مدرسہ سازی کا عمل اور چند منفی رحجانات

اس سے پہلے ایک حالیہ مضمون میں علماء اور ریاست کے کردار پر تفصیل سے بات کی گئی تھی۔ اب اس مضمون میں مدرسوں کے رول پر بحث کی جائیگی ۔ دینی مدرسے صدیوں سے قائم ہیں اور مدرسہ سازی یا بنانے کا عمل بہت پرانا ہے ۔ تاریخ میں شاید کبھی مدرسے یا اسے قائم کرنے کا عمل اتنا متنازع رہا ہو جتنا پاکستان میں گزشتہ پچیس تیس سالوں میں رہا۔ پاکستان میں گزشتہ دو تین دہائیوں سے مدرسوں کے کردار کے بارے میں بڑی لے دے ہورہی ہے ۔ دہشت گردی کو مدرسہ سے جوڑا جارہا ہے اور مدرسہ اور دہشت گردی کو باہم خلط ملط کیا جارہا ہے ۔ مدرسہ کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے اور شناخت کرنے کے پیچھے کئی ٹھوس وجوہا ت ہیں ۔ پاکستانی معاشرے میں مدرسے کا سیاسی اور سماجی کردار بہت حد تک بدل گیا ہے ۔ ایک روایتی اور خاموش کردار کی نسبت مدرسے خاص کر ان کے منتظمین معاشرے کے ایک فعال اور موثر سیاسی قوت بن چکے ہیں۔ ان کا سیاسی اور سماجی وزن بڑھ چکا ہے اور کئی حوالوں سے وہ بلیک میلنگ کی پوزیشن میں آگئے ہیں ۔

اگر کسی عالم نے مدرسہ اپنی جیب سے بنایا ہوتا یا مدرسے فرقہ واریت اور مذہبی منافرت پھیلانے اور اس کے طلبہ دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوتے یا دہشت گرد اس کو پناہ گاہ یا ایک لاجسٹک مرکز کے طور پر استعمال نہ کرتے تو شاید کسی کو اعتراض ہوتا مگر بد قسمتی سے کئی ہائی پروفائل دہشت گردی کے واقعات کے ڈانڈے مدرسوں سے جا کر ملتے ہیں ۔ شاید تمام مدرسے عسکریت پسندوں یا دہشت گردوں کی آمجگاہ یا مرکز نہ ہوں مگر ایک اچھی خاصی تعداد اس میں ملوث رہی ہے۔ اس وجہ سے دینی مدرسوں کے کردار کے حوالے سے عوام میں کافی تحفظات اور شکوک و شبھات پائے جاتے ہیں اور حکومت بھی وقتاً فوقتاً مدرسوں پر کنٹرول اور نظر رکھنے کیلئے مختلف اقدامات کرتی رہتی ہے ۔

کیپٹل ڈویلپمنٹ اٹھارٹی ( سی ڈی اے) کے حالیہ سروے کے مطابق اسلام آباد میں مدارس کی تعداد رسمی تعلیی اداروں سے بڑھ گئی ہے ۔ مدارس کی تعداد 374 اور تعلیمی ادارے 248 ہیں ۔ مدارس میں پچیس ہزار کے قریب طلباء پڑھتے ہیں۔ ان 374 مدارس میں سے 205 ( تقریباً 54 فیصد ) رجسٹرڈ نہیں۔ غیر قانونی اور قبضے کی زمینوں پر اور غیر قانونی طریقے سے مدارس اور مساجد قائم کرنے میں اسلام آباد سر فہرست ہے۔ اسلام آباد میں زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کی تعمیر کی نہ تو باقاعدہ اجازت لی گی ہے اور نہ اس کیلئے قانونی طریقے سے زمین لی گی ہے بلکہ ایک اندازے کے مطابق پچھتر فیصد سے زیادہ غیر قانونی طریقوں سے زمینوں پر قبضہ کرکے بنائی گی ہے ۔

قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی میں سی ڈی اے کی پیش کی گئی 2012-13 کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں تین سو پانچ کے قریب مساجد اور مدرسے سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضے کے ذریعے قائم کیے گئے تھے ۔ جس سے خزانے کو ایک اعشاریہ بارہ ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا ۔ دیگر صوبوں میں بھی مدرسوں کی اچھی خاصی تعداد غیر قانونی طریقے سے قائم کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر 2016 میں صوبہ سندھ میں ہونے والے ایک سرکاری سروے کے مطابق 23 فیصدمدرسے صوبے میں غیر قانونی طور پر قائم کئے گئے تھے ۔

یہ تو کوئی عالم دین بتا سکتا ہے کہ مسجد جیسی مقدس عمارت یا مدرسہ ناجائز قبضے اورغیر قانونی طریقے سے حاصل کی گی زمین پر بنائے جاسکتے ہیں یا نہیں۔ ۔ مگر اخلاقیات اور قانون کے مطابق یہ عمل سراسر ناجائز ہے۔ اس تمام عمل کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ خطیب یا امام مسجد نے مسجد اور مدرسے کیلئے حاصل کی گئی زمین پر رہائش کیلئے گھر بھی قائم کئے ہیں ۔ جو مولوی جتنا بااثر ہے اتنی ہی اس نے مدرسے یا مسجد کے احاطے میں رہائش کیلئے زمین زیادہ رکھی ہے ۔ مسجد یا مدرسہ کی زمین کا ذاتی رہائش کیلئے استعمال غیر قانونی ہے۔

سی ڈی اے کے قوانین کے مطابق ہر سیکٹر میں آٹھ سے دس مساجد بن سکتی ہیں جبکہ عملاً تعداد اس سے زیادہ ہے ۔ مثلاً دو ہزار گیارہ میں جی سیکٹر میں 47 اور آئی سیکٹر میں 23 مدرسے تھے ۔ اس طرح اسلام آباد ماسٹر پلان کی دھجیاں ایک تو خود سی ڈی اے اور جو رہی سہی کسر باقی تھی مدارس نے اڑائی ۔ سی ڈی اے اور انتظامیہ علماء کے سامنے بے بس اور یرغمال بن چکی ہے ۔ جس کی وجہ سے مدارس اور مساجد کی تعداد بلا روک ٹوک بڑھ رہی ہے اور بہت منظم انداز میں کام ہو رہا ہے ۔ غیر قانونی طریقے سے مدارس اور مساجد قائم کرنے میں اسلام آباد سر فہرست ہے۔

وفاقی دارالخلافہ میں رسمی تعلیمی اداروں کی نسبت مدرسوں کی تعداد کا بڑھنا ایک تشویشناک اور افسوسناک بات ہے۔ عام حالات میں مدرسوں کی تعداد کا بڑھنا شاید اتنی پریشانی یا اچنبھے کی بات نہ ہوتی مگر پاکستان کی مخصوص صورتحال میں جہاں مدرسہ سے متعلق بعض منفی رحجانات کی وجہ سے ان کے بارے میں کئی تحفظات اور شکوک و شبھات پائے جاتےہیں قابل تشویش بات ہے ۔ کئی حوالوں سے کئی مدرسے مادر علمی اور خالصتاً دینی تعلیم دینے والے مثبت تعمیری اداروں سے نفرت ، تشدد اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والے ادارے بن گئے ہیں۔

پاکستان میں سکول جانے کے قابل بچوں کی تقریباً پانچ فیصد تعداد مدارس جاتے ہیں ۔ اگرچہ عوام کی اکثریت بریلوی مکتب فکر کی ہے مگر پچھتر فیصد مدارس دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جس کی ایک وجہ بیرونی امداد دینے والے عرب ممالک کو ایک خاص مسلک کو فروغ دینے میں دلچسپی تھی ۔ اس وجہ سے اس فراخدلانہ بیرونی امداد کی وجہ سے ایک خاص مسلک یا فرقے کے ہی مدرسوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ۔ مسلک اور فرقے کی بنیاد پر مدارس کے پانچ بڑے وفاق المدارس یعنی بورڈ قائم ہیں ۔

مدرسوں کے حوالے سے دو رحجانات آہم ہیں ۔ ایک مدرسے کے منتظمین کا مذہبی سیاسی اور فرقہ پرست جماعتوں اور عسکری تنظیموں سے تعلقات استوار اور مضبوط ہونا اور دوسرا مدرسوں کے طلبہ کا عسکری سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینا۔ اس عمل کو جہادی اور عسکریت پسند ریاستی پالیسیوں اور بیانیوں نے بڑھاوا دیا ۔ اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں کہ دیگر علاقوں کی طرح اسلام آباد میں بھی واقع کئی مدرسے عسکریت پسند تنظیموں کے مراکز بن گئے تھے جہاں سے دور دراز سے عسکریت پسند آتے تھے اور یہاں سے ان کو مختلف تربیتی مراکز اور محاذوں پر بھیجا جاتا تھا ۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات عیا ں ہے کہ 1980 سے پہلے مدرسوں کے طلبہ مذہبی جماعتوں کی ریزرو فورس تھی اور مذہبی جماعتیں اسے وقتاً فوقتاً چاہے ختم نبوت کا مسئلہ ہو یا نظامِ مصطفی کی تحریک وغیرہ میں بروئے کار لاتی رہی ہے۔ مگر ریاست کی سرپرستی اور ایماء پر اس ریزرو فورس یعنی مدرسوں کے طلبہ کو آہستہ آہستہ ریگولر فورس میں تبدیل کیا گیا۔ پڑوسی ممالک میں جہاد کے پس منظر میں اندرون ملک مُلا ملٹری الائنس وجود میں آگیا۔ ریاست کی سرپرستی اور فنڈز کے اندرونی اور بیرونی فنڈز کے ذرائع تک رسائی ملنے سے علماء کو معاشرے میں اپنا سیاسی اور سماجی اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع ملا ۔
سال 1980 سے ملک میں اگر ایک طرف کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر بڑھا ہے تو دوسری طرف مدرسوں ، فرقہ واریت اور مذ ہبی تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ ان تمام چیزوں کا آپس میں کوئی تعلق اور ربط ہے یا نہیں یہ تلاش کرنا عالموں کا کام ہے مگر یہ تمام چیزیں ساتھ ساتھ پھیلی ہیں۔ منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل شدہ آمدنی کا کافی حصہ عسکری سرگرمیوں کیلے استعمال ہونے کی افواہیں اور اطلاعات افغان جہاد کی دنوں سے زبان زد عام ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے بھتہ خوری ، اغوا برائے تاوان اور ڈاکوں سے ہونے والی آمدنی بھی عسکری سرگرمیوں کے لیئے استعمال کی جانے لگی ہے۔ بعض عسکریت پسند گروپوں کی ان مجرمانہ سرگرمیوں کو دیکھ کر اور ان کی دیدہ دلیری اور بے خوفی دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ریاست نے بھی انہیں بعض معاملات میں ڈھیل دے رکھی ہے۔

پاکستان میں 1980 کے بعد مدرسوں کی نوعیت ، ساخت اور کردار میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور مدرسہ سازی یعنی مدرسے بنانے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ گزشتہ تین دھائیوں میں مدرسوں کیتیزی سے بڑھتی تعداد سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ مدرسوں کی تعداد میں بے پناہ اضافے سے ان میں تعلیم کی سطح بھی گرگئی ہے۔ اس کے علاوہ مدرسہ ہو یا کوئی بھی غیرسرکاری ادارہ ،اگر کسی قانون اور ضابطے کے تحت نہ ہو تو بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے۔ مذہب سے عقیدت اور احترام اپنی جگہ مگر چاہے مذہبی عبادت گاہ ہو یا مدرسہ قانون اور ضابطہ کے تحت قائم ہونا اور چلنا چاہیے ۔ مذہب کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لینے یا قانون کی خلاف ورزی کی اجازت ہر گز نہیں دی جاسکتی ہے۔

یہ بات نہیں کہ پاکستان میں اس سلسلے میں کوئی قانون یا ضابطہ نہیں ۔ ضابطے بھی ہیں ،قانون بھی ہے مگر مسئلہ اس پر عملدرآمد اور نفاذ کا ہے ۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اداروں کے بنانے اور انتظام کا عمل بہت پیچیدہ اور مختلف نوع سے بنتا جا رہا ہے۔ یا تو نئے ضابطوں یا قوانین کی ضرورت ہے اور یا پہلے سے موجود قوانین کو دیکھنے اور اپ ٹوڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔

مدرسوں کی رجسٹریشن ، مالیاتی امور کا آڈٹ ، جدید علوم پر مشتمل یکساں نصاب تعلیم ، فرقہ وارانہ نفرت اور تشدد کی روک تھام اور مدرسوں کے انتظام اور انصرام کو ایک قاعدہ اور قانون کے تحت لانے کیلئے اصلاحات کا چرچہ عرصے سے ہو رہا ہے۔ مالیاتی امور کا آڈٹ کئی حوالوں سے ضروری ہے ۔ مدرسوں کے تین آہم مالیاتی ذرائع ہیں ۔مخیر حضرات اور عوام کے چندے ، سرکاری گرانٹ اور بیرونی ممالک سے ملنے والا فنڈ جس میں خلیجی ممالک سرفہرست ہیں ۔فنڈز چاہے جس ذریعے سے بھی ملتا ہو اس کا صحیح حساب کتاب رکھنا اور ذرائع آمدن اور خرچ بتانا ضروری ہے کیونکہ 1980 سے پہلے جب بیرون ممالک سے فنڈز اتنے وافر مقدار میں میسر نہ تھے تو مدرسوں کی نوعیت اور ساخت مختلف تھی مگر بیرون ملک اور خاص کر عرب ممالک سے بے پناہ فنڈز میسر آنے کے بعد ایک تو فرقہ واریت اور منافرت بڑھی اور دوسرا مذ ہبی تشدد ۔ جہاد پراجیکٹ میں حصہ لینے کیلئے بڑی تعداد میں عرب رضاکار بھی آئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

حکومت کی مدرسہ اصلاحات قوت ارادی کی کمی ، ناقص ریاستی پالیسیوں اور علماء کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہے۔ مدرسہ اصلاحات مسئلے کا حل اور علاج ہیں مگر بات تو ہے کہ بلی کو گھنٹی کون باندھے گا۔ مدرسے کے نصاب ، انتظام و انصرام میں شفافیت ، عسکریت پسند تنظیموں سے تعلق اور اس کے فرقہ وارانہ رحجان کے حوالے سے کافی سوالات اور مسائل موجود ہیں۔ جس کو حل کئے بغیر مدرسوں کا کردار مثبت اور تعمیری نہیں بن سکتا ۔ مدرسوں کے کردار اور حیثیت کا نئے سرے سے تعین اور اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply