مٹی کے چہرے

وہ میرے بالکل سامنے آ بیٹھا تھا۔
اپنی اسی ادائے بے نیازی کےساتھ، اس نے اسی سحر میں جکڑے انجانے سے جادوئی طرز والے انداز میں سوال کیا…

"تمہیں محبت کی سب سے خوبصورت کہانی کون سی لگتی ہے جس میں تمہیں ہمارا عکس نظر آتا ہو…؟"

میں نے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے ہالے پہ ٹکاتے ہوئے اس شہد رنگ آنکھوں والے کی طرف نظر اٹھائی…!
اور سنہرے چہرے کے ساتھ کہا
"میں اگر خیالات کے دریچے سے جھانکوں تو…
تو یقین جانو محبتوں کی دیو مالائی کہانیوں میں سے مجھے ہماری کہانی کسی سے ملتی نہیں لگتی۔
نہ تم مجھے فرہاد کی طرح جنونی لگتے ہو، نہ میں شیریں کی مانند خوبصورت ہوں۔
ہیر رانجھا
لیلی مجنوں
مرزا صاحباں
اف ۔۔۔ یہ سارے بہت فلمی سے اور
حقیقت سے بہت دور ہیں
اور میں جانتی ہوں کہ تم بلا کے حقیقت پسند ہو…..
میری سوچ کے تخیل میں مجھے اپنا آپ ایک گردشی سیارہ اور تم کہکشاں کے کسی حصے میں موجود Black hole کی مانند لگتے ہو..
جس کے حصار میں آتے ہی میرا وجود فنا ہو جاتا ہے..
اوجھل، غائب، لاتعلق
بس تم رہ جاتے ہو اپنے پورے مقناطیسی اثر کے ساتھ" ….

سوال پوچھنے والے نے بالآخر قہقہہ لگایا اور میری پیشانی پہ ہلکی سی پیار بھری چپت لگاتے ہوئے کہا…!
یہ تمہارے خواب اور تمھاری باتیں، میں تو حقیقت پسند ہوں ہی پر تم کافی فلمی ہو…

مگر..
مگر یہ کیا…
آج حقیقت بالکل اس کے برعکس کیوں تھی..

ایک سپاٹ سا چہرہ لئے کرسی پہ برا جمان وجود ….!!
یہ میں ہی تھی

کسی نے کبھی مجھ سے خود تو کچھ نہیں کہا، شاید وہ میرے تلخ لہجے کی وجہ سے مجھ سے بات کرنے سے کتراتے تھے
پر میں جانتی تھی کہ
لوگ مجھے احساس سے عاری بے جان اور بے حس سی لڑکی کہتے تھے
کیونکہ ہنسنے مسکرانے کھلکھلانے والے موسم شاید میرے صحرائی وجود پہ اترنا بند ہوچکے تھے…!

میں نے اچانک کرسی کو پیچھے دھکیلا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے قد آدم آئینے کے سامنے آکر ٹھہر گئی…
اپنے آپ کو بغور دیکھتے ہوئے جیسے ہی ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھوا.. ایک دم سے روح کا پیچھا کرتی ہوئی وہ آواز سنائی دی…
اس آواز کی گونج آج بھی اپنے کانوں میں محسوس کر رہی تھی….

اف تم جب ہنستی ہو نا تو…..
وہ رکا…
میں نے شرما کے نظریں جھکا لیں تھیں
اس شخص کا ساتھ مجھے ایسے ہی بے خود کر دیتا تھا
تو……؟؟
(من ہی من میں مسکراتے ہوئے پوچھا)
تو….؟

تو تمہارا چہرہ بہت بھیانک لگنے لگتا ہے مجھے..
یہ مسکراہٹ والے زاویے تمہارے عام سے چہرے کو بہت عجیب کردیتے ہیں

ایک لمحے کے لئے میری سانس رکی، اور میں نے نظریں اٹھا کہ سامنے موجود شخص کو اپنی بھیگتی دھندلاتی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کی….

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر واقعی وہاں کراہیت کا احساس تھا
تذلیل کی انتہا تھی….
وہ شخص جس کی غیر موجودگی بھی میرے لیے مسکراہٹ کی وجہ تھی آج اسی نے کتنی بے دردی سے مجھے آسمان سے زمین پہ لا پٹخا تھا۔
روح کو گھائل کرتی آواز
مسکراہٹ کو خوبصورتی کی نشانی سمجھنے والی کے منہ پہ زور دار طمانچہ……!!
آج تک میں اسی آواز کے زیر اثر تھی
محبت کا نوحہ سناتی چیرتی ہوئی آواز کا اثر میر ی روح میں ثبت ہو گیا تھا….!!

Facebook Comments

تبسم غیاث
ایک ٹیچر، شاعرہ اور افسانہ نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply