دیوانے کی بڑ۔۔۔فیصل عظیم

 بھرے بازار کے پامال چہرے کی

اندھیری جھرّیوں پر دھوپ کی یلغار

کہیں مشتاق نظروں سے

مرصّع طاق میں اسباب

خود اپنے بوجھ سے لٹکی کہیں

تمثال خوابوں کی

کہیں جنسِ تجارت طوق گردن کا

دھواں سانسوں کا سدِّ راہ

اور سگرٹ کے مرغولے

کہیں چھڑکاؤ پھولوں پر کہیں رنگوں کی پچکاری

کہیں میلہ، کہیں ٹھیلا،

ہوا باندھے کوئی خوشبو کڑاہی کی

مسلسل گاڑیوں کے بے سُرے

سازوں کی آوازیں

بہت سے ہچکچاتے بدنما چھکڑوں کی ہاہاکار

مگر اک پیڑ کے نیچے

سڑک کے اک کنارے پر کھڑی گاڑی

اور اُس کی ساخت میں غلطاں

کئی اَوزار کا قیدی

ابھرتی اور الجھتی باہمی

تردید آوازوں سے بے پروا

پسینے میں نہایا ہے

سبھی اوزار بھیگے ہیں

مگر جانے، پسینا کس کو آیا ہے

! کبھی پہیّے سے محوِ راز ہوتا ہے

کبھی اک پیچ کستا ہے

کبھی اک چول سے بد ظن،

کوئی پرزہ بدلتا ہے

ٹھکا ٹھک ٹھک، مسلسل گم

بھلا ایسی سواری کی طرف ۔۔

کوئی سواری کیسے آئے گی

مگر وہ کب کسی کی راہ تکتا ہے

تھکن سے چُور، ہاتھوں سے لہو دھو کر

پسینا پونچھ کر

بازار سے اُکتا کے

اس گاڑی میں آخر بیٹھ جاتا ہے

اشارے کر کے آنکھوں کو

ہر اک منظر کا پس منظر دکھاتا ہے

مگر بازار تو بازار ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

ہر آگ سے لا علم اپنی راکھ کو سلگائے جاتا ہے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply