مارک ابراہام ، پیر صاحب اور اسلام کی تبلیغ۔۔افراز اختر

تصویر کا ایک رخ !
مارک ابراہام برطانیہ آرمی میں چیف آف سٹاف سپورٹ کمانڈ ہیں ۔ بنفس نفیس عراق ، افغانستان اور کویت کی جنگوں میں حصہ بھی لے چکے ہیں ۔
ان کا اپنے فرائض کو سر انجام دیتے وقت مختلف مذاہب کے لوگوں سے ملنا جلنا لگا رہتا ہے اس وجہ سے ان سے سیکھنے کو بہت کچھ مل سکتا ہے ۔ ایک ملاقات ہوئی جن میں ان سے تھوڑی بہت گفتگو ہوئی انہوں نے اپنا تجربہ بتایا کہ جب وہ مختلف مذاہب کے لوگوں سے ملتے ہیں تو ہر ایک کا رویہ مختلف ہوتا ہے ان کے مطابق ان کو انڈیا میں مندر اور گوردوارہ میں بلوایا گیا اور بہت اچھے طریقے سے استقبال کیا گیا۔
جب وہ کسی مندر یا گردوارے  میں جاتے ہیں تو ان کا بہت اچھے سے استقبال کیا جاتا ہے یا کسی اور مذہب کی عبادت گاہ میں بھی یہی ہوتا ہے ۔ان کی خوشی ان کے چہروں سے اور ان کے بلانے اور ملنے کے طریقہ کار سے محسوس کی جا سکتی ہے ۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ مسلمانوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
تو کہنے لگے کہ پہلی بات ہے مسلمان بہت کم دعوت دیتے ہیں اگر کبھی کسی مسجد میں ان کو دعوت دینی  پڑ ہی جائے تو ان کی ناگواری ان کے چہرے سے محسوس کی جا سکتی ہے ۔
کہتے ہیں میری حسرت ہی ہے کہ جیسے انڈیا یا اور ممالک میں مجھے بلوایا جاتا ہے ایسے  ہی  پاکستان میں بھی مجھے دعوت کوئی مذہبی جگہ دیکھنے کو ملے یا دعوت دی جائے ۔

تصویر کا دوسرا رخ !

ایک مسجد اور مدرسہ ٹرسٹ میں جانے کا اتفاق ہوا ،وہ غیر مسلم حضرات کو اسلام کے بارے میں بتانا چاہ رہے تھے میں اور میرے دوست بھی تھے جن کو دعوت دی گئی کہ کوئی مشورہ دیں کہ کیسے دعوت دی جائے یا طریقہ کار میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے ۔میں نے کہا کہ آپ کا طریقہ کار کیا ہے ، ان کو بلا کر کیسے اسلام کے بارے میں بتائیں  گے ؟

اور کوئی کیوں اسلام سیکھنا چاہے گا ؟
یا اسلام کے بارے میں اس کا شوق کیسے بیدار ہو گا؟
پیر صاحب نے روایتی طریقے سے بتایا کہ فلاں اس کا جاننے والا ہے وہ اس کو لے آئے گا اور ایسے ہی دو چار دوستوں نے وعدہ کیا وہ بندوں کو اکٹھا کر لیں گے اور ہم ان کو کچھ ویڈیوز دکھائیں گے اسلام کی ،تاریخ کی وغیرہ وغیرہ
میرا سوال پھر بھی اپنی جگہ موجود تھا
کہنے لگے آپ بتائیں۔۔۔۔
میں نے کہا اگر مجھے کوئی عیسائی آ کر دعوت دے یا ہندو یا کوئی اور مذہب کابندہ تو میں نہیں جاؤں گا ہاں اگر وہ ساتھ کچھ ایسی چیز بتائے جو میرے لیے interesting ہو ،اگر کوئی ایسی چیز ہو پھر تو میں ضرور جاؤں گا کہ دیکھوں تو سہی کیا ہے وہاں ؟ ۔
میں نے کہا اگر آپ نے ان کو دعوت دینی ہے تو ان کو اسلام اور برطانوی اقدار میں جو مماثلت ہے وہ بتائیں ، عیسائیت اور اسلام میں کیا مشترک چیزیں ہیں وہ بتائیں،
پھر ان کا شوق ہو گا اور جاننے کا تو ہی وہ اسلام کے بارے میں سیکھنے کا سوچیں گے ۔
پیر صاحب نے جواب دیا کہ ہم ان کو مسجد میں اگر لائیں تو ہمارے نمازی ہمارے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیں گے ۔ اور مسجد ناپاک ہو جائے گی ، ہم ان کو مسجد میں نہیں لا سکتے ۔ہم نے ان کے لئے مسجد کے باہر جگہ مختص کی ہوئی ہے جہاں سب کچھ بتایا جائے گا
میں نے ان کو کہا ، جب آپ ان کو مسجد لا نہیں سکتے تو اسلام ان کو کیسے سمجھائیں گے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

قارئین کرام!،
میں فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں ہمیں اسلام کو پھیلانا ہے تو کیسے پھیلائیں ؟؟
کفار سے تعلق رکھنا ہے تو کیسے   رکھا جائے ؟؟
ایک وقت وہ تھا جب مسجد پارلیمنٹ کا کردار ادا کرتی تھی، کافر کو بھی پیش ہونا پڑتا تھا تو بھی فرق نہیں پڑتا تھا اب بہت سی مساجد میں عورتوں ، بچوں کا داخلہ ممنو ع تھا ہی۔۔اب بعض مساجد سنی ، وہابی اور شیعہ عقائد پر بھی داخلے کی اجازت نہیں دیتے ۔
اسلام کو  ہم نے اتنا محدود  کردیا  ہے کہ   اب اگر کوئی دوسرے مسلک کاانسان دنیا سے چلا جائے تو افسوس کے ساتھ کہا جاتاہے کہ کاش ہدایت پا جاتا ۔۔
غیر مسلم کو مسجد کے باہر بھی ملا جائے تو ناگواری سے ملا جاتا ہے آخر ایسا رویہ کہاں سے آ گیا ؟
ایک لاحاصل بحث ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں ،
کوئی انسان دنیا سے چلا جائے تو اس کے جنتی اور جہنمی ہونے کی بحث شروع ہو جاتی ہے ۔
ہم جنت اور جہنم کا فیصلہ اللہ پاک پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے ؟
اسلام کو پھیلانے کے لئے ہمیں خود اسلام کو سیکھنا چاہیے  اور اس کے لئے آپﷺ  کی زندگی سے بہتر کچھ بھی نہیں ۔
علماء سے بھی گزارش ہے اجتہاد کا راستہ کھلا ہے لیکن باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں دیں جو خود اسلام کو سمجھتے ہوں، نیم ملاں حضرات نے اسلام کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا ہے ۔ اسلام کو سب سے پہلے ان کے چنگل سے آزاد کروایا جائے ۔ اسلام کو قصے کہانیوں میں نہ ڈھالیں یہ ایک بہترین مذہب ہے بس اس کے رہبر اچھے ہونے چاہئیں ۔

Facebook Comments

افراز اخترایڈوکیٹ
وکیل ، کالم نگار ، سوشل ایکٹویسٹ، گلوبل پیس ایمبیسڈر ،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply