سعودی عرب میں قیام کے شب و روز ۔۔ستیہ پال آنند/قسط23

ریاض پہنچنے  پر کیمپس کے اندر ہی گیسٹ ہاؤس میں عارضی طور پر رہنے کی جگہ مل گئی۔ نصیر احمد ناصر صاحب کو فون کیا تو وہ ملنے آ گئے۔ جسبیسرسرنا صاحب کو فون کیا تو وہ میاں بیوی دونوں تشریف لے آئے اور کچھ ہندوستانی پکا ہوا کھانا بھی ساتھ لے آئے۔ لیکن سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ کمرے میں فون کا جو کنکشن تھا اس سے میں امریکہ  بھی فون کر سکتا تھا،۔ اس طرح امریکہ  میں اپنی بیگم اور بیٹی سے بھی بات ہو گئی۔

ایک ماہ کے بعد میری بیوی بھی ریاض آ گئیں تو ہم نے تین کمروں پر مشتمل ایک فلیٹ شہر میں لے لیا۔ ایک سیکنڈ ہینڈ ٹیوٹا کار خریدی، فرنیچر لیا، گھر کو سجایا، کچن کی چیزیں لیں اور اس طرح زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔
سرنا صاحب کے توسط سے دیگر ہندوستانیوں سے ملاقات ہو گئی جو یا تو ڈاکٹر یا انجینئر تھے، یا اپنا کاروبار کرتے تھے اور نسبتاً متمول تھے۔ ناصرؔ صاحب کی معرفت کچھ دیگر معروف اور غیر معروف شعراء  سے بھی ملاقات ہو گئی۔ غزل گو شاعر مشتاق شادؔ تھے جو کشمیر میں میر پور سے تعلق رکھتے تھے، ایک نظم گو شاعر صلاح الدین پرویز تھے، جو انڈیا کے ایک دولتمندخاندان کے چشم و چراغ تھے اور اپنے بڑے بھائی سلام صاحب کے شروع کیے ہوئے کروڑوں ریال کے کاروبار کے اب بلا شرکت ِ غیرے مالک تھے۔

کاوش عباسی تھے، حیدر آباد دکن سے آئے ہوئے ڈاکٹر عابد معیز تھے، جو خوبصورت مزاحیہ خاکے اور مضامین لکھتے تھے۔ لاہور کے ڈاکٹر امجد پرویز تھے، جو ڈاکٹر ہونے کے علاوہ ایک لاثانی گلو کار بھی تھے اور اپنی سریلی آواز سے غزل کا جادو جگاتے تھے۔ پنجاب سے ہی شبنم مناروی صاحب تھے، جو ہمارے ہی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ان سے ہی مجھے پہلی بار یہ معلوم ہوا کہ علی محمد فرشی صاحب میرے گاؤں کوٹ سارنگ سے تعلق رکھتے ہیں، اور اس حوالے سے ہیں میں نے انہیں پہلا خط لکھا، جس میں گاؤں کی گلیوں، پرانی باقیات، درختوں وغیرہ کی تصاویر بھیجیں۔

کچھ خواتین بھی تھیں جو شاعری کا دم بھرتی تھیں۔ان میں سر فہرست شہلا نقوی تھیں، جو خود ایک wide awake، پڑھی لکھی خاتون تھیں اور علی گڑھ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بھی ایک بیدار مغز خاتون کے طور پر وہ بحث مباحثے میں بھی بغیر کسی جھجک کے حصہ لیتی تھیں، اور اچھا بولتی تھیں۔ رشید صدیقی صاحب اور ان کی بیگم ایک خاص وجہ سے بھی ہمارے بہت قریب آئے۔ ان کی بیگم جیسی مہمان نواز خاتون میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ میری بیگم اور ان کی بیگم میں گاڑھی اس لیے بھی چھنتی تھی، کہ وہاں پہنچ کر میری بیگم اور میں اپنی بیٹی ڈیزیؔ کی یاد میں کئی بار اداس ہو جاتے تھے، اس لیے جب رشید صاحب کے گھر جاتے تو پہلی بات جو میری بیگم کرتیں، وہ یہ تھی کہ ان کی پیاری پیاری بچی کو گود میں بٹھا لیتیں اور تب تک بٹھائے رکھتیں جب تک ان کے گھٹنے تھک نہ جاتے۔

حمید صاحب پہلے تو اکیلے ہی ملے، لیکن جب ان کی بیگم اور دو بچے پاکستان سے آئے تو مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ان کی بیگم یاسمین حمید اردو کی ایک اچھی شاعرہ ہیں اور اس کے علاوہ well groomed and well read ہیں۔ لاہور میں کسی انگریزی میڈیم اسکول کی پرنسپل تھیں اور خود بہت اچھی نظمیں لکھتی  تھیں۔ رسائل میں کبھی کبھار ان کو دیکھا تھا، لیکن ان کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں نے مجھ پر ایک بہت ہی مثبت اثر فراہم کیا۔ کئی بار جب غریب خانے پر تشریف لائیں تو ہم لوگ یعنی، میری بیگم، میں اور وہ گھنٹوں تک ادبی گفتگو میں محو رہے۔ اب مختلف رسائل میں ان کو دیکھتا ہوں تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ صور ت اور سیرت کا ملاپ، ہندی شاعر سمترا نندن پنت ؔنے کہا ہے، اس دنیا میں جنت النظیر ہے۔ ہندی میں انہوں نے ”ابھی لوکِک“ کہا ہے، جس کا اردو ترجمہ شاید اس عربی اصطلاح میں ہی ہو سکتا ہے۔ مجھے اب بھی کچھ کمی کا احساس ہوتا ہے کہ میں 1999ء میں لاہور گیا بھی، اور اس خاتون سے مل بھی نہیں پایا۔

ان کے علاوہ مشتاق شاد صاحب تھے، جو صاحب اصلاح استاد بھی تھے اور اپنے شاگردوں کو قوافی کی فہرست بنا کر غزل لکھنے کی تربیت دیا کرتے تھے۔ نصیر احمد نصیر نے جب مجھے بتایا کہ وہ جب میرے خط کے جواب میں مجھ سے ملنے کے لیے کالج آنے لگے تو انہوں از راہ التفات مشتاق شاد صاحب کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی، تو ان کا رویہ منافقانہ تھا۔ یعنی نصیر احمد ناصر صاحب کا ایک ”ہندو“ کو ملنے کے لیے جانا انہیں برا لگا۔ بعد میں بھی کئی بار بات چیت میں ان کے منہ سے کچھ ایسے جملے جھڑتے کہ مجھے عجیب سا لگتا، مثلاً ”مولانا مودودی نے کہا ہے کہ ہندو قوم تو غلامی کے لیے ہی پیدا ہوئی ہے۔“ اس میں جونسلی یا مذہبی تضحیک کا پہلو ہے، وہ تو نمایاں ہے ہی، لیکن ان کی ایمانداری کی بھی داد ینا پڑتی ہے۔ کیونکہ مولانا مودودی نے کہیں یہ بات نہیں کہی۔ یا ان کا مجھے ہی یہ کہنا کہ آپ کے (یعنی ہندوؤں کے) جو دیوتا برہما ہیں، اس نام کی اصلیت پر آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ لفظ ابراہیم ٌ سے بگڑ کر بنا ہے۔ یامیرے علم میں یہ کہہ کر اضافہ کرنا کہ یہ جو ہندوؤں کے تیرتھ سومنات وغیرہ ہیں یہاں وہی بُت رکھے ہوئے ہیں جو کعبہ سے نکالے گئے تھے، یعنی لات و منات…

یہ بھی پڑھیں :  کتھا چار جنموں کی۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط 22

اب میں اس اللہ کے بندے کو کیسے سمجھاتا کہ یہ تیرتھ آدی کال سے یعنی ویدک زمانے سے، یعنی دو تین ہزار برس قبل از مسیح سے اسی طرح چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ما قبل آریائی ہیں، اور کچھ آریہ قبائل کے ہندوستان میں وارد ہونے کے بعد معرض ِ وجود میں آئے۔ بہر حال میں انہیں برداشت کر لیا کرتا تھا، اسی لیے کبھی آمنے سامنے ُتو توُ مَیں مَیں نہیں ہوئی۔وہ جیسے انگریزی میں کہتے ہیں، ریاض کا ماحول کچھ اس طرح کا تھا
All in all, it was a back-water literary scene, but  definitely  better than my expectations.
کالج سے ایک بجے چھٹی ہو جاتی تھی۔ دن طویل تھے اور وقت کاٹنے  کا ایک ہی ذریعہ تھا، ٹی وی دیکھنا، یا لکھنا پڑھنا، یا شام کے وقت بیگم کو حجاب پہنا کر، سر سے پاؤں تک ڈھک کر، کسی مارکیٹ (سوقsouq.)میں جا کر سودا سلف خریدنا۔میں رات گئے تک لکھتا تھا۔ دو اڑھائی برسوں کے اس قیام کے دوران میں نے ایک سو سے کچھ زیادہ تعداد میں نظمیں لکھیں۔ کئی ایک تنقیدی مضامین قلم زد کیے، اور اپنے کالج کے کام کے سلسلے میں پندرہ آڈیو / ویڈیو بنائے، جن کی ملکیت یا کاپی رائٹ کالج کا ہونے کی وجہ سے میں احتیاط کے طور پر ایک سی ڈی بھی واپس امریکہ  نہیں لایا کہ مبادا کہیں اور استعمال کر بیٹھوں اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔خدا جانے، وہ اب استعمال میں لائی بھی جاتی ہیں کہ دیگر تعلیمی اور تدریسی سافٹ ویر کی طرح جو مجھ سے پہلے اساتذہ تیار کر گئے تھے، کمروں میں بند پڑی ہیں۔

اتنا بڑا شہر ہونے کے باوجود کوئی میونسپل یا کارپوریشن یا حکومت کے محکمہء  تعلیم کی طرف سے کوئی پبلک لائبریری نہیں تھی۔ حیرت ہوتی تھی کہ سارا دن دفتروں میں سُپر وائزروں کی کرسیوں پر بیٹھ کر گپ ہانکنے یا سگرٹ پینے کے علاوہ عرب لوگ کیا کرتے ہیں؟ ہم انگریزی کے پروفیسروں کے لیے ان کا لہجہ انکسار اور ادب سے معمور تھا، ”ال دکتور“ کہہ کر خطاب کرتے تھے لیکن سڑک پر، مارکیٹ میں غیر عرب لوگوں کو حقارت کی نگہ سے دیکھتے تھے۔ چونکہ کبھی کسی عرب دوست کے اندرون ِ خانہ جانے کا موقع نہیں ملا اس لیے یہ فرض ہی کر سکتا ہوں کہ ان کے گھر میں کوئی کتابیں نہیں تھیں۔

یہ بھی ایک معجزہ تھا کہ کچھ امریکی اسٹوروں میں انگریزی کا pulp fiction رکھا ہوا تھا، لیکن کوئی دکان ایسی نہیں تھی، جسے کتابوں کی دکان کہہ سکیں۔ پاکستان اور ہندوستان سے اردو جاننے والے ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں کی تعداد میں سعودی عرب میں رہتے ہیں، لیکن اردو صرف نجی شعر خوانی (اسے غزل خوانی کہیں تو صحیح ہو گا!) تک ہی محدود تھی۔اس وقت تک انٹر نیٹ ابھی ایجاد ہی نہیں ہوا تھا، اس لیے اخبارات دیکھنے کو دل ترس جاتا تھا۔ دونوں ملکوں سے پروازیں تو باقاعدگی سے ریاض تک آتی تھیں، لیکن
خد ا جانے کیوں کبھی اخبارات کے بنڈل آتے ہوئے نہیں دیکھے۔ انگریزی میں صرف ایک ”عرب نیوز“، جو کالج جاتے ہی میں اپنے میز پر پڑا دیکھتا تھا، اور بس۔۔۔

میں دنیا بھر میں گھوما ہوں،افریقہ کے پسماندہ ملکوں میں بھی گیا ہوں لیکن ڈاک کا نظام جس قدر ناقص میں نے سعودی عرب میں دیکھا، وہ کہیں اور نہیں دیکھ سکا۔ دنیا کا ایک ملک جس میں ڈاک تقسیم نہیں کی جاتی۔ ہر شخص کو ایک پوسٹ آفس کے اندر ایک پوسٹ باکس کرائے پر لینا پڑتا تھا، جس میں اس کی ڈاک رکھ دی جاتی تھی، چونکہ تارکین وطن کی آبادی کے لحاظ سے پوسٹ بکسوں کی تعداد شاید پانچ فی صد بھی نہیں تھی، اس لیے ان کی نا یابی کی وجہ سے بہت سے لوگ دوستوں کے (کئی برسوں سے پرانے ناموں پر لیے ہوئے) پوسٹ بکسوں پر بھروسہ کرتے تھے۔ مجھے بھی بہت تکلیف ہوئی۔ کالج کے پتے پر ذاتی ڈاک منگوانا منع تھا، اس لیے میں نے بھی ایک دوست کے پوسٹ بکس پر بھروسہ کیا، جس پر میرے جیسے درجنوں دوسرے لوگ بھی انحصار رکھتے تھے اور مجھے بھی شاید ہر چار پانچ خطوں میں سے ایک یا دو مل ہی جایا کرتے تھے۔رسالے تو ہمیشہ وہ احباب سرقہ کر لیا کرتے تھے جو پوسٹ بکس کی چابی لے کر اس کی ایک نقل بنوا لیتے تھے، اور جب اپنے خطوط لینے جاتے تھے، تو دوسرے لوگوں کے نام آئے ہوئے اردو رسائل کو بھی اسی زمرے میں سمجھ کر اُڑا لیا کرتے تھے۔

وقت کی تنگی کا شکوہ ہم سبھی کرتے ہیں، لیکن وقت کے وافر مقدار میں ہونے اور اسے گذارنے کے لیے شغل تلاش کرنے کی شکایت ہم کبھی نہیں کرتے۔ میرے پاس اپنے تخلیقی کام کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ کتابیں جو میں امریکا سے لے کر گیا تھا، وہی تھیں، لائبریری کوئی سرے سے تھی ہی نہیں، اس لیے دیگر دوستوں کی طرح ہی دیگر دوستوں سے میں نے کتابیں مستعار لینا شروع کر دیا۔ سامان اکٹھا کرنے کی تو کوئی تُک تھی ہی نہیں، اس لیے یہ کتابیں باقاعدگی سے واپس ہو جاتیں اور کچھ اور کتابیں مانگ کر لے آتا۔ اپنے مرحوم والد صاحب سے وکالت کے پیشے کی ایک اچھی عادت سیکھی تھی، جب وہ کسی دوسرے شہر یعنی لاہور، دلی، مدراس وغیرہ میں بھی کسی مقدمے کے فیصلے کی روداد اخبار میں پڑھتے تو اس کا تراشہ اپنی فائل میں رکھ لیتے۔

میں کتابوں میں سے تراشے تو نہیں کاٹ سکتا تھا لیکن کچھ اقتباسات جو مجھے پسند آتے تھے، میں اپنی نوٹ بک میں اپنے قلم سے لکھ لیاکرتا تھا۔ یہ نوٹ بک آج تک میرے پاس موجود ہے اور اس میں انگریزی اور اردو سے نقل کیے ہوئے ایک سو سے کچھ اوپر اقتباسات ہیں۔ کچھ پر مصنفین کے نام نہیں ہیں۔ میں اب سعودی عرب سے پائی ہوئی نعمتوں کا ذکر لکھنے بیٹھا ہوں، تو مجھے یہ نوٹ بک یاد آ گئی ہے۔ میں کچھ ایک اچھے مندرجات نقل کررہا ہوں ۔ ان کی صحت اور ان کے لکھنے والوں کے ناموں کی صحت ۔۔۔ دونوں مشکوک ہیں، (کچھ ایک تو شاید میرے اپنے ہی منتشر خیالات ہیں! مثال کے طور پر نمبر ایک پر دیا گیا اقتباس شاید خود نوشت ہے، لیکن میں اس کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا اور اب اس کا کوئی علاج بھی میرے پاس نہیں ہے۔)


ایسا اکثر دیکھا گیا ہے کہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ایک باحس شاعر کے کلام میں خاموشی سے کچھ ایسی تبدیلیاں در آتی ہیں جن کا اسے خود بھی احساس نہیں ہوتا۔”پختگی“ سے مراد اگر اسلوبیاتی سطح پر مرصع ساز کی سی نفاست اور کاریگری ہے اور اگر یہ قدرت جذبات اور مشاہدات کی تازہ کاری کی قیمت پر حاصل کی گئی ہے تو ایسی پختگی سے وہ نوساختہ اچھوتا پن بے حد اچھا ہے جسے انگریزی نقّادوں نے، شاعروں کے ابتدائی کلام کے تناظر میں juvenalia کا نام دیا ہے اور جو ان کی تخلیقی قوت کی کارکردگی کی پہلی کچی بلوغت کا شعری اظہار ہے۔ ہاں، اگر بدلتے ہوئے شعری سیناریو کے ساتھ ساتھ موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطحوں پر یہ تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں اور juvenalia کی اونچی نیچی چٹانیں عہد شباب کی اٹھان میں ڈھل کر ایک بلند و بالا پہاڑ سی نظر آنے لگی ہیں، تو یقینا یہ ایک نیک فال ہے۔


ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے ایک اقتباس۔ ”ادب میں انحراف بھی حقیقتاًادبی روایت میں کسی مقام کسی وضع یا کسی تصور یا کسی دلالت سے انحراف ہوتا ہے، اور چونکہ یہ روایت کے اندر واقع کسی مقام ہوتا ہے، اس کی معنویت یا نئی متنیت (یا نئی شعریت یا نئی جمالیات) بھی اس کے رشتے کے ربط و تضاد سے قائم ہوتی ہے جو نئے اور پرانے ان دو مقامات کے درمیان مرتب ہوتا ہے۔“ (ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات۔(صفحہ 482)

کبھی نارنگ صاحب ملے تو پوچھوں گا کہ کیایہ بات اگر اس طرح کہی جائے تو زیادہ صحیح نہیں ہو گی کہ ہماری فکر و نظر میں انحراف Semiotic کے جبرسے متصادم ہونے کے عمل سے پیدا ہوتاہے اور اس کا زبان کے لینگ سے متعلق ہونا ہمیشہ لازمی نہیں، اور اگر یہ صحیح ہے تو روایت سے انحرا ف سو فیصد کبھی ممکن نہیں۔ میں نے اپنی نظمیں شعریات اور قواعد سے بغاوت کے ایک طے شدہ لائحہ عمل کے تحت لکھی ہیں، اس لیے یہ بغاوت یا انحراف خود ارادی تھا اور کسی لاشعوری عمل یا غیر شعوری القاء کا حصہ نہیں تھا۔روایت سے انحراف زیادہ تر موضوعات کے انتخاب میں یا اسلوب کی رنگارنگ پچی کاری میں نظر آنے لگتا ہے۔ اسلوب میں تو خصوصی طور پر اس کا کام نمایاں نظر آتا ہے کہ یہ لینگ میں ایک واضح تبدیلی لانے کا محرک ہو سکتا ہے۔ نسبتاً موضوعات کے انتخاب کی سطح پر اس کی کار کردگی کا دائرہ محدود ہے۔ آخر میں وہی بات دہرا رہا ہوں کہ انحراف اور بغاوت کے ارادے سے عمل میں لائی گئی روایت شکنی ارادی ہوتی ہے، اس کو روکنایا ٹوکنا ایک ایسا عمل ہے، جس سے الٹا ہی ہمارے سیمایوٹیکس کا جبر اس کا معاون بن جاتا ہے۔


ایک بات اور جو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے وضاحت طلب ہے، اپنی ڈائری میں نوٹ کر رہا ہوں کہ کبھی ملے تو پوچھوں گا۔ جو لوگ جدیدیت کے کیمپوں سے فرار ہو کر، ان کے (یعنی نارنگ صاحب کے) خیالات کے زیر اثر ما بعد جدیدیت کے خیموں میں اعلانیہ وارد ہوئے کیاوہ جدیدیت کی ژولیدگی، غیر واضح اور جان بوجھ کر لائی گئی تجریدیت اور علامات کے استعمال کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر رہے ہیں،اب کسی قسم کی شعری یا نثری تخلیقات پرڈیوس کر رہے ہیں؟

کیا شاعری مختلف ”اقسام“ میں تقسیم کی جا سکتی ہے؟ کیا اس کی درجہ بندی کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کی شاعری اعلی ہے اور اس قسم کی اسفل ہے؟ تسلیم کہ ہمارے ہاں زمانہء  قدیم سے کچھ ناموں کے چوکھٹے لکھ لیے گئے تھے اور ہم بغیر کسی جھجک کے ان کو (اعلےٰ اور اسفل میں تمیز کیے بغیر) آویزاں کر کے یہ فرض کر لیا کرتے تھے کہ ہم نے ان کی درجہ بندی کر دی ہے۔ یہ رزمیہ شاعری ہے۔ یہ بزمیہ شاعری ہے، یہ شاعری معلمانہ یا ناصحانہ یا مدرسانہ ہے۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہر قسم کی شعری تخلیق جو versificationکے زمرے میں فِٹ آ جائے، شاعری ہے۔ گویایہ تمیز بھی ضروری نہیں ہے کہ قافیہ پیمائی کے عمل کے دوران کس شاعری میں signified کا خاکہ پہلے سے ہی تیار کر لیا جاتا ہے اور وہ کون سی شاعری ہے جس میں signifier کا ظہور epiphany کی طرحLet There by Light یا ”کُن“ کی آ واز کے ساتھ ایک پکے ہوئے آم کی طرح ٹپک پڑتا ہے۔ اور یہ سب کچھ لکھنے کے بعد اگر میں خود سے یہ سوال کروں کہ صنف غزل کے زمرے میں آنے والی شاعری کس قبیلے سے تعلق رکھتی ہے، تو جواب کیا ہوگا؟ اور اگر جواب پہلے سے طے شدہ signified کی آؤٹ لاین کا ہے، تو اسے اسفل شاعری کہنے میں کیا قباحت ہے؟

Man is themeasure of all things. کس نے کہا تھا یہ؟یہ ضرب المثل Petrarch کے ایک جملے کا حصہ ہے لیکن آج کے ہیومنزم کا اوڑھنا اور بچھوناہے۔ سولہویں صدی میں سر تھامس مور Sir Thomas More(1478-1535) اور مانٹین ؔMontaigne (1533-92)نے اس اصطلاح کو مذہب کے حوالے سے دیکھا،لیکن خدا کو انسان کی ذات سے الگ کر کے اسے انسان کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کا عمل جاری رہا۔ اپنے اپنے علمی میدان ِ اختصاص میں Hobbes, اور Lock دونوں نے اس تصور کو وسعت دی۔ تب انیسویں صدی کے آخر میں ایک وقت وہ بھی آیا جب ”انتہا پسند الحاد“ اور ہیومنزم کو ایک دوسرے کے مترادف تصور کیا گیا۔اس صدی میں انسان کو ایک ’خود مکتفی‘ Entity that is Totality also (وحدت جو کُل کو بھی اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے)تسلیم کر کے اس بات پر اصرار کیا گیا انسان صرف خود مکتفی، اشرف المخلوقات لاانسان ال ما سعا ہی نہیں ہے وہ کائنات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ جب 1933ء میں امریکہ  میں ڈی ہیومنسٹ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی۔تو اس کے منشور کی پہلی سطر یہ تھی جو آج تک قائم ہے۔
Humanism the faith in supreme value and the self-respectability of Human Personality.

Advertisements
julia rana solicitors

یعنی انسانی حقوق، مساوات، رواداری۔۔۔اور ان اصولوں کے تحت انسان کے مسلسل ارتقا کے لیے انسان خود کفیل ہے اور اسے کسی آسمانی قوت کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ساختیاتی مفکر جیکس لاکاں ؔکا قول ہے کہ ایک بچہ جب پہلی بار آئینے میں خود کو دیکھتا ہے تو اس کے ننھے سے دماغ میں اپنا عکس ایک ماورائی ہیولیٰ کے علاوہ او ر کچھ نہیں ہے۔اسے لاکاں ؔمیراۃ ؔ”ا ٹیج“ کہتا ہے۔ لاکاں ؔ کا خیال ہے کہ یہ بچے کی عمر کے سال بہ سال بڑھنے کی کہانی ہے کہ نشانیات کی گواہی سے اور لسّانی نظام کے ذرائع سے بچہ دنیا سے واقف ہوتا چلا جاتا ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply