شہر کراچی سے ہماری شعوری یادوں کا سفر سن ساٹھ کی دہائی سے شروع ہوتا ہے۔یہ سفر تاحال جاری ہے۔ سوچا ہے کہ کراچی کے بارے میں جو پڑھا،دیکھا اور سنا ان کو یک جا کرکے آپ کی خدمت میں خالصتاً نجی زاویے سے پیش کریں۔اسے کوئی تاریخی دستاویز نہ سمجھیں۔یہ البتہ ضرور ممکن ہے کہ آپ اگر کراچی کی تاریخ کے سنجیدہ طالب علم ہیں تو اس سے آپ کو مزید اور بامعنی تحقیق میں معاونت ہوجائے گی۔کراچی کے بارے میں لکھنے کا خیال ہمیں سنگاپور میں آیا۔یہ سب جاننا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ کراچی کے حوالے سے ہمارا بیانیہ تشنہ کام نہ لگے۔خیال رہے کہ کراچی کے کالم ان تین اقساط کے الاپ نما تعارفی اقساط کے بعد یہاں پے در پے شائع ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری میزبان کمپنی نے ہم افسرانِ بے نشان و بے وقعت کی شہر ڈربن میں آٗ ؤ بھگت کے لیے اپنے صدر دفتر میں خاصا رنگین اور دل برمانے والا انتظام کیا تھا۔ اس پروگرام میں مقامی باشندوں کے ویلکم ڈانس اور دونوں ممالک کی پرچم کشائی اور ترانہ نوازی کا ا ہتمام شامل تھا۔کمپنی اس کوشش میں تھی کہ پاکستان کی زرعی ادویات کی منڈی میں ڈی جی صاحب انہیں دھماکے دار انٹری دلوادیں۔ڈی جی صاحب محکمہء تحفظ نباتات سے انہیں بہت امیدیں تھیں۔ شعیب اختر والا باؤنسر گولی بن کر ان کے کان کے پاس سے اس وقت گزرا اور انہیں حواس باختہ کردیا جب ڈی جی کا بنا بنایاپروگرام ایک شہ ضرب (Master Stroke) سے آناً فاناً تلپٹ ہوا اوران کی جگہ نئے لوگ نامزد ہوکر ان کے ہیڈکوارٹرز پہنچے ۔
انہیں یہ آدم بو آگئی تھی کہ ہو نہ ہو ان تین افسروں میں کوئی بیت اللہ محسود موجود ہے۔ ان مہمانوں کو راضی رکھناہوگا۔جس طرح ایک زمانے میں شہری سندھ کی مضبوط ترین پارٹی اپنے قائد کے ہر غدار کو موت کا حقدار ْقرار دے کرنشانہ عبرت بناتی تھی تو اس دوا ساز فیکٹری کا بھی ہماری آمد تک وہ عالم ہوچلا تھا کہ ا ن دنوں اسی بے آسرا اور بے اماں پارٹی کی طرح اور دونوں کو آپ فلم ڈر والی جوہی چاولہ سمجھ لیں کہ لہر الہرا کر گارہی یہ کہتی ہوئی کہ ٹوٹ گئی ٹوٹ کے میں چور ہوگئی،عامر بھائی آپ کی جھوٹی جد (ضد) سے مجبور ہوگئی ۔ کمپنی کے movers and shakers اچھی طرح جان گئے تھے کہ طوائف، پنڈت،اور افسر راضی ہوجائیں تو تن، من اور دھن کی رام لیلا خوب راس رچاتی ہے۔
یہ تاجر لوگ بہت بے رحم اور بے اصول ہوتے ہیں۔ دنیا کی بڑی کارپوریشنوں سے زیادہ کٹھور،بے اصولی، حریص اور اخلاقی طور پر دیوالیہ کوئی اور انسانی ادارہ نہیں۔ (اس بات کو تاریخی طور پر سمجھنے کے لیے آپ کو دنیا کی پہلی بین الاقوامی تجارتی کارپوریشن ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرتوت یاد کرنا ہوں گے۔) ۔ آپ اگر پرتشدد نفسیاتی مجرموں کو جیلوں میں تلاش کرتے ہیں تو اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔دنیا کے سب سے زیادہ PSYCHOPATH آپ کو بینکوں ،اہم تجارتی اداروں کے سربراہان سیاست دانوں اور سول اور عسکری عہدوں پر متمکن دکھائی دیتے ہیں۔اپنے مقصد کے حصول کا جنون اور اس حصول میں دوسروں کو اہمیت نہ دینا اور ساری دنیا کو بظاہر نارمل نظر آنا ہی سائکو پیتھ ہونے کی کامیابی کی سب سے بڑی علامت ہے۔
فلم رئیس میں تو بہت بعد میں یہ مکالمہ سننے کو ملا ورنہ ہر میمن اور گجراتی بچے کو پیدا ہوتے ہی یہ اذان کے بعد سنایا جاتا ہے کہ”پھیسل(فیصل)میرے ڈیکرے(بیٹے) یاد رکھ جو دھندے کے لیے صحیح وہ صحیح،جو دھندے کے لیے گلط(غلط) وہ گلط۔اس زیادہ کی پنچات(فکر) کرنے کا نئیں گدھیڑی کا (گدھی کا بچہ) یہ بھی یاد رکھ کر کوئی دھندا چھوٹانہیں ہوتااور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔اس لئے میمن اور گجراتی لوگ اپنے نام کے پیچھے باردانے والے(بوری والا)مانڈوی والا(مونگ پھلی والا) باٹلی والا(بوتل والا) اور تیلی لکھتے ہوئے نہیں شرماتے ۔آخر کار میکڈونلڈ (بند کباب) کے ایف سی(انگریزی چکن تکہ)اور ہینز (چٹنیاں) بیچ کر چھوٹے چھوٹے دھندے سے بین الاوقوامی کمپنیاں بن گئیں۔
رسومات سے فارغ ہوکر کمپنی کے اہم ارکان سے تعارف ہوا۔ پھر لنچ اور پھر ان کے ڈی ایم ڈی مصطفے میاں ہمیں اپنے کمرے میں لے گئے۔ان کی سیکرٹری کا نام نمالی تھا۔ ہمیں بعد میں علم ہوا کہ نمالی تامل زبان میں مور کو کہتے ہیں۔نمالی کو دیکھ کرایسا لگتا تھا کہ دفتر کے باہر تامل ناڈو کی مشہور اداکارہ. Silk Smitha بیٹھی ہے۔ جی ہاں وہی Raunchy Roles کرنے والی اداکارہ جس نے اچانک خودکشی کی اور جسے ودیا بالن نے فلم ڈرٹی پکچر میں امر کردیا ہے۔ویسی ہی دراز قامت۔ہراساں ہرنی جیسی بے پناہ سیاہ آنکھیں، کشادہ پیشانی،بھرے ہونٹ جن پر دبیز سی ہوائین کافی رنگت کی لپ اسٹک کی آئینہ تمثال تہہ،ماتھے پر سیندور اور گلے میں منگل سوتر ۔
مصطفے میاں کے والدین کا تعلق سورت۔گجرات سے تھا۔انہیں ہمارے منہ سے گجراتی سن کر لگا کہ وہ بیت اللہ محسود ہم ہی ہیں۔ہمیں آہستہ سے کہنے لگے یہ نمالی سری لنکا کے مشہور دہشت گرد تامل ایلام کے دوسرے بڑے اہم راہ نما Shanmugalingam Shivashankar جسے سب پوٹو امان کے نام سے جانتے ہیں اس کی فرسٹ کزن ہے۔ خود بھی سالی پارٹ ٹائم فی میل ڈون ہے۔ یہاں جنوبی افریقہ میں تامل بہت ہیں۔وہ اس کے ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ان لوگ کا ادھر بہت ہولڈ ہے۔نیویارک کی مافیا جیسا۔ہمارے ڈاکٹر ارتھر کی شادی کو سالی نے بھنگار (کچرا) کردیا ہے۔۔حرامی اس کی وجہ سے دو سال سے گھر نہیں گیا۔اس کا پئینگ گیسٹ بنے لا(بناہوا)ہے۔
ہم نے پوچھا یہ شاد ی شدہ نہیں؟ تو مصطفے جواہر پارہ نکال کر لائے کہ کچھ میاں ڈرایؤنگ لائسنس جیسے ہوتے ہیں۔ کھیسے (جیب) میں رکھیلے (رکھے) ہوں تو اس کی وجہ سے چالان نہیں ہوتا۔
ہمیں رجھانے کے لیے کہنے لگے باقی دونوں افسر تو صرف کمپنی کے مہمان میں ہیں۔تم گجرات کے ہو اس لیے کمپنی کے بھی اور میرے تو خاص طور پر مہمان ہو، انگریزی میں کہنے لگے اب کے بعد جو بھی تمہاری خواہش ہوگی وہ میرے لیے حکم کا درجہ رکھے گی۔یہ سوچ کر کہ وہ ہم سے اس تنہائی کا فائدہ کشید کرنے کی کوشش کریں۔ہم نے بھی پنجابی کے شاعر کی مانند شتابی دکھائی جس طرح اس نے بے دھڑک اپنی محبوبہ کے لب لعلیں دیکھتے ہی گجرانوالے کے پہلوانوں کی طرح بوُ بُو بکرا بلاکر کہا تھا
سُرخیُ اس دے بلاں دی
ایسی تیسی پھلاں دی
ہم نے پہلی فرمائش یہ کی کہ جمعہ کی صبح کی پہلی فلائٹ پر ہمیں کیپ ٹاؤن بھیج دو۔ وہاں سوپینگ کلفٹن بیچ پر تھع بنگل نامی ریستوراں میں ہماری منتظر ہوگی۔سفر کا اختتام تمام ساتھی دارالخلافے جوہانسبرگ میں کریں گے۔ لہذا ہم وہیں پہنچ جائیں گے۔ تین دن کے لیے ہم آف دی ریڈار ہوں گے ۔وہ کیوں؟ہم نے بتایا کہ یوں ہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے، جنوبی افریقہ کے سربراہ نیلسن منڈیلا کے ہاں اپنے بعد کی قیادت کا بحران ہے۔ممکن ہے ہم بھی کسی Treetops hotel میں سو پینگ کے ساتھ سفاری کے دوران بیٹھے ہوں اور ہمیں بتایا جائے کہ نیلسن منڈیلا نے آپ کو اپنا نائب مقرر کردیا ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ آج سے66برس پہلے کا قصہ ہے کہ6 فروری1952 کو Sagana کینیا میں ہنی مون کے دوران درخت پر بنے ہوٹل کے کمرے سے اتار کر شہزادی ایلزبیتھ کو بتایا گیا کہ ان کے والد کا دیہانت (ہندی میں انتقال) اور وہ ملکہ برطانیہ مقرر کردی گئی ہیں۔یہ اطلاع انہیں ان کے صفدر بھٹی یعنی پرنس فلپ نے دی تھی۔حضرت خود بیٹھے اس وقت بہتے چشمے میں مچھلیاں پکڑتے تھے۔ہمارے دوست افضل رضوی کہتے تھے کہ ایک انگریز ہے ہنی مون پر بھی تالاب میں مچھلیاں پکٹرتے ہیں اور ایک ہم پاکستانی ہیں کہ ان سے لیٹی ہوئی بیوی نہیں پکٹری جاتی۔
مصطفے میاں نے نمالی کو اندر بلایا اور تفصیلات فراہم کردیں، اضافہ تھا تو اتنا کہ whole nine yardon you(یعنی ہر ممکن سہولت کا ذمہ اس کا ہوگا)۔ .
پندرہ منٹ بعد نمالی نے بتایا کہ جمعہ کی صبح سوا دو گھنٹے کی فلائیٹ ہے،ہمیں سوا گیارہ بجے کیپ ٹاؤن کے ہوائی اڈے پر اتاردے گی وہاں سے ہمارے تمام معاملات اس کے لوگ سنبھال لیں گے۔ہم نے حیرت کا اظہار کیا تو لہرا کر کہنے لگی ہمارے لوگ Hospitality Industry میں اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔مصطفے میاں نے ہماری اگلی فرمائش کو پورا کرنے کے لیے نمالی کو ابھی کمرے ہی میں روک کر رکھا تھا دونوں نے جب یہ فرمائش سنی توسکتے میں آگئے ۔ہم نے اداکارہ ایشوریا رائے اور شیخ احمد دیدات سے ملنے کی فرمائش کی تھی۔
ساڑھی کا پلو ایک محتاط بے دھیانی سے سینے سے گراکر نمالی ہمیں کچھ کہے بغیر بے یقینی سے دیکھتی رہی۔اس سکوت کومصطفے میاں نے یہ کہہ کر توڑا کہ دیدات صاحب کا معاملہ ان پر چھوڑ دیں۔دونوں گھرانوں کی خواتین کے آپس میں اچھے سمبندھ (مراسم) ہیں۔نمالی لیٹ میں گئیو اٹ اے ٹرائی کہہ کر کمرے سے چلی گئی۔مصطفے میاں نے گھر فون کردیا۔ایشوریا کے ہماری آمد سے دو دن قبل ممبئی واپس لوٹ جانے کی اطلاع نمالی نے پہلے دی۔نمالی اپنے مشن میں ناکامی پر افسردہ تھی مگر ہم نے اسے ایک ہسپانوی کانٹو سنایا کہ ع
وہ ایک سایہ
مجھے دور سے اتنا نظر آیا
اسے میں کس طرح کھودوں
جسے میں نے نہیں پایا۔
ہمارے ایک ساتھی تو فیکٹری کے دورے پر چلے گئے تھے ان کی لیبارٹری وغیرہ دیکھنے،ڈپٹی سیکرٹری صاحب کے ایک عزیز ایسٹ لندن میں رہتے تھے۔وہ ان کا بہانہ بنا کر کمپنی کار میں افسر مہمانداری کے ساتھ سٹک گئے ہیں۔ کمپنی کا ایک اہم دفتر وہاں بھی تھا۔ہم جب خود اگلے دن وہاں پہنچے تو یسٹ لندن کا ساحل اور افسر مہمانداری کو دیکھ کر گمان ہوا کہ یہ شہر تو رشتے داروں سے دور پناہ لینے کے لیے بنا ہے نہ کہ ان میں جاکر بیٹھنے کے لیے۔
مصطفے میاں کا بیگم کا فون آگیا کہ دیدات صاحب نے ہمیں رات کھانے پر بلایا ہے اور وہ اس وقتIslamic Propagation Centre International کے دفتر پر موجود ہیں۔ہم نے مصطفے میاں نے یہ سنتے ہی ہمیں کار میں ڈالا اور سیدھے سینٹر پہنچ گئے۔دیدات صاحب کا علیک سلیک کے بعد اور ہمارے خاندان کا تعارف سن کر بالخصوص یہ جان کر کہ ان کے والد حسین احمد دیدات کے دوست حبیب پٹیل ہمارے نانا ہیں بہت خوش ہوئے۔شیخ احمد دیدات کی والدہ وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کی سگی بہن تھیں ۔حبیب پٹیل،سردار مرارجی ڈیسائی،اور ولبھ بھائی پٹیل نانا کے دوست تھے۔ نے مدد کی تو یہ شادی ممکن ہوئی ورنہ ڈیسائی صاحب کے والد نے تو بڑی رکاوٹ کھڑی کی تھی.
دیدات صاحب نے تعارف اور خاندانی حوالوں کے بعد جو پہلا جملہ کہا وہ یہ تھا کہ
He needs Islam and Islam need people like him
اہل سلوک چشتی نگاہ کی بڑی بات کرتے ہیں۔ مرشد صادْق ایک نگاہ ڈالے تو سالک بے راہرو کی دنیا رضائے الہی سے پلٹ جاتی ہے۔بالکل اسی طرح کہ اللہ کو راہ دکھانی تھی اور نبی ﷺ نے اپنا نا تھا کہ اشرف علی تھانوی کی ایک نگاہ سے جگر مراد آبادی کی شراب چھوٹ گئی ورنہ یہ ہی جگر تھے کہ کہا کرتے تھے
ساقی کی ہر نگاہ پر لہرا کے پی گیا
توبہ کو توڑ تاڑ کے تھرا کے پی گیا
اور پھر مرشد کا فیض نظر تھا کہ ایسی نعت وجود میں آئی کہ
اک رند ہے اور مدحت سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمت سلطان مدینہ
کچھ کام نہیں ہم کو جگر سے
کافی ہے بس اک نسبت سرکار مدینہ
جاری ہے!
email:eyedee2000@outlook.com

Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اپُن کا کراچی۔شیخ احمد دیدات۔محمد اقبال دیوان۔قسط3“