کئی صدیوں سے غرورِ آدمیت اور حیاِ نسوانیت کے درمیان
پِس رہا ہوں یا رہی ہوں
میں ادھوری جنس ہوں مگر مکمل انسان ہوں
میرے ہونٹوں پر لالی اور ٹھوڑی پر داڑھی ہے
جسم کے نشیب و فراز
ثمر سے عاری ہیں
آدھی جنس میری خاندان پر گالی ہے
میرا مستقبل کیا فقط
شادی یا دعوت میں کسی بیہودہ گانے پر تھرکنا ہے؟
کسی اندھیرے بدبودار کمرے کا کونا ہے
کسی عیاش کی تنہائی
یا گرو کی مار سہنا ہے
کیا یہ ممکن ہے
مجھے شرف انسانیت میں حصہ ملے؟
زمین و آسمان کی نیابت کا ورثہ ملے
کیا یہ ممکن ہے
میرے آدھے ادھورے جسم پر عزت کا سائبان ہو جائے
میرے درد کا دردماں ہوجائے
کیا یہ ممکن ہے
کہ میں بھی تو،
ادھوری جنس کا مکمل انسان ہوں.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں