پاکستان، بنگلہ دیش اور مصر ان کے ہاں مملکت وٹیکن کی فارن سروس میں ہارڈ اسٹیشن سمجھے جاتے ہیں۔ان ممالک میں اگر وہ کسی کو عیسائی بناتے ہیں تو ان کو زیادہ پوائنٹس ملتے ہیں ترقی برق رفتار ہوجاتی ہے۔پاکستان میں تو ایک کارڈینل روبیرو بھی تھے جو پوپ کے 150 رکنی انتخابی کالج The Conclave کے ممبر تھے اور اگر عالمی طاقتیں یہ فیصلہ کرلیتیں کہ اگلا چرچ ایشیا سے ہوگا تو وہ دنیا کے اس سب سے طاقتور عہدے کے مستند امیدوار تھے۔
دیدات صاحب کا خیال تھا کہ یہ تبلیغی دین کو اپنے علاوہ عملاً ہر جگہ نافذ کرناچاہتے ہیں اورخود کو لباس اور حلیے تک محدود کرلیا ہے۔گفتار کے غازی اور کردار سے عاری ہیں۔جنرل ضیاالحق کے دور سے پاکستان میں مسلمان بڑھ گئے ہیں اور اسلام گھٹ گیا۔دیدات صاحب گفتگو اور عمل میں تشدد اور انتہا پسندی کے سخت مخالف تھے کہا کرتے تھے کہ
“He who takes his sword and tries to propagate with that will do little for him[self]”.
وہ دعوی اور تبلیغ میں قرآن العظیم کی اس آیت کریمہ کا سہارا لیتے تھے کہ لوگوں کی دین کو دعوت حکمت اور خوش اخلاقی سے دو۔
دیدات صاحب نے یہ بھی سمجھایا کہ محمد مصطفے ﷺ سے بڑھ کر دنیا میں کسی بھی کار عظیم کو انجام دینے کے لیے ہمارے سامنے کوئی اور نمونہ نہیں۔نبیﷺ کی زندگی دیکھ لیں۔چالیس برس کا کردار ہے اور 23 برس کی دعوت دین۔اس میں بھی قیام مکہ کے13 برسوں تک کوئی عبادت فرض نہیں بجز صلوۃ کے، وہ بھی جماعت کی حیثیت سے خال خال موقع دیکھ کر ادا کی جاتی ہے۔اس دوران آپﷺ کا مخالفین اسلام سے کوئی عسکری معرکہ نہیں ہوا۔بس کردار کے نمونے ہیں اور تبلیغ و دعوت کا سلسلہ چل رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : اپُن کا کراچی،شیخ دیدات سے ملاقات۔۔محمد اقبال دیوان/قسط4
صادق اور امین ہونے کا ایسا ناقابل تردید نمونہ نبی محترم کی ذات اقدس کی صورت میں پیدائش سے 53 برس تک ان کے درمیان موجود ہے کہ ابوجہل جیسا دشمن جاں سردار بھی ابو سفیان اور حضرت خالد کے والد ولید بن عتبہ سے کہتا ہے کہ”خدا کی قسم محمدﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا،ان سے بڑھ کر کوئی اور امین مکہ میں اس وقت موجود نہیں،میں انہیں جھوٹا نہیں کہتا مگر وہ جو کچھ کہتے ہیں اسے جھٹلانے پر مجبور ہوں،اس کی تکذیب میرا مشن ہے“۔ وہ حیران ہوتا تھا کہ جھوٹ تو ہمیشہ ذاتی فائدے کے لیے بولا جاتا ہے۔نبیﷺ محمد بن عبداللہ نے کبھی ذاتی وجوہات کے لیے جھوٹ نہیں بولا تو Non- Personal وجوہات کی بنیاد پر کیسے جھوٹ بول سکتے ہیں۔یہ نبی جس پر سورۃالاحزاب کی یہ آیت عظیمہ و تکریمہ بھی نازل ہوئی کہ”اللہ اور اس کے ملائک اپنے نبی محترم پر درود و صلوۃ بھیجتے ہیں سو اے اہل ایمان تم بھی اس عمل درود و صلوۃ میں شریک ہوجاؤ“ وہی نبی سورہ الحاقہ کی آیات نمبر40 تا 46 بھی بیان کرتے ہوئے کسی مصلحت سے کام نہیں لیتا ۔یہ ہی اس کی صداقت اور امانت کی سب سے عظیم اور ناقابل تردید گواہی ہے کہ’وہ اپنے بارے میں کہی گئی بات بھی سچائی سے بیان کردیتے ہیں اس کو بھی نہیں چھپاتے
”’ یہ قرآن بے شک ایک عالی مرتبت و کرم والے نبی نے تم تک پہنچایا ہے۔ تم یہ مت گمان کرو کہ یہ کسی نے شاعری فرمائی ہے۔نہ ہی تم اس غلط فہمی میں رہنا کہ یہ کسی کاہن یا جادوگر کا کوئی منتر ہے۔اس کو نازل کرنے والا تو عالم تمام کا رب ہے۔اگر وہ ہمارے بارے میں ایک بات بھی اپنی جانب سے بنا کر منسوب کرے تو ہمارے اختیار میں ہے کہ اس کادایاں ہاتھ بہ قو ت پکڑکر اس سے بدلہ لیں اور اس کی رگ دل کو بیچ سے چیر دیں“۔
دیدات صاحب کا گفتگو اور تقاریر دونوں میں سٹائل بہت سادہ،دل میں گھر کر نے والا اور پرلطف ہوتا تھا۔ان کی ہمہ وقت یہی کوشش رہتی تھی کہ گفتگو موضوع سے جڑی رہے۔ذاکر نائیک کی طرح وہ دیکھنے اور سننے میں کرخت نہیں لگتے تھے۔ایک سوال ہمارے ذہن میں مدتوں سے کلبلاتا تھا سوچا پوچھ لیں کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام کا ہر جگہ ہر مذہب کے پیروکاروں سے تصادم ہے۔وہ کہنے لگے یہ بات درست نہیں کہ مکہ اور مدینہ کی بستیوں کے مکین نبی محترمﷺ کے زمانے میں سخت گیر مذہبی رویوں کے حامل تھے۔کعبہ کی عمارت کو ہی لے لیں ہر طرف سے بمشکل پچاس فیٹ کا ایک چوکور کمرہ ہے اس میں قرآن کے نزول سے قبل ہر قبیلے کا اپنا ایک بت تھا یوں تین سو ساٹھ بت تو یہ ہوئے۔ان دونوں بستی والوں کاآتش پرستوں سے،عیسائیوں سے یہودیوں سے اور فطرت پرستوں سے روز مرہ کا لین دین تھا۔ وہ سب ایک دوسرے کو ہنسی خوشی برداشت کرتے تھے۔سورۃ علق کی پہلی پانچ آیات جن میں کسی عبادت کا کوئی ذکر نہیں ان کا نازل ہوکر ان تک پہنچنا تھا کہ جانو ایک بھونچال آگیا۔سگا چچا ابو لہب اور اس کی بیوی ابوسفیان کی بہن بھی آپ کی دشمنہوگئی۔
ابو لہب آپﷺ کا واحد عزیز ہے جس کا قرآن الکریم میں نام سے تذکرہ ہے۔اس تذکرے میں بھی اس کی انتہائی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے،ایک مکمل سورۃ اس کو مطعون کرنے کے لیے نازل ہوئی۔قرآن الکریم میں نام سے بھی صرف ایک خاتون سیدنا مریم علیہ سلام مذکور ہیں۔نہ حوا، نہ زلیخا، نہ آپ کی ازدواج مطہرات نہ کوئی اور خاتون کا نام کتاب مقدس میں مذکور ہے۔
دیدات صاحب بتانے لگے کہ اسلام واحد مذہب ہے جو کسی قسم کی Clergy یعنی پوپ،امام،داعی قسم کے دیوتا نما مذہبی انسانوں کو اہمیت نہیں دیتا ہے۔جب وہ سود،شراب اور جوئے پر پابندی لگاتا ہے تو اربوں روپے کی انڈسٹری اڑ جاتی ہے۔اسلام شادی کو آسان اور بدکاری کو مشکل بناتا ہے۔اشاعت گناہ سے روکتا ہے تو فلم،فحاشی اور فیشن انڈسٹری ختم ہوجاتی ہے۔ عدل تقوی کے قریب ترین جانتا مانتا ہے۔زکوۃ لازم اور ویلفئیر اسٹیٹ کو ایسا لازم و ملزوم بناتا ہے کہ حکمران ہر وقت محاسبے کی زد میں رہتے ہیں،سادگی کو علم کو زندگی کی رفعت کے لیے لازم مانتا ہے۔اسلام کے دشمن دوسرے مذاہب نہیں بلکہ ان سے جڑے وہ مذہبی گروپ اور ان کے پروہت،پانڈے،پادری ہیں جو ان تمام خرافات کو پھیلا کر دولت کمانے والی مافیا کا حصہ ہیں۔
دیدات صاحب کا یونیورسٹی آف لیوزانیا میں دنیائے عیسائیت کے عظیم مبلغJimmy Swaggart سے مباحثہ ہوا تھا۔جنوبی افریقہ جانے سے پہلے وہ امیر قطر کے مہمان تھے۔دنیائے عرب کے کئی ممالک میں شیخ احمد دیدات کو سربراہ مملکت کی سی پذیرائی ملتی تھی۔امیر قطر نے سوے گارٹ کو سنا تھا۔ان کے مشنری ادارے کا روزانہ کا خرچ دس لاکھ ڈالر تھا۔سال بھر چوبیس گھنٹے وہ کسی نہ کسی چینل پر عیسائیت کی تبلیغ کررہے ہوتے تھے۔امیر قطر نے انہیں کہا دیدات صاحب یہ سوئے گارٹ کم بخت اتنا عمدہ مقرر ہے کہ میں کئی دفعہ یہ سوچتا ہوں کی اس کی تقریر کے دوران ٹی وی کو توڑ دینا ٹی وی کو بند کردینے سے آسان ہے۔مجھے نہیں لگتا آپ نے اس سے مباحثے کا معاملہ طے کرکے کوئی دانشمندی کا فیصلہ کیا ہے۔
شیخ احمد دیدات مسکراکر کہنے لگے”میں نے انہیں کہا یہ تو عالی جناب ڈن ڈیل ہے اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔اس کا دین ہے وہ ہی بچائے گا۔ایک بات کا البتہ سوچیں جنگ تو آپ نے یا کسی عرب نے کوئی جیتنی نہیں۔آپ ایسا کریں اب کی دفعہ تین جنگی طیاروں کی لاگت کے برابر کی رقم جو آپ مختلف ممالک سے طیارے خریدنے میں ضائع کریں گے وہ ہمارے ادارے کو دے دیں۔ ہم اس سے تبلیغ کا ایسا سلیس, موثر اور سماجی طور پر مضبوط پروگرام نافذ العمل کریں گے کہ پانچ سال بعد آپ کو تین چوتھائی افریقہ اور آدھا امریکہ مسلمان ملے گا۔اس حاکم بے نیاز کو دوسروں کے مسلمان ہونے کی خاص فکر نہ تھی۔

شیخ احمد دیدات کا یہ مباحثہ ”کیا بائبل اللہ کی کتاب ہے؟“کے نام سے یو ٹیوب پر موجود ہے۔اسے دیکھ کر خود فیصلہ کیجئے کہ کس کا پلہ بھاری رہا۔
شیخ احمد دیدات نے سن 1986, میں اس وقت کے پوپ جان پال ثانی کو بھی دعوت دی تھی کہ ویٹی کن اسکوائر میں وہ دونوں اپنے اپنے دین پر بات کرتے ہیں مگر پوپ جان پال نہ مانے۔ہم نے پوچھا کہ ایسا کیوں۔تو کہنے لگے اگر پوپ مسلمان ہوجائے اور کریم آغا خان اپنے دعویء امامت کو ترک کردے تو کیتھولک اور اسماعیلی فرقے ختم ہوجاتے ہیں۔
ہم نے جب دیدات صاحب سے رخصت ہونے کی اجازت چاہی تو رات کے دس بج رہے تھے۔
جاری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اپُن کا کراچی،شیخ دیدات سے ملاقات۔۔محمد اقبال دیوان/قسط5“