ہائے کرپشن

کرپشن کے نام سے تو سب ہی واقف ہیں اور کیوں نہ ہوں۔ بدعنوانی ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس میں ہمارے بڑے سے بڑے وزیر بھی اٹکے ہوئے ہیں۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ برسراقتدار رہتے ہوئے کس نے، کب اور کیسے کرپشن کی لیکن پھر بھی حقیقت سے نظریں چراتے ہیں۔ کیوں؟ اس کا سچا مگر کڑوا جواب یہ ہے کہ ہم خود بھی بہت بڑے بدعنوان ہیں۔

اسکول اور کالج میں پڑھانے والے اساتذہ ہی کو دیکھ لیجیے جنہیں قوم کا معمار کہا جاتا ہے، مگر ان کے ہاتھ بھی کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کے مستقبل سے کھیلا جاتا ہے اور جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم نہ دے کر ان کا وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں بھیجنے پر مجبور ہوچکے ہیں مگر نجی اداروں نے بھی تعلیم کو کاروبار سمجھ لیا ہے۔ بچوں کی بھاری بھرکم فیس کے علاوہ کتابوں سے لے کر یونیفارم تک سب ہی کچھ “مخصوص” دکانوں سے خریدنے پر دباؤ بخوبی بیان کرتا ہے کہ نجی اسکول کس طرح پیسے بنا رہے ہیں۔

گستاخی معاف ،کیوں کہ میں جانتا ہوں سارے اساتذہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بہت سے اساتذہ ایسے بھی ہیں جو کہ محنت اور لگن سے پڑھاتے ہیں لیکن میں انہیں بھی کرپٹ کہوں گا کیوں کہ وہ اپنے ساتھیوں کو کرپشن اور بے ایمانی کے کاموں سے روکتے نہیں۔ وہ ان کی شکایت درج کروا کے انہیں نکلواتے نہیں۔

پنجاب حکومت نے لٹریسی ڈپارٹمنٹ کی طرف خزانے کا منہ کھول رکھا ہے، چھوٹے بچوں کے لیے اسکول کھولے جاتے ہیں ، جن دیہاتوں میں بڑی عمارتیں میسر نہیں وہاں گھر کو اسکول کی شکل دے کر لوگوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ کتنے بچے ان سکولوں میں تعلیم سے آراستہ ہوئے؟ یا دیگر محکموں کی طرح یہاں بھی پیسہ استعمال کرنے کی بجائے ہڑپ کیا جارہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوا ہوگا، کیوں کہ کسی کو فکر ہی نہیں کہ کون کون پیسے ہتھیا رہا ہے۔ سچے دل سے بتائیے کہ کیا ایسے نظام سے “پڑھا لکھا پنجاب” بن پائے گا؟

سکول سے باہر ذرا گلیوں پر نظر دوڑائیے، جا بجا بجلی کے تاروں سے لپٹے”کنڈے” نظر آئیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ بجلی چوری کرتے ہیں، وہی چوک اور چوراہوں میں کرپٹ حکمرانوں کو گالیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ نہ جانے ضمیر کیسا سویا ہے میری قوم کا۔ دودھ جیسی چیز اب گاؤں تک میں خالص میسر نہیں لیکن کرپٹ صرف حکمران ہیں۔ کلرکوں کو تو آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ وقت پہ اور سکون سے تو کوئی کام ہوتا ہی نہیں۔ ڈومیسائل بنوانے چلے جاؤ تو صبح سے شام تک وہیں لٹکے رہو لیکن مجال ہے کہ انہیں فکر ہو جائے۔ ہم پھر بھی صبر کیے ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قارئین! ہمیں اپنے حقوق کے لیے خود ہی کچھ کرنا ہو گا۔ جہاں بھی کرپٹ نظام دیکھیں، اس کا رد کریں اور حکام کو آگاہ کریں کیوں کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا!

Facebook Comments

نعیم الرحمان
کم عمر ترین لکھاری ہیں۔ روزنامہ تحریک کے لیے مستقل لکھتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر ایک طالب علم ہیں ۔ اصلاح کی غرض سے لکھتے ہیں ۔ اسلامی نظریے کو فروغ دینا مقصد ہے ۔ آزادی کو پسند کرتے ہیں لیکن حدود اسلامی کے اندر۔ لبرل ازم اور سیکولرزم سے نفرت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply