کاش میں امیر ہوتا
نعیم الدین جمالی
ایک مہینہ قبل کی بات ہے، مجھے کان کی بیماری کے سلسلے میں ڈاکٹروں کے پاس بارہا جانا ہوا، جب تک میرے مرض کی نوعیت پتا چلے میں ڈاکٹروں کی ایک طویل فہرست سے شناسا ہوگیا تھا، آخری ڈاکٹر جن سے مسلسل ایک مہینہ علاج رہا، الحمد اللہ اب طبیعت مکمل بہتر ہے، آخری دفعہ جب ان کے پاس تشخیص کے لیے گیا ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مجھے اب تک چین سے رہنے نہیں دیا، اس واقعے نے دماغ کومکمل ماؤف کردیا ہے.
سوچا لکھوں نہ لکھوں، لکھنے سے کیاہوتا ہے؟ ہم نے عمل کب کرنا ہےخوامخواہ لکھنے پر وقت برباد کروں گا؟
لیکن یہ واقعہ دل میں ایک کانٹا بن کر چبھ گیا ہے، مہینہ بیتنے کے بعد بھی وہ واقعہ میرے دل ودماغ پر اسی طرح تروتازہ ہے، وہ لمحات ابھی تک اسی طرح ہیں جیسے ابھی چند سیکنڈ قبل یہ واقعہ رونما ہوا ہو. وہ الفاظ ابھی تک سماعتوں سے ٹکرا رہے ہیں.
واقعہ یہ ہے جمعے کی شب مغرب کے بعد ڈاکٹر کے پاس کان کے علاج کے لیے پہنچا اور حسب ترتیب ٹوکن لیا تو قسمت سے باون نمبر نصیب ہوا اور اس وقت بتیسواں نمبر چل رہا تھا، اتنا وقت کیسے گذرتا، ساتھ بیٹھے ایک شخص کے پاس دو روز پرانا جنگ اخبار تھا، میں نے ان سے اخبار مانگا اور ادارتی صفحہ پر کالم دیکھنے لگا، اچانک کسی شخص کے ڈانٹنے کی آواز آئی، میں کیا دیکھتا ہوں ایک سن رسیدہ شخص ہلکی سفید داڑھی، ایک آٹھ دس سال کے معصوم سے بچے کو بڑی سختی سے ڈانٹ کر انتظار گاہ سے باہر نکلنے کا حکم دے رہے ہیں۔
“نکل جاؤ، دفعہ ہوجاؤ، کماتے کیوں نہیں، ہٹے کٹے بھیک مانگ رہے ہو.”
ان کے یہ الفاظ میرے دل میں پیوستہ ہوگئے، دل زخمی سا ہوگیا، آنکھیں ڈبڈبا گئیں، اخبار میں نے واپس کیا اور بے چارگی کے عالم میں اس معصوم سے پھول کو دیکھنے لگا، سوچا اگر یہاں اس کو بلا کر اس کی مدد کی تو لوگ ویسے بھی علماء سے خار کھائے بیٹھے ہیں، کچھ بولنا شروع کر دیں گے،اب یہ نمبر بڑھا رہا ہے، اور طرح طرح کے تبصرے ہونے لگیں گے، میں ان کی مدد کے بہانے ٹہلتے ٹہلتے انتظار گاہ سے باہر نکل آیا، میری باری آنے میں تقریبا ًآدھا گھنٹہ باقی تھا۔
میں باہر نکل کر اس بچے کو تلاش کرنے لگا، کیا دیکھتا ہوں وہ مرجھایا ہوا پھول، بکھرے اور گردوغبار سے اٹے بال، اور پھٹےبوسیدہ کپڑے زیب تن، افسردگی اور مایوسی کے عالم میں روڈ کنارے اپنی دو کم عمر بہنوں کے ساتھ اسپتال اور راہ گذر لوگوں کو ٹکٹی باندھ کر دیکھ رہا تھا، میں نے قریب جاکر اس کو بلایا اور حسب اطاعت ان کی مدد کی اور وہ خوشی خوشی کبھی پیسوں کو اور کبھی مجھے دیکھتے.
میں نے کہا :کچھ کھاؤ گے ؟
کہنے لگے: ۔نہیں۔
میں واپسی آکر پھر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا، بات آئی گئی ہوگئی ایک مہینہ ہونے کو ہے یہ خلش کسی صورت ختم نہیں ہورہی، سوچتا ہوں ہم کس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں، کس قدر انسانیت کی تذلیل کے مرتکب ہورہے ہیں؟کس قدر بے رحم واقع ہوئے ہیں؟ صرف یہ ایک واقعہ نہیں، معاشرے میں ایسے بے شمار واقعات آئے دن ہمیں دیکھنے اور سننے کوملتے ہیں.قرآنی تعلیم یہ ہے کہ اگر کسی کو دے نہیں سکتے تو انہیں ڈانٹو مت . قرآن نے سوالی کو جھڑکنے سے بھی سختی سے منع کیا ہے ۔
ہم ہیں جب تک کسی کو نیچا نہ کریں اس کی توہین وتحقیر نہ کریں چین وسکون میسر نہیں آتا!
ارے بھائیو ! اگر اللہ نے ہمیں کچھ مال دیا ہے تو کمزور ولاچار لوگوں پر حسب استطاعت خرچ کریں، اگر خرچ کرنے کی ہمت نہیں تو خدارا..!! ان غریب ولاچار لوگوں کی تذلیل مت کیا کریں، دے نہیں سکتے تو کسی کا دل مت دکھائیں !
وہ بھی دل رکھتے ہیں، کسی پیار کرنے والے والد کی لاڈلی اولاد ہوتے ہوں گے ، کوئی سفید پوش مستحق بھی ہوگا۔
ہمارے رب نے ہمیں جتنا دیا ہےکیا ہم اس کے مستحق ہیں؟
اگر ہم نہیں توپھر بھی رب نے ہمیں کتنی لازوال نعمتوں سے نوازا ہے . ہمارے مستحق ہونے اور نہ ہونے کی انکوائری رب نے کبھی نہیں کی،
لیکن کسی سوال کرنے والے کو پانچ روپے دیتے وقت ہم اس کے مستحق ہونے یانہ ہونے کی ریسرچ کیوں شروع کر دیتے ہیں .؟
اسپتال کے اس معصوم بچے کی آنکھوں کا یہ سوال
“کاش میں امیر ہوتا”
کبھی بھی نہیں بھول سکتا!!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں