• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • پاکستانی ماں کی ہمت کو سلام،زندگی وقف کردی اپنے بچوں کے نام

پاکستانی ماں کی ہمت کو سلام،زندگی وقف کردی اپنے بچوں کے نام

پاکستان میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے تو آپ نے بہت کچھ سنا ہو گا لیکن یہ خواتین زندگی کی مشکلات سے کیسے نبرد آزما ہوتی ہیں اور اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو کیسے اپنے عزم و ہمت سے پاش پاش کر دیتی ہیں اس کا ذکر کم کم ہی سننے کو ملتا ہے۔

 ایک  مقامی اخبار  نے اپنے مضمون میں ایک ایسی ہی باہمت خاتون کی زندگی کا احوال بیان کیا گیا ہے جس نے عین جوانی کے عالم میں بیوہ و بے سہارا ہو جانے کے باوجود اپنے چھ بچوں کو باعزت طریقے سے پالنے کے لئے وہ کر دکھایا جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

مضمون نگار اس باہمت خاتون کی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں  کہ  ہماری ٹیکسی ایک اشارے پر رُکتی ہے اور ایک لڑکا پیلا کپڑا لئے اس کی جانب بڑھتا ہے۔ گاڑی چلانے والی خاتون اس لڑکے پر چلاتی ہے چل بھاگ ‘ اور پھر میری طرف مُڑ کر کہتی ہے یہ اس کام کے 10 روپے چاہتا ہے۔ پھر وہ ایک پولیس والے کی جانب دیکھتے ہوئے کہتی ہے ’ان کے ساتھ میرا پیار اور نفرت کا رشتہ ہے، میں بتاتی ہوں کیسے۔

یہ خاتون ڈرائیور 67 سالہ بشیراں ہے جو گزشتہ 30 سال سے ٹیکسی چلارہی ہے اور حیدر آباد کی واحد ٹیکسی ڈرائیور ہے۔

بشیراں نے اپنی زندگی کی کہانے سناتے ہوئے مجھے بتایا کہ میری شادی نوعمری میں ہی ہوگئی تھی میرا خاوند پولیس اہلکار تھا اور اپنے فارغ وقت میں ٹیکسی بھی چلاتا تھا۔

 اس کے اصرار پر میں نے ٹیکسی چلانا سیکھی لیکن کسے معلوم تھا کہ وہ دنیا سے چلا جائے گا اور مجھے ٹیکسی چلا کر زندگی کی گاڑی کھینچنا ہوگی۔
جب میرے خاوند کی وفات ہوئی تو سب نے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ میں سوچتی تھی کہ چھ بچوں کو پالنے کے لئے میں کیا کروں گی۔

جب اور کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو میں نے ٹیکسی چلانے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے میں نے حیدرآباد سے کوٹری روٹ پر ٹیکسی چلانا شروع کی۔ میں نوجوان اور خوبرو تھی او ر ہر جگہ لوگ مجھے عجیب نظروں سے گھورتے تھے۔ شرو ع میں مَیں بہت خوفزدہ ہوتی تھی لیکن میں نے یہ نغمہ سن رکھا تھا ”اے دل تجھے قسم ہے تو ہمت نہ ہارنا“ اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں حالات سے لڑوں گی۔

بشیراں ٹیکسی بھی چلاتی تھی او رفارغ اوقات میں کپڑے سی کر بھی کچھ رقم کماتی تھی۔ جب 1988میں سندھی مہاجر فسادات شروع ہوئے تو ان کے گھر پر حملہ کیا گیا اور ٹیکسی بھی چھین لی گئی بعدازاں، انہوں نے کرائے پر دو ٹیکسیاں حاصل کیں اور پھر سے محنت کر کے اپنا نیا گھر بھی بنایا۔ اس وقت تک ان کے دو بڑے بیٹے بھی ڈرائیونگ کے قابل ہوچکے تھے۔ بدقسمتی سے ان کے بیٹے شادیاں ہوتے ہیں الگ ہو گئے اور اپنی ماں کے احسانات بھی بھلا بیٹھے۔
بشیراں کو اس بات کا دکھ ہے کہ ان کے بیٹے کسی کام کے نہیں نکلے، جیسے ہی وہ جوان ہوئے گھر چھوڑ کر چلے گئے۔

زندگی بھر کی محنت کے بعد یہ عظیم ماں ایک بار پھر تنہا ہے، لیکن اس کی ہمت نہیں ٹوٹی۔

وہ آج بھی صبح چار بجے اُٹھتی ہیں، نماز کی ادائیگی اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد لطیف آباد نمبر 10 سٹاپ کے لئے روانہ ہوجاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

 وہ آج بھی ٹیکسی چلا کر اپنی زندگی کی گاڑی انتہائی عزت اور وقار کے ساتھ کھینچ رہی ہیں۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply