تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا۔۔رفعت علوی/قسط5

سرخ سویرے کے خوں آشام سائے میں دست صبا کی دستک سے کھلنے والے دریچہ الفت کی کہانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاؤں کی سہمی سہمی فضا میں ایک اور نمناک اداس صبح کا آغاز ہو چکا تھا خنک بھیگی اور کہر آلود صبح۔۔۔۔رات کی برف باری اور چیکا کے خوف و دہشت سے بھری ہنگامہ خیز ایک اور رات گذر چکی تھی۔سمبرسک کی آخری حد پر بنے ہوئے گاؤں کے اجتماعی کھیت پر کاشتکار اپنی بیگار نما زندگی کا ایک اور دن شروع کرچکے تھے۔اور صوفیا نے تیمور کو جا پکڑا تھا۔۔
لعنت ہے ۔۔اس دنیا پر لعنت ہے۔اس جنگ پر لعنت،کیاہم نے ایسے ہی انقلاب کے خواب دیکھے تھے؟صوفیہ تیمور کا بازو چھو کر بولی۔۔
وہ خاموش رہا۔۔
کل رات تم ہی تھے نا جس نے ولیری کو چیکا کے فوجیوں سے بچایا تھا؟
تیمور پھر بھی کچھ نہ بولا۔۔
اسی طرح کسی دن ہماری باری بھی آسکتی ہے؟ کیا تم ہمیں  بھی بچاؤ گے؟۔۔تم کس کس کو بچاؤ گے تیمور کس کس کو۔۔۔۔وہ اس کو جھنجھوڑ کر بولی!
جاؤ جاؤ۔۔چلی جاؤ۔۔مجھے تنہا چھوڑ دو، وہ بیزاری سے بولا
کیا تم صوفیا پالینوف سے ناراض ہو ؟ اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا
نہیں!!۔۔۔ مگر چپ رہو یا چلی جاؤ یہاں سے
نہیں میں نہ چپ رہوں گی۔۔۔۔۔اور نہ جاؤں گی!!تم مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتے، سچ بتاؤ کیا تمھارا تعلق بھی سرخ فوج سے ہے؟

یہ بھی پڑھیں :  تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا۔۔رفعت علوی/قسط4
وہ دیر تلک سوچا کیا، یہ لڑکی جو اتفاق سے انقلاب اور جنگ کے  غیر معمولی حالات کی وجہ سے اس سے آ ٹکرائی ہے آخر ہے کون جسے وہ اپنے ماضی میں شریک کرے، اپنا حال دل بتائے اور آخر بتائے بھی کیوں کہ وہ اپنی زندگی میں کن کن مسائل سے دوچار رہا ہے اور ان کا سامنا کرنے کے لئے اس نے کیا کیا نہیں برداشت کیا ہے، نہیں نہیں۔۔۔ اسے کسی ہمدردی کی ضرورت نہیں،
کامریڈ ۔۔۔کامریڈ۔۔۔۔بتاؤ نا تم ہو کون جس کو چیکا کے فوجی بھی سلوٹ کرتے ہیں، کیا تمھارا تعلق بھی سرخ فوج سے ہے؟
ہاں۔۔ہاں ہے۔۔۔۔۔۔کسی نامعلوم جذبے اور بےبسی سے شکست کھا کر تیمور نے اپنی خاموشی توڑ دی
میں کبھی ان سپاہیوں کا افسر رہ چکا ہوں
تم۔۔۔۔۔کیا تم ان وحشیوں اور بزدل فوجیوں کے ساتھی تھے؟ وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھیلا کر بولی
نہیں۔۔بالکل بھی نہیں!میں زار روس کی کازک رجمنٹ کا فوجی افسر رہ چکا ہوں، مگر۔۔اس نے تلخی سے کہا اور جملہ ادھورا چھوڑ کر ایک گہری سانس لے کر خاموش ہوگیا
کیا تم چیکا کے آدمی ہو۔۔۔صوفیا خوفزدہو کر اس سے کچھ دور ہٹ گئی
نہیں ۔۔۔۔بتایا تو۔۔۔۔میں۔۔میں نے دو جنگیں لڑی ہیں ان کے ساتھ مل کر۔۔ وہ سب مجھے جانتے ہیں، میں نے بہت کشت و خون دیکھا ہے، زندگی کا مسکراتاہنستا ہوا چہرا بھی دیکھا ہے اور موت کے المناک اور بھیانک سائے بھی، دونوں کا بوجھ ہے میرے شانو پر۔۔۔۔
میں نے ان جوانوں کو جانکنی کے عالم میں تڑپتے دیکھا ہے جن کی جیبوں میں ان کی ماں کے نام آخری خطوط موجود تھے، اس سپاہی کی لاش پر بھی ماتم کیا ہے جو اسی دن اپنے گھر چھٹی پر جا رہا تھا اور جس نے اپنی منگیتر سے ایک ہفتے بعد ملنے کا وعدہ کیا تھا، میں نے اس کم سن نوجوان سپاہی کی لاش بھی دفنائی ہے جو خندق میں بھی اپنے اس معصوم بچے کی کلکاریاں مارتی تصویر  ساتھ رکھتا تھا جس کو اس نے ابھی تک دیکھا بھی نہیں تھا۔۔اس کی آواز ٹوٹ گئی
نہیں تم نہیں سمجھو گی صوفیا۔۔۔۔۔اس اذیت اور تکلیف کو تم سمجھ ہی نہیں سکتیں، اس کے لہجے میں مایوسی تھی تلخی تھی فرار تھا اور آنکھوں میں نمی۔۔

کچھ اور بتاؤ میرے کامریڈ۔۔۔کچھ اور۔۔ اچھے آدمی۔۔۔اپنے بارے میں بتاؤ!!
میں کامریڈ نہیں!میں تیمور سمرونوف نفرت کرتا ہوں اس نظام سے، اس جبر سے اس خونی جنگ سے۔میں بھاگ جانا چاہتا ہوں یہاں سے اس حکومت کی حدود سے، اس انقلاب کی تباہ کاریوں سے، اس کی آواز کچھ بلند ہوگئی
صوفیا اس کو ایک ٹک دیکھے گئی۔۔
محنت اور مشقت سے سنولائے ہوئے اس سپاہی کے چہرے پر تنہائی کا کرب تھا، سسٹم سےنفرت تھی کسی سے جدائی کی حسرت تھی مگر ایک حوصلہ اور عزم بھی تھا۔
ادھر دیکھو۔۔اس نے اپنی طرف اشارا کیا، کبھی میری اس وردی پر بھی ڈھیر سارے چمکتے ہوئے تمغے سجے رہ چکے ہیں، مجھے سویت یونین کا بہت بڑا جوبلی ایوارڈ مل چکا ہے، وہی جوبلی ایوارڈ جو آئیون پیٹرو جیسے جانباز کو ملا تھا
ادھر دیکھو، دیکھو ۔۔۔۔ میرا جلا ہوا جسم دیکھو۔یہ میرے پیر کا زخم دیکھ رہی ہو، یہ گہرا گھاؤ مجھے آخری جنگ میں آیا تھا، اس نے اپنے پتلوں کا پائنچہ اوپر کیا،
اگلے مورچوں پر میرا کمانڈر بری طرح گھائل ہوگیا تھا، وہ دشمنوں کے ایک ٹینک کے نیچے بےہوش پڑا تھا سارے سپاہی یا تو گرفتار ہوچکے تھے یا پھر محاذ سے پسپا ہوچکے تھے، میں نے برستی گولیوں اور بم کے دھماکوں کے بیچ کمانڈر کو دشمن کے ٹینکوں کے نیچے سے نکالنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی ہوگیا مگر راستے میں اپنی ہی فوج کی بچھائی ہوئی ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا گیا، دھماکے کی شدت سے اچھل کر میں دور گرا، میرا سارا جسم جھلس گیا تھا مگر میں ہوش میں تھا، میں نے ہمت نہیں ہاری اور زخمی حالت میں ہی اپنے کمانڈر کو گھسیٹتا ہوا امدادی کیمپ کے قریب تک جا پہنچا، امدادی ٹیم نے ہم دونوں کو دم بہ لب بیہوشی کے عالم میں پایا۔ وہ چپ ہوگیا

صوفیا نے جھک کر اس کے پاؤں پر لگے زخم کا بڑا سا نشان دیکھا اور مندمل زخم پر ہاتھ پھیرنے لگی، اس بے تکلفی غیر متوقع التفات اور نسائی لمس کے احساس سےتیمور کا جسم کانپا اس نے جلدی سے اپنا پیر کھینچ لیا اور اپنی جھینپ مٹانے کے لئے دوسری طرف دیکھنے لگا،
بہادر فوجی عورت سے ڈرتا ہے، صوفیا شوخی سے بولی اور کھلکھلا کر ہنس پڑی۔۔
نہیں نہیں اب کوئی عورت نہیں، میں ان چکموں میں آنے والا نہیں، میں اکیلا ہی بھلا۔۔اس نے جھنجھلا کر گویا اپنے آپ سے کہا،
تف ہے۔۔مجھ پر!ایسی دل لگی اور جذبات کا میری زندگی سے کیا تعلق۔۔۔آج نہیں تو کل مجھے لوٹ ہی جانا ہے!
مگر وہ خود جانتا تھا کہ پچھلے کئی دنوں سے وہ کچھ بدل سا رہا ہے، وہ اپنے دل کو ٹٹولتا تو وہ اس کی کوئی تشریح کوئی وضاحت نہ کر پاتا، اس کی بےچراغ راتوں میں روشن دنوں کی گنجائش نہ تھی ، مگر اب اسے صوفیا کو دیکھنا، محسوس کرنا اس کا قرب اچھا لگنے لگا تھا، جانے کس دست دعا کا یہ اعجاز تھا کہ رخش صبا نے اپنا رخ موڑ کر اس کے دل میں ایک دریچہ کھول دیا تھا
شاید  یہ دریچہ الفت تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھیت پر کھانے کا وقفہ تھا، آئیون ووڈکا کے نشے میں دھت مدہوش پڑا تھا۔۔میخائل ایک تناور درخت کے نیچے بیٹھا سوکھا پنیر خشک ڈبل روٹی کے ساتھ کھا رہا تھا، اچانک اس نے صوفیا کی زندگی سے بھرپور اور شوخ آواز سنی اس نے دوسری طرف جھانک کر دیکھا اس سے تھوڑے فاصلے پر تیمور غلے کے ایک بھاری گٹھر سے پیٹھ لگائے بیٹھا تھا، اس کے سامنے کھڑی صوفیا کا چہرہ نامعلوم مسرت سے دمک رہا تھا، وہ ہنس ہنس کر تیمور کو چھیڑ رہی تھی اور تیمور دونوں پیر پھیلائے سینے پر ہاتھ باندھے خاموشی سے اس کے طرف دیکھے جا رہا تھا۔۔
یہ لڑکی۔۔۔تیمور نے ایک نظر ہنستی ہوئی صوفیا پر ڈالی،
ان صعوبتوں اور کھیت کی اس قدر کٹھن زندگی کے باوجود اس لڑکی کے جسم کی نفاست، دلکشی اور ترو تازگی اسی طرح قائم ہے۔تیمور نے ترچھی نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا، ایسے تمتمائے رخسار، مسرور جھلملاتی شریر آنکھیں، اور سنہرے بال اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، اس کو لگا جیسے کوئی غیر معمولی احساس اس کے دل میں پل رہا ہے۔۔۔۔انوکھا ،سرشاری سے بھرپور۔۔۔ایک انجانا مدھم پرشکوہ اور ایسا جذبہ جس نے اس کی روح کی گہرائیوں میں امنڈ کر اس کو لاچار کر دیا ہے۔

یہ لڑکی کس قدر دھیان اور پیار سے میری باتیں سنتی ہے، برسوں بعد میں نے کسی کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھا ہے، اسے لگا کہ وہ اس کے بہت قریب آ گئی ہے جیسے وہ دونوں بہت پرانے دوست ہوں،
ایک طرف شوخ و چنچل صوفیا تھی دوسری طرف نتالیا۔۔۔
نتالیا کے خیال نے ایک بار پھر تیمور کے جذباتی سکون کو منتشر کردیا تھا، نتالیا ایک ایسی یاد تھی جو بہت دور ہوتے ہوئے بھی بہت قریب تھی۔۔
صوفیا نے اس کے سنجیدہ اور گھمبیر چہرے کی طرف دیکھا اور دھیرے سے اپناہاتھ بڑھاکر اس کا ہاتھ تھام لیا اور اس کی کھردری انگلیاں سہلانے لگی۔
یہ سب دیکھ کر نہ جانے کیوں میخائل کا دل ایک نامعلوم مسرت سے بھر گیا، گویا کچھ ہو رہا ہے کچھ ہونے کو ہے۔
اس نے پچھلے دنوں عورتوں میں ہونے والی مختلف چہ مگوئیاں اور قیاس آرائیاں بھی سنی تھیں جو سب کی سب تیمور پر صوفیا کے بڑھتے ہوئے التفات کے بارے میں تھیں اور ان میں کچھ کولکھوزنگوں(دہقانوں) کی بدکلامیاں اور نفرت بھرے جملے بھی تھے۔نفرت۔۔۔ جو وہ تیمور سے کسی بے وجہ جلن و حسد کے سبب کرتے تھے خاص طور پر اس کے اپنے گاؤں کے مقامی مزراعے جو صوفیا کو ایک اجنبی علاقے سے آنے والے معمولی سپاہی پر ملتفت دیکھ کر برافرختہ تھے مگر میخائل کو اتنی سمجھ تو تھی کہ پیار میں کچھ غلط اور کچھ صحیح نہیں ہوتا، محبت تو صرف محبت ہوتی ہے اس معاملے میں عقل محو نظارہ رہتی ہے، کیونکہ عقل صرف سوچ ہے اور محبت صوفی کا سجدہ ہے، مسرت کا مژدہ ہے، مفتی کا فتوی ہے، ناصح کا تقوی ہے، امام کا مصلہ ہے، واعظ کا فلسفہ ہے، زاہد کی تسبیح ہے، مستانے کی مستی ہے، کھلاڑی کی ہار ہے، اناڑی کی جیت ہے، محبت مجبور ہے!!!
بالکل مجبور۔۔۔بے دست و پا!

وہ کسی کے لئے پھول ہے تو کسی کے لئے دھول ہے، وہ جوگ بھی ہے وہ روگ بھی ہے اور ان سب سے بڑھ کر سنجوگ بھی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے!

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا۔۔رفعت علوی/قسط5

Leave a Reply