لاہور میں مردم شماری ٹیم پر حملہ

لاہور میں مردم شماری ٹیم پر حملہ
طاہر یاسین طاہر
گذشتہ سے پیوستہ روز لاہور میں مردم شماری کے عملے کی سیکیورٹی ٹیم پر ایک خودکش حملے میں پانچ فوجی اہلکاروں سمیت کم از کم سات افرادشہیدور 19 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ واقعہ بیدیاں روڈ پر پیش آیا، مردم شماری عملہ کی وین مانا والا چوک پر رکی تو خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا۔ایک ایئر فورس اہلکار فیملی کے ساتھ گذرتے ہوئے دہشت گردی کا نشانہ بنا۔مشکوک بیان پر زخمی وین ڈرائیور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق خود کش بمبار ازبک تھا اور اس کا سر ایک 40 فٹ اونچی عمارت سے ملا۔حملے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 41 سے زائد مشکوک افراد کو گرفتار کیا۔دریں اثنا گوجرہ میں بھی مردم شماری کی ٹیم پر فائرنگ کی گئی ہے۔لاہور واقعے کے بعد وزیر اعظم صاحب نے بیان جاری کیا کہ مٹھی بھر جنگجو خوف زدہ نہیں کر سکتے،جبکہ آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی ہر صورت ختم کریں گے۔
ہمیں اس امرمیں کلام نہیں کہ دہشت گردی کی کئی وجوھات ہیں۔مذہبی بیانیہ اس جنگ کا روح رواں ہے۔نائن الیون کے بعد اس جنگ کی وسعت اور تباہی میں اضافہ ہوا۔ہم مگر اس جنگ کی ساری تباہی کو غیر ملکی جنگ کا خمیازہ کہہ کر خود کو بری الذمہ نہیں کر سکتے۔ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس جنگ کو اپنی جنگ تصور کرنے میں ہم نے بحثیت پاکستانی قوم بہت دیر کی اور ابھی تک کچھ حلقے ایسے ہیں جو طالبان اور داعشی فکر کے سارے حلقوں سے مذاکرات کی حمایت میں پیش پیش ہیں۔پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب اور اب آپریشن رد الفساد سے دہشت گردی کا تعاقب جاری رکھا ہوا ہے۔اس جنگ میں ہمیں قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔اگرچہ اس جنگ میں پاکستان نے اپنا بہت زیادہ زیادہ جانی و مالی نقصان بھی برداشت کیا ہے مگر ہمارے عزم اور استقلال میں کمی نہیں آئی۔اس سب کے باوجود یہ تسلیم کیا جانا ضروری ہے کہ ہم اب بھی حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنی من مانیاں تسلیم کروانے پہ تلے رہتے ہیں۔
یہ بات دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد کہہ دی جاتی ہے کہ دہشت گرد مٹھی بھر ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مٹھی بھر افغانستان سے چلتے ہیں اور لاہور میں آ کر اپنی من پسند جگہ پر پھٹ جاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دہشت گردوں کو،جو افغانستان سے چلتےہیں یا وزیرستاں سے یا کہیں سے بھی، انھیں لاہور سمیت پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں سپورٹ حاصل ہے۔ یہ سپورٹ سٹریٹجک ہے۔ یعنی فکری کے ساتھ ساتھ،مالی اور رہائشی سپورٹ۔کوئی دہشت گرد اپنے ساتھ خود کش جیکٹ لے کر نہیں آتا بلکہ سہولت کار اسے یہ چیزیں فراہم کرتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ہر شہر میں بلکہ بڑے اور گنجان شہروں میں دہشت گردو ں کے بے شمار سہولت کار موجود ہیں۔ صرف ان پر ہاتھ ڈالنے اور انھیں انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ہمیں ضرب عضب کی کامیابیوں سے انکار نہیں، مگر اصل فتنہ وہ پناہ گاہیں ہیں جہاں سے دہشت گرد نہ صرف فکری بلکہ رہائشی و معاشی سپورٹ حا صل کر کے معصوم انسانوں کا خون بہاتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی واقعی ہے کہ لاہور نہ تو فاٹا کا حصہ ہےاورنہ ہی سندھ کا کوئی گوٹھ ہے۔پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر بھی پاکستان میں حملے ہو چکے ہیں اور کئی اہلکار شہادت کے مرتبے پر بھی فائز ہو چکے ہیں،مردم شماری کی اہمیت اور ضرورت مسلمہ ہے۔ ابھی تک ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہمارے کتنے فی صد نوجوان ہیں اور کتنے فی صد بوڑھے،کتنے افراد صحت مند ہیں اورکتنے معذور،کتنے بر سر روزگار ہیں اور کتنے بے روزگار۔ کتنے افراد ملک سے باہر ہیں نیز ذرائع آمدن اور دیگر جزئیات کا منبع مردم شماری ہی ہو سکتا ہے۔
وطن دشمن طاقتیں مگر یہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان اپنے معاشی،سماجی اور ترقیاتی و شماریاتی اہداف حاصل کرے۔مردم شماری سے بے شک دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو بھی تکلیف ہے ۔کیونکہ اس سے مدارس کی تعداد اور ان میں غیر ملکی طلبا کا ڈیٹا بھی مرتب ہو جائے گا۔تمام تر جزئیات اور تحفظات کے باوجود،بہر حال یہ ذمہ داری ریاستی اداروں اور حکومت کی ہی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے ایک ایک سہولت کار تک پہنچے ۔ لاہور میں مردم شماری کی ٹیم پر ہونے والا حملہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ پنجاب میں خدا نخواستہ ایسے مزید واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔دہشت گرد ،دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک غیر محفوظ ملک ہے،مگر ہم نے دہشت گردوں کے اس طریقہ کو بھی ناکام بنانا ہے انشا اللہ۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply