آزاد خیالوں کی اصلاح پسندانہ سوچ اور تبدیلی

کسی بھی ملک کے عوام کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اس ملک میں نافذ نظام اور قوانین کے تابع ہوتی ہے۔ ایک سماجی، معاشی اور اقتصادی نظام ایک ریاستی ڈھانچہ ترتیب دیتا ہے اور ریاست قوانین مرتب کرتی ہے۔ فرد اور ریاست کے تعلق کو واضع کرنے کے لئے ایک معائدہ عمرانی طے پاتا ہے جو عوام اور ریاست کے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے۔ اگر ریاست اور عوام کے بنیادی حقوق و فرائض میں کوتاہی برتی جا رہی ہو تو ملک میں نافذالعمل نظام ، قوانین، سیاسی، سماجی ، معاشرتی اور معاشی نظام پر نظر ثانی کرنے کے بعد ایک متبادل نظام کے لئے سعی کی جاتی ہے ۔ اس متبادل نظام میں طرح پیدوار، پیداواری رشتوں اور معاشی نظام کو کلیدی حیثیت حاصل ہونا ضروری سمجھا جاتاہے۔ ایک مربوط اجتماعی معاشی نظام ریاست کی معاشی بڑھوتری کے اعشاریے طے کرتا ہے اور ریاست کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ مسائل کے تناظر میں متنوع خیالات کا حامل طبقہ موجودہ نظام میں اصلاح اور ترمیم کا خواہاں ہے جس میں آزاد خیالی کے حامی خواتین و حضرات جمہوریت کی بقاء کے لیے موجودہ سیاسی اور معاشی نظام کے زیرِ اثر چلنے والی حکومت اسکے بنائے گئے قوانین اور حکومتی فیصلوں پر تنقید تو کرتے ہیں مگر ایک متبادل نظام کی بات کرتے ہوئے مصلحت پسندی کا شکار نظر آتے ہیں۔ آزاد خیال حکومتوں کے مذہبی کردار، مذہبی قوانین اور حکومتی ایماء پر چلنے والی مذہبی جماعتوں پر کڑی تنقید کو حق بجانب سمجھتے ہیں مگر ریاست کے معاشی و اقتصادی نظام ،سماجی طبقاتی نظام، بے روزگاری، کارپوریٹ تعلیمی نظام اور کثیرالقومی کمپنیوں کی مقامی منڈیوں پر اجارہ داری پر چپ سادھے دکھائی دیتے ہیں۔
سوال یہ ہےکہ کیا موجودہ نظام کو اصلاح و ترمیم کے ساتھ اس قابل بنایا جا سکتا ہےکہ وہ ایک مثالی نظام بن سکے اور ملک کے اندر بسنے والے کم و بیش بیس کروڑ انسانوں کو تما م بنیادی حقوق و سہولیات فراہم کر سکے جس کا تقاضا عام انسان کرتا ہے؟ اس کے لئے حکومتی مشینری ،سیاست، بیوروکریسی اور قانون کے اعلٰی اداروں پر براجمان ارباب اختیار کی سماجی اورمعاشی حالت کا اندازہ لگانا ضروری ہے۔ کیا معاشی طور پر آسودہ حکمران طبقہ ایسی قانون سازی کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے جو عام انسان کے لئے سود مند ہو ؟ اگر ایسا ممکن ہو تو ایسے قوانین موجود ہیں جو بظاہر عوامی ہیں، وہ تحریری طور پر اتنے جامع ہیں کہ عام آدمی اگر اُن کو پڑھنا شروع کر دے تو ایسے قوانین بنانے والے کی بصیرت پر عش عش کر اٹھتا ہے مگر اگر اسی عام آدمی کو اُن قوانین کے ذریعے اپنا کوئی نجی یا ذاتی مسئلہ بھی حل کروانا پڑ جائے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ عملی طور پر اطلاق چند فیصد بھی نہیں۔ اس پر دلیل یہ دی جاتی ہیکہ اچھے برے انسان ہر شعبہ میں بیٹھے ہیں اور آپ ایک انسان کے غلط رویّے یا اس کی کاہلی کی وجہ سے پورے شعبے کو غلط نہیں کہ سکتے۔ لیکن اگر آپ متمول سیاسی یا معاشی پس منظر کے حامل فرد ہیں تو آپ وہی کام اسی قانون کے تحت بغیر چکر لگانے کے بھی کر سکتے ہیں۔
اگر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے کہ آزاد خیال دوستوں کی رائے کو محترم مان کر اسی نظام کا حصہ بنتے ہوئے موجودہ سیاسی عمل کے ذریعے تبدیلی کی بات کی جائے تو یہ مشاہدے کی بات ہے کہ مروجہ سیاسی نظام کا سیاسی کارکن سیاسی جماعتوں میں عدم جمہوری رویوں کی وجہ سے جماعتی انتخاب میں حصہ لینے سے بھی محروم نظر آتا ہے۔ موجودہ سیاسی نظام میں سیاسی جماعتیں سیاسی بصیرت کے برعکس ، سماجی اور معاشی طور پر بااثر خواتین و حضرات کو ہی اپنے سیاسی کلب کا حصّہ دار بنانے کی متحمل ہو سکی ہیں۔ اگر کسی ایک روائتی سیاسی جماعت کے آرگینوگرام کا ہی تفصیلی جائزہ لیا جائے تو وارڈ اور یونین کونسل کی تنظیموں(جن کا وجود بھی ناممکن ہے) سے لیکر صوبائی اور قومی تنظیموں تک سارے عہدیدار آپس میں سماجی یا معاشی رشتہ دار ہوتے ہیں ۔ اسلئے وہ ایک مخصوص طبقے کی مفاداتی سیاست کے مہرے بنتے ہیں۔
آزاد خیال دوستوں کی سب سے محبوب سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے، جس نے اپنی سیاسی زندگی میں قربانیاں دی ہیں، آزاد خیال ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، بے نظیر بھٹو کے سیاسی قتل، مرتضٰی بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے قتل پر آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ، پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ چئرمین بلاول بھٹو زرداری سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ پاکستانی سیاست اور نظام حکومت کے بہترین مصلح کے طور پر سامنے آئیں گے۔ دلچسپ بات ہیکہ گزشتہ پانچ سالہ دور میں جب بھی بلاول بھٹو طالبان کے خلاف کوئی "ٹویٹ" کرتے آزاد خیال دوست اسے اتنا اوپر اٹھاتے جیسے ٹویٹ نہ ہوا ملک میں جاری دہشت گردی، بدعنوانی ، غربت، بے روزگاری اور ان ایسی کئی دوسری قباحتوں کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا گیا ہو۔ اس بات سے انکار بھی نہیں کہ ایک نوجوان سیاستدان نے اپنے بیانات کی حد تک طالبان اور ان کے حامیوں کو آڑے ہاتھوں لیا مگر دیکھنا یہ کہ کیا دہشت گردی یا طالبان کو پیدا کرنے والے اسباب کا ذکر بھی ضروری ہیکہ نہیں؟ کیا بدعنوانی، رشوت ستانی، معاشی اور سماجی تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قباحتیں بھی اس سماج اور اس میں رہنے والے ہر انسان کے لئے کوئی معنی رکھتی ہیں؟ کیا یہ ضروری ہیکہ ایک بدترین جمہوری عمل جس میں ووٹ ڈالنے کی شرح پینتیس فیصد سے زیادہ نہیں کو ہی ترقی کا پیمانہ مان لیا جائے اور اس جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ہونے والے وڈیروں، جاگیرداروں اور تاجروں سے یہ امید لگا لی جائے کہ ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کے بدلے وہ ایک متوازن قانون سازی اور متنوع پالیسی سازی کے عمل کو مستحکم کرتے ہوئے ایسا نظام دیں گے کہ کھیت پھر سے سونا اگلنا شروع کردیں گے، مزدور پھر سے فاقہ کشی پرمجبور نہیں ہونگے؟ کورٹ کچہری کے سارے معاملات بغیر پیسے دئیے ہی نمٹ جایا کریں گے، یتیموں اور بیواؤں کی زمینوں پر قبضے نہیں ہونگے۔ ریاست بدعنوانی پر کڑی سے کڑی سزا دیگی اور اگلی دفعہ کوئی بدعنوانی کی کا سوچ کر ہی کانپ اُٹھے گا؟
شائد نہیں!
جو معاشرے اصلاح اور ترمیم پسند ہوتے ہیں وہ دراصل استحصالی نظام کی توسیع کو جواز مہیا کرتے ہیں۔ استحصال اور طبقاتی کش مکش کو ختم کرنے کے لئے ایک متوازی سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کی ضرورت ہے، آزاد خیالی کے حامی آج بھی ایک ایسی حکومت سے بہتری کی امید لگائے بیٹھے ہیں جس کے ذمہ داران تک کو اپنے سیاسی نظریے اور منشور تک کی سمجھ بوجھ نہیں ۔ اور اسی حکومت کی حزبِ مخالف ایک شخصی آمریت کی حامل سیاسی پارٹی ہے جسکا اثرو رسوخ ایک صوبہ سے باہر نہیں جاسکا۔ بلکہ یوں کہیے کہ پارٹی میں شامل عمر رسیدہ کارکنان کو کلیدی عہدے اس لئے نہیں سونپے جاتے کہ پارٹی کا نظم و نسق ایک خاندان کے ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔
آزاد خیالی کے حامل لوگوں کے مطابق مذہبی منافرت اور مذہبی اجارہ داری ایک بڑا مسئلہ ہے ، جس کو حل کر لیا جائے یا افراد کو انفرادی مذہبی آزادی دے دی جائے تو بہت سے دیگر مسائل حل ہو سکتے ہیں ، اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ چند لوگوں کےاجارہ دارانہ مذہبی رویّے بدامنی اور دہشتگردی جیسے مسائل کاباعث بنتے ہیں مگر کیا ہم عصر مسائل بھی قابلِ توجہ ہیں کہ نہیں؟ کیا انفرادی مذہبی آزاد ی کے بعد کے موجودہ نظام میں رہتے ہوئے دیگر معاشی اور سماجی مسائل حل طلب رہیں گے کہ نہیں؟ کیا طالب علم جامعات کی فیس وقت پر ادا کر سکیں گے؟ کیا خوراک کی عدم دستیابی کا معمہ حل ہو پائے گا؟ کیا چھت میسر ہو سکے گی؟ کیا منڈی میں ایک مخصوص طبقہ کی اجارہ داری ختم ہو پائے گی ؟ کیا ظالم اور مظلوم میں فرق کیا جاسکے گا؟ کیا ایک عام انسان اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کے خواب دیکھ پائے گا؟ شائد نہیں ! اس کے لئے ایک مربوط سیاسی، سماجی اور اقتصادی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جسکی اجازت موجودہ نظام نہیں دیتا اُسکے لئے نظام کو بدلنا ہوگا!

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply