرمایہ دار، ملا، پادری اور پنڈت کی معاشی سماجی اور مذہبی ضروریات اور مفادات یکساں ہوتے ہوئے مزدور عوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اسے مذہبی و سرمایہ دارانہ جوازفراہم کیا جاتا رہتا ہے۔ اشتراکیت اپنی بھرپور ترقی کے دور میں کئی سالوں میں بام عروج پر پہنچ گئی تھی اور کائنات کے سر بستہ رازوں کو کھوجنے سفر پر روانہ ہونے لگی تھی۔ لوگوں کو بنیادی حقوق فراہم ہونے لگے تھے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور مکان فراہم کرنے کی ریاست ذمہ دار تھی۔ حتی کہ ذاتی خواہشات کا احترام کیا جاتا تھا۔ بے روزگاروں کو ہر قسم الاؤنسز جاری کئے جاتے تھے۔ ترقی پذیر ممالک کو آسان اقساط پر بلاسود قرضے اور امداد دی جاتی تھی اور کبھی کبھی معاف بھی کیا جاتا تھا۔ پاکستان کا ’’سٹیل مل‘‘ روس پاکستان دوستی کی باقیات ہے۔
سرمایہ دار جمہوری ممالک کو سرمایہ کے زور پر کھڑا کیا گیا ہے۔ اس لئے اس میں سرمایہ داروں کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ الیکشن، خود ساختہ جنگیں اور دیگر ترقیاتی کام سرمایہ دار ملٹی نیشنل کمپنیاں، وال سٹریٹ، ورلڈ بینک،آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ کی آرگنائزیشنز کے توسط سے بھاری قرضوں اور امدادوں پرکروائے جاتے ہیں۔ اصلاحات کوانقلابات روکنے کے لئے اور غریب مزدوروں کی کسمپرسی کو چھپانے کی خاطرعمل میں لایا جاتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ان سرمایہ دار ممالک میں غریب شہریوں اور بے روزگاروں کو بھی الاؤنسز جاری کئے جاتے ہیں۔ زندگی کا تحفظ،فیئر ٹرائل کی آزادی، غیر قانونی گرفتاری و نظربندی سے تحفظ، آزادیٔ اظہارِ رائے، سیاسی آزادیاں، ایسوسی ایشن یعنی آرگنائزیشن کی آزادی، تقریر کی آزادی، زبردستی مزدوری اور بچوں کے محنت مشقت سے بچاؤ، روشن خیالی، مذہبی آزادی، کاروبار اور مذہب کی آزادیاں، دوہری سزاؤں سے نجات، معلومات فراہم کرنے کی آزادی، شہری آزادیاں، کاروبار اور جائیداد بنانے کی آزادی، ملازمت میں امتیاز سے بچاؤ اورشہری برابری وغیرہ جیسے نام نہاد حقوق ہر جمہوری ملک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دیتا ہے، لیکن یہ عملاًمذکورہ حقوق دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
پاکستان جو کہ اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے۔ اس کے آئین میں قرآن و سنت کو سپریم قانون مانا گیا ہے۔ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کے بر عکس اگر ہم بنظر غائر دیکھیں، تو ملک میں سود لینے اور دینے کا قانون ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کا سارا کاروبار انہی خطوط پر استوار ہے۔ پاکستان کا قانون اس پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں کرتا ہے۔ یہ ایک مثال اس لئے دی ہے کہ قران جو کہ صریحاً سود کو حرام گردانتا ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان سود کو آخر کس قانون کے تابع اجازت دیتا ہے؟ عدالتوں میں بینک شیڈول کے مطابق سود کے کیسز داخل اور رجسٹرڈ کروائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں طاقتور اور معزز شہریوں کے لئے ایک قانون ہے، تو لاغر اور مزدور غریبوں کے لئے دوسراقانون۔ اگر کوئی سرمایہ دار اربوں ڈالر سرکاری خرانے میں غبن کا مرتکب ٹھہرتا ہے، تو اس کے لئے پلی بارگیننگ یعنی سزا کم سے کم بنائی گئی ہے۔ اس طرح اگر ایک غریب پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لئے روٹی چوری کرنے کا ارتکاب کرے، تو اس کے لئے سزا سے بھرے قوانین کام آتے ہیں۔ غریبوں پر ہر قسم کے ٹیکسز لاگو ہیں جبکہ سرمایہ دار اس بلا سے محفوظ ہیں۔ اور اگر ان پر کہیں سے ٹیکس ا ٓبھی جائے، تو یہ اپنی کمپنیوں کے پروڈکٹس کو مہنگا کرکے، صنعتی مزدور کی تنخواہوں کی کٹوتیوں سے اور کرایہ داروں پر اضافی بوجھ ڈال کرٹیکسزکی وصولی کاپکا بندوبست کرتے ہیں ۔
سرمایہ دار زکوٰۃ بھی نہیں دیتے ہیں۔ کیونکہ سرمایہ داراربوں، کروڑوں روپیہ کے پلازے، کھیت، پراپرٹی، کارخانے، مارکیٹس اور جائیدادیں وغیرہ بناتے ہیں اور اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں آتی ہے۔ اس کے بر خلاف غریب کے پاس اگر باؤن تولہ چاندی جس کی مالیت قریباً لاکھ ہوگی، تو اس پر زکوٰۃ آئے گی۔ فصل کے دسویں حصے پرزکوٰۃ دینی ہوگی۔ اس طرح ہر جنس کی اپنے میعاد زکوٰۃ شرح نصاب ہے۔ دوسری طرف اگر امیر کی بیوی کے ساتھ سونے کا سامان بیس تولے ہوگا، تو وہ اسے شرح نصاب کے حساب سے ہٹا کر اپنے بیٹے بیٹیوں کو گفٹ کرکے زکوٰۃ سے اپنے آپ کو علیحدہ کردے گی۔بینک میں سرمایہ کے لحاظ سے یہی آنکھ مچولی کھیلی جاتی ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیردار کے پاس اگر لاکھوں ایکڑ زمین ہے، تو بے چارے ہاری دہقان کے ساتھ ایک گز زمین کا ٹکڑا نہیں ہوتا بلکہ غریب کے مرنے کے بعد اس کو قبراور کفن بھی شاید اُدھار کے پیسوں سے ملتا ہو۔ کسی کے پاس عالیشان بنگلے ،موٹر کار، آرام ا ور بہترین طعام کا انتظام ہے، تو کسی کے پاس دو وقت کی روٹی کی استطاعت نہیں ہے۔ سرمایہ دار، جاگیردار، وڈ یرا، نواب سردار وغیرہ حج و عمرہ، صدقات و خیرات، مساجد کی تعمیر اور فلاحی یا نمائشی کام کرکے جنت کے مستحق قرار دئیے جائیں گے، تودوسری طرف غریب کی زندگی اجیرن بناکر دو قت کی روٹی، کفن دفن کے لئے دو گز زمین اور اس طرح غریب مزدوری کی لئے بھی حیران و پریشان ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ اسلام و مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مسجد کے مولویوں اور سرمایہ داروں، جاگیرداروں کا گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ثقافتی، روایاتی اور مذہبی خود ساختہ سانچے بنا کر لوگوں کی ذہن سازی کی گئی ہے۔ کفاروں کی شکل میں سرمایہ داروں کے گناہوں کی تلافی کی جاتی ہے اور من پسند فتوے جاری کئے جاتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ کیپٹل ازم یا سوشل ازم اچھے نظام ہیں۔ہاں، البتہ ان نظاموں پر ترقی یافتہ ممالک میں صدیوں پر محیط تجربے کئے جاچکے ہیں۔ ان میں بہت سے ممالک میں کچھ کمیوں کے ساتھ یہ نظریات اپنی ترقی یافتہ شکل میں موجود ہیں۔ ان کے سماجی سائنسدانوں نے ہر شعبہ زندگی اور ہر مضمون کی سطح پر فلسفیانہ مکالمے کئے ہیں اور ان ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں نے انہیں بطور سماجی و عدالتی نظام سند قبولیت بھی بخشی ہے۔ اگر ایک طرف معاشی، سماجی اور عمرانی معاہدے ہیں، تو دوسری طرف سا ئنٹفک سوشل ازم ہے۔ مطلب دونوں نظاموں کے باریک سے باریک نکات یعنی تھیوریز پر بحث کرکے انہیں نافذ کیا گیا ہے۔ اس طرح لوگوں کو ان نظاموں کے ثمرات کی ترسیل بھی کسی حد تک جاری و ساری ہے ۔
حاصل بحث یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان، جہاں تک میں سمجھتا ہوں، عقیدہ کی رو سے اسلام سرمایہ داری نظام ہے اور نہ اشتراکی،بلکہ مجھے میرا ضمیر، میرا ایمان اور میرا اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ میں کسی ایسے نظام کو مان لوں جو بے پناہ دولت اور جائیداد کے انبار اکھٹا کرنے کی اجازت دیتا ہو، اور دوسری طرف مزدور کو ایک وقت کی روٹی اور دو گز زمین بھی نہ ملے۔ کم ازکم ایسے نظریہ سے مجھے کوئی سروکار نہیں جو خدا کے وجود یعنی وحدانیت سے انکار کرتے ہوئے مادے کو اصل چیز تصور کرے اورجو دین ، روحانیت کی نفی کرے، جو جنت اور دوزخ سے انکار کرے، جو اچھائی اور برائی پر یقین نہ کرے۔ اگرچہ ایک طرف سرمایہ داری عملاً اشرافیہ کا مرتب کردہ نظام ہے، تو دوسری طرف غریبوں اور مزدوروں کی بادشاہی کا اعلان ہے ۔ یعنی یہ دونوں نظام شدت پسندی اور انتہائے منتہا کے عروج پر کھڑے نظر آتے ہیں ۔
سچائی پر کسی قوم یا قبیلہ کا قبضہ نہیں ہوتا ہے، جوقوم یا افراد سچائی کو قبول کرتے ہیں ،سچائی ان کی ملکیت بن جاتی ہے۔ ہمیں ایک سچی کتاب قرآن مجید فرقان حمید دی گئی ہے،جس میں کسی شک و تردد کی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔ ساتھ ہی ہم مانتے ہیں کہ یہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔دین کی حجت تمام ہوچکی ہے۔ حق اور باطل کو جدا کیا جا چکا ہے ۔
قرآن کریم زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق کھلے طور پر راہنمائی فراہم کرتا ہے بلکہ میرا ماننا ہے کہ قرآن ایک میزان ہے، جس سے ہر ایک چیز کی قدر کا پیمانہ مقرر کیا گیا ہے۔اسی لئے تو اسے فرقان یعنی پیمانہ یا میزان کہا گیا ہے۔مسلمانوں کا قرآن کے علاوہ کوئی اور ضابطۂ زندگی ہو ہی نہیں سکتا۔ قرآن کریم مذکورہ نظام کے برعکس ایک میانہ روی اور اعتدال پر مبنی نظام دیتا ہے، جسے وقت کے سماجی علمائے سائنس، فلکیاتی، جغرافیائی، دیگر سائنس کے علما، قرآن کی زمانی و مکانی تفہیم کرتے ہوئے معروف اور معروضی حالات کے مطابق اسے ہر قوم کی سماجی و معاشرتی تشکیل کو سمجھاتے ہوئے اس کو نافذ کرنے کے لئے اہم اور بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔
میرے مطابق یہ بات سمجھنے لائق ہے کہ مذکورہ نظام کو کسی بھی نام سے پکاراجاسکتا ہے، لیکن اس کے لئے شرط بہرحال یہی ہے کہ اس میں بہر طور معاشرے کے محکوم، مزدور، بے بس، یتیم، لاوارث، بیوہ،مسکین، فقیر، محروم اورسائل وغیرہ کا ہر قسم معاشی و سماجی برابری کا خیال رکھا جائے گا۔ اور اس کو معاشرتی سماجی دوڑ میں ہم قدم بنانے کے لئے رزق کے کھلے سرچشموں تک رسائی حاصل کرنے کے اقدامات کئے جائیں گے ، تا کہ مذکورہ لوگ تنہائی کا شکار نہ ہو جائیں اور وہ مجبور ری و بے بسی کا تصور بھی نہ کرسکیں۔اگر ضرورت منداقوام اور افراد کا خیال دینی نقطہ نظر سے حکومتی یاریاستی عملداری میں رکھا جائے، تو وہی نظام اسلامی نظام کہلانے کا مستحق ہے۔ اسلامی نظام وہ ہوگا جس میں احکم الحاکمین ،احکامی الہٰی یعنی جہاں اللہ تعالی کے حکم کی تابعداری اور کار فرمائی ممکن ہوسکے، اور ان احکام کو مملکت یا ایجنسی قوت نافذہ دے سکے۔ اِلّا کہ اس کے بغیر استخلاف فی الارض بھی ممکن نہیں ہے۔ میرا یہ خیال یقین کی حد تک پختہ ہے کہ جو مملکت قرآن کریم کو اپنا ضابطہ زندگی اور دستور مملکت قرار دے گی، وہ حقیقتاً اسلامی مملکت کہلائی جائے گی۔اور جو نظام قرآن کی روشنی میں بنے گا، وہ اسلامی نظام کہلانے کا مستحق قرار پائے گا۔ قرآنی نظام کا متبادل کوئی اور نظریہ یا دیگر نظام نہیں لے سکتے اور نہ اس میں دیگرنظاموں کے پیوند ہی لگ سکتے ہیں۔ و ما علینا الا البلاغ المبین

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply