عورت کا ارتقائی سفر،گھر سے پوسٹر تک۔۔مریم مجید ڈار

“میرا جسم،میری مرضی”
“چادر،چار دیواری گلی سڑی لاش کو مبارک”

میں اس سب پہ کچھ کہنا نہیں چاہتی تھی کہ معاشرے میں ، کوڑھی کے گلے سڑے جسم جیسے سماج میں مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں مگر کیا کیا جائے کہ ہر طرف بپا اس طوفان بدتمیزی کی سمع خراش ہاو ہو سے محفوظ رہنا بھی ممکن نہیں جو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس مخلوق کے ہاتھوں آغاز ہوا ہے جس کی ایک ہم جنس میں خود بھی ہوں۔ ۔
قصہ کچھ نیو لبرل ازم کی نمائندہ عورتوں کے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ایک ہجوم سے شروع ہوتا ہے جن پر مندرجہ بالا الفاظ درج ہیں اور شہر کی سڑکوں پر چلتے ہوئے اس ہجوم نے چسکے اور چٹخارے کی عادی عوام، دانش وروں اور شاوئنسٹ اور فیمینسٹ بحث کو خوب ایندھن فراہم کیا ۔ پھکڑ بازی اور بے ہودہ گوئی کی ماچس بھی بھک سے جلی اور خوب “گرما گرم” ماحول پیدا ہوا۔

دانش وروں کو موضوع سخن دستیاب ہوا اور بحث کی آڑ میں ایک دوسرے کو چوراہےپر ننگا کرنے کی ذہنیت رکھنے والے بھی اچھی طرح مستفید ہوئے کہ اس دکان میں ہر مال حسب منشا دستیاب ہے۔ ۔
میں ذاتی طور پر اس بے ہنگم بھدی سوچ کے خلاف ہوں جسے نیو لبرل ازم کہا جاتا ہے کہ معاشرے کو صحت مند بنانے اور مثالی سماج کی بنیادیں استوار کرنے میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے مگر مجھے اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ کسی کو صرف صنفی امتیاز کی بنا پر حقوق سے محروم کیا جائے یا صیلاحیتوں کے استعمال سے روکتے ہوئے معاشرے میں اپنی افادیت ثابت کرنے اور اپنا کردار نبھانے نہ دیا جائے۔

“کھانا خود گرم کرو” کی تحریک کے پس پشت مقاصد کیا ہیں میں سمجھ نہیں پائی کہ آخر یہ آواز کس مظلوم طبقے کے لیے  اٹھائی گئی ہے ؟؟
کیا ان خواتین کے لیے جن کی زندگی اس “خوشخبری” کو سنے بغیر ہی گزر جائے گی کہ ان کی چند “ہمدردوں” نے ان پر ہو رہے “گھریلو تشدد” کے خلاف آواز بلند کی ہے؟ کیا یہ پلے کارڈز اس طبقے کی عورتوں کا استعارہ ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ معشیت کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں یا پھر یہ “ظلم” ان “ابلا ناریوں” کے ساتھ ہو رہے ہیں جو فلرز ،بوٹاکس کے کرشموں سے کسے چہرے لیے،ننگے شانوں اور تھیم میک اپ سے لیس ہو کر ،برانڈڈ جوتوں کی ایڑیوں تلے “مردوں” کو کچلنے سڑکوں پر نکل کھڑی ہوتی ہیں۔۔؟؟

اگر تو یہ احتجاج ان عورتوں کے لیے ہے جن کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے تو اس کے لیے یہی کہنا مناسب ہو گا کہ ان درد دل رکھنے والیوں کی توانائی بیکار ضائع ہوئی ،ان تک آپ کی یہ آواز کبھی نہیں پہنچے گی کہ غم حیات ان کے لیے کسی اور انداز کے ہیں۔ ان کے آزار کا مداوا آپ کے یہ الفاظ اور عزائم کبھی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ حاملہ پیٹ کے ساتھ تھر کے ٹبوں سے میلا،گارے نما پانی بیک وقت چار پانچ گھڑوں میں سر پہ اٹھا کے لانا کھانا گرم کرنے سے زیادہ مشکل “ٹاسک” ہوا کرتا ہے۔

سڑکوں پر ،ہسپتال کی ایمرجنسی کے عین سامنے کسمپرسی میں بچہ جننا بھی کھانا گرم کرنے سے کٹھن ہے اور سوکھی چھاتیوں کی خشکی سے نومولود کو زندگی کھینچنے کی ناکام تگ و دو کرتے ہوئے اور تھک ہار کے موت کی پناہ میں جاتے ہوئے دیکھنا کھانا گرم کرنے سے کہیں زیادہ ازیت ناک ہے۔۔

اگر چائے کی پیالی میں یہ طوفان درمیانے طبقے کی ورکنگ وومن کی خاطر اٹھایا گیا ہے تو پھر بھی بے فائدہ ہے کیونکہ اس کے مسائل کا آغاز پبلک ٹرانسپورٹ کی خواری سے شروع ہوتا ہے اور کام کی جگہ پر مختلف لوگوں کے اذیت ناک رویوں سے ہوتا ہوا ذہنی و جسمانی تھکن پہ جا ٹھہرتا ہے۔

اب تیسرا طبقہ ہی رہ جاتا ہے جن میں وہ سب خواتین شامل ہیں جو سڑکوں پہ اپنا ہونا ثابت کرنے نکل کھڑی ہوئی ہیں اور یہ فرما رہی ہیں کہ اپنا کھانا خود گرم کرو ، حالانکہ امید واثق ہے کہ یہ معزز خواتین ان “مشکل اور صبر آزما “مقامات سے بذات خود کبھی نہیں گزری ہوں گی جنہیں “پکانا،ریندھنا اور پروسنا” کہا جاتا ہے ۔اور نہ ہی کسی مائی کے لعل میں اتنا دم ہے کہ وہ ان سے یہ سب کام لے سکے تو پھر یہ بھدا احتجاج چہ معنی دارد؟؟

وجہ تسمیہ اس احتجاج کی کیا ہے ؟؟ ” جی فلاں شخص نے بیوی کا بازو توڑ دیا کہ کھانا گرم نہیں تھا۔” یہ واقعی ایک افسوسناک خبر ہے مگر کیا کسی ایک واقعہ یا واقعات کو بنیاد بنا کر ،جو کسی شخص کی  ذہنی ابتری اور بیمار ذہنیت کے سبب بھی ہو سکتا ہے، معاشرے کے دو اہم فریقوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کرنا درست ہے ؟

بات صرف گرم کھانے تک نہ رہی، چادر اور چاردیواری کو گلی سڑی لاشوں کا ورثہ قرار دیتے ہوئے “میرا جسم ،میری مرضی” تک آن پہنچی۔ تو اب سوچیے  کہ مقاصد و عزائم درحقیقت کیا ہیں؟؟
اگر یہ احتجاج واقعی عورت  ذات کو انصاف اور معاشرے میں مرد کے برابر حقوق دلوانے کے لیے کیا جاتا تو عورت کو معاشرتی اور قانونی برابری کے نعرے بلند کیے جانے چاہیئں تھے۔ تھانہ کچہری اور عدالتی کارروائی میں عورت کو آسانی فراہم کرنے کا مطالبہ ہونا چاہیے تھا مگر ان دردمندوں کے ہاتھ میں ایسا کوئی پوسٹر کم از کم میری نظر سے تو نہیں گزرا۔ کیا عورتوں کو سماجی ،قانونی اور معاشرتی برابری دلانے کی راہ میں صرف”چادر اور چاردیواری” ہی سب سے اہم ترین رکاوٹ ہے ؟

اگر یہ غم مڈل کلاس ورکنگ وومن کے لیے امنڈا تھا تو “چادر اور چار دیواری “کو “گلی سڑی لاشوں” کا اثاثہ قرار دئیے جانے کے بجائے ہونا یہ چاہیے  تھا کہ ایسی اصطلاحات اور عملی اقدامات کو متعارف کروانے کے لیے  زور ڈالا جاتا جو ایک کام کرتی عورت کی چادر کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے اور صنفی امتیاز کی بنا پر عورت کے ساتھ بدسلوکی کے خاتمے کے لیے  واقعی ہی کوئی زمینی مثال قائم ہوتی مگر یہاں تو سارا زور ہی چادر اتروائی پر دیا جا رہا ہے۔ یعنی ساری بدسلوکی،ظلم اور ناانصافی چادر کی نحوست سے جڑی ہے ،لباس اتار پھینکیے اور عزت بے عزتی کی بے معنی کشمکش سے آزاد ہو کر کھل کر سانس لیجئے۔

اس سلسلےکا سب سے متنازعہ پوسٹر ” میرا جسم میری مرضی” کا ہے۔ کم از کم اس پوسٹر کی وضاحت ان معزز خواتین کو ضرور کرنی چاہیے تھی۔
میں مانتی ہوں کہ میرا جسم میرا ہے اور اس پر مرضی کا اختیار بھی مجھے ہی ہے مگر! یہ اطلاع شہر بھر کے مردوں کو دینے کی کیا ضرورت آن پڑی؟؟ اور دوسری اہم بات کہ کیا یہ ان مظلوموں کے دل کی آواز ہے جو کھانا گرم نہ کرنے پر ہڈیاں تڑواتی ہیں یا آپ کی  اپنی مادر پدر آزادی کی خواہش ہے؟؟۔۔۔۔آپ کی “مرضی” کا تعین آخر کس پیمانے پر کیا جائے کہ اگر یہ شوہر کو اپنے ساتھ سونے نہ دینے کا اعلان ہے تو شوہر کو ہی بتانا چاہیے  یا پھر آپ کے اس اعلان کو “پیشکش ” سمجھا جائے جو ماسوائے شوہر کے ہر کسی کے لیے  دستیاب ہے ؟
جن عورتوں کو کھانا گرم کرنے کے جھنجھٹ ہوتے ہیں وہ تو اپنے جسم پہ شوہر ہی کا حق سمجھتی ہیں ۔

اگر اس اعلان سے یہ نتیجہ اخز کیا جائے کہ جسم   ذاتی ملکیت ہے اور اس سے حظ اٹھانے اور جبلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے  عورت کو اپنی راہ چننے کا کلی اختیار ہے تو پھر آپ کو یہ واضح کرنا چاہیے  کہ آپ سماجی ضابطہ اخلاق اور اس معاشرتی بندھن کی دھجیاں اڑانا چاہتی ہیں جسے شادی کہا جاتا ہے اور جس کے حقوق و فرائض کا رونا آپ سڑکوں پہ روتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اور کم از کم یہ مظلومیت کی چکی میں پستی عورت کے دل کی آواز تو ہرگز نہیں ہو سکتی جواگر بہت باغی بھی ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ شوہر کو حقوق زوجیت زبردستی وصولنے سے ہی روک سکتی ہے ۔

آپکی جرات اور ہمدردی کو ایسا احتجاج کرنا چاہیے تھا جس میں گھر سے باہر کام کرتی عورت کو جنسی ہراسانی کے معاملات رپورٹ کروانے کی جرات پیدا ہوتی، معاشرے کو عورت کے لیے محفوظ بنائے جانے کے معاملات پر غور ہوتا،لیکن یہاں پیش نظر یہ مقصد ہے کہ چادر اتارو،جسم کو اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہوئے شوہر کو ایک ڈسپوزیبل کموڈٹی گردانتے ہوئے اپنے “سرمائے” کو اپنی بے جا خواہشات کے پورا کرنے کے لیے جی بھر کر استعمال کرو اور گھر آ کر یہ “اعلان” کرو کہ کھانا خود گرم کرو کیونکہ میں تو چادر کو کفن سمجھ کر اتار آئی ہوں اور اپنے جسم کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا ہنر بھی سیکھ لیا ہے ۔

لہذا ثابت ہوا کہ یہ اوور ریٹیڈ لبرل ازم کا وہ کبوتر ہے جو کبھی کبھار ٹوپی سے نکالنا لازم ہوتا ہے تا کہ مزید ایسے “نیک مقاصد” کے لیے فنڈز ملتے رہیں ۔

سوال یہ ہے کہ آخر سماج کے دو ضروری فریقین “مرد” اور “عورت” کے ٹکراؤ ،مخاصمت اور مبارزت سے کس صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرے کی داغ بیل ڈالی جا سکتی ہے ؟
کیا ایسی لبرل ازم کے کرتا دھرتا معاشرے کو دو دھڑوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں جہاں عورتیں الگ سے حاکم ہوں اور مرد الگ سے حکمران ہوں؟؟

یہ حقیقت روز روشن کی مانند عیاں ہے کہ مردوزن باہمی توازن، تعاون اور پرسکون سماجی معاہدوں کے بغیر نہ تو خود ہی نارمل رہ سکتے ہیں اور نہ ہی معاشرے میں کسی مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ہمیں یہ سیکھنے کی اور ان نکات پہ صحت مند بحث اور بات کرنے کی اشد ضرورت ہے جن سے افراد،معاشرے اور ترقی کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بقا ایک دوسرے کی فنا سے مشروط نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کو باہمی عزت،تعاون اور آسودگی دینے میں مضمر ہے ورنہ یہ معاشرہ ایک ایسی مارکیٹ بن جائے گا جہاں گرم جسم ٹھنڈے اور ٹھنڈا کھانا گرم کرنے کے لیے ہر طرح کی بازاری سہولت دستیاب ہو گی اور اس ہیجان خیزی کی ہیچری سے نکلنے والی نئی نسل اس جاگ لگے دودھ کی مانند ہو گی جو نہ دودھ رہتا ہے اور نہ دہی بن پاتا ہے اور بالاخر گندی موری میں بہا دیا جاتا ہے۔
رہے نام اللہ کا!

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”عورت کا ارتقائی سفر،گھر سے پوسٹر تک۔۔مریم مجید ڈار

  1. بہت خوب لکھا اور یہ قاری کو قائل کرنے والی تحریر ہے ۔ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے آپ کے پڑنے والوں میں ایک خوب صورت اضافہ ہو چکا ہے

Leave a Reply to Rehana Bashir Butt Cancel reply