• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • لیڈی برڈ کا کتا جسے ہم نے پھینٹی لگائی۔۔مستنصر حسین تارڑ/حصہ اول

لیڈی برڈ کا کتا جسے ہم نے پھینٹی لگائی۔۔مستنصر حسین تارڑ/حصہ اول

میں جن زمانوں میں انگلستان میں ہوا کرتا تھا اور یقین مانیے ازمنہء قدیم میں ہواکرتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم ابھی حال ہی میں اختتام پذیر ہوئی تھی یعنی کوئی دس بارہ برس پیشتر یہاں تک کہ دوچار برس یہاں انڈے ،ڈبل روٹی، وغیرہ غیر محدود تعداد میں راشن کارڈ پر ملتے تھے، یوں جانیےکہ ابھی ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں چلے آئے تھے ،تو ان دنوں میں نے کم ہی کسی ذاتی کمرے یا فلیٹ میں بسیرا کیا ۔اکثر کسی لینڈ لیڈی کا کرائے دار مہمان رہا۔ مجھے معلوم نہیں کہ آج انگلستان میں لینڈ لیڈی کا ثقافتی ادارہ موجود ہے یا نہیں ۔خصوصی طور پر طالب علم لینڈ لیڈیز کے ہاں قیام کرتے ہیں ۔

ہفتہ وار کرائے میں کمرے کے علاوہ صبح کا ناشتہ اورڈنر شامل ہوتا، البتہ ہفتہ وار اتوار کو لنچ مہیا کیا جاتا۔ یہ کرائے داری ایک ایسا نظام تھا جس کے تحت اکثر ادھیڑ عمر، بیوہ یا بے آسرہ خواتین طالب علموں کے لیے اپنے گھرکا ایک کمرہ مخصوص کرکے اضافی آمدنی کا بندوبست کرلیتیں اور میں اقرار کرتا ہوں کہ ان میں سے بیشتر بہت مہربان اور مدد گار خواتین ہوا کرتی تھیں ۔ اور میں نے جتنے بھی برطانوی آداب اور رہن سہن کے سلیقے سیکھے لینڈ لیڈیوں سے ہی سیکھے بلکہ اگر “ پراپر” انگریزی لہجہ سیکھا تو انہی خواتین سے سیکھا۔ میں نے جن بھی لینڈ لیڈیز کے گھروں میں قیام کیا ان میں  بہت ورائٹی تھی۔ لیکن جتنی  بھی تھیں ان میں سے بیشتر لالچی نہ تھیں ۔ بہت خدمت گزار اور محبت کرنے والی تھیں اور میں اتنے  برس گزر جانے کے باوجود آج بھی انہیں یاد کرتا  ہوں ۔

مثلاً مانچسٹر میں 12۔1راشڈیل روڈ کے ایک نہایت جدید مکا ن میں میری رہائش تھی اور لینڈ لیڈی کا نام مسز چیپ مین تھا۔ اس کا خاوند عادی شرابی تھا اور وہ ایک ستھری ذہنیت کی خاتون تھیں ۔چنانچہ علیحدگی اختیار کرلی۔ کسی فیکٹری میں مزدوری کرتی تھیں اور مکان اس کی ملکیت تھی ۔اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرتی تھی اور انہیں سنبھالتی تھی۔ مغرب کے بارے میں ہم نے طرح طرح کے مفروضے گھڑ رکھے ہیں کہ وہاں بوڑھوں کو اولڈ پیپل ہوم میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جبکہ ہم تو اپنے بزرگوں کو سینت سینت کر رکھتے ہیں وغیرہ۔ آپ کبھی لاہور اور کراچی کے ان عافیت گھروں میں جائیے جہاں بوڑھے اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہے ہیں ان میں سے اکثر  کی اولادیں انہیں داخل کروا کے غائب ہوئی ہیں کہ ان کا کھوج لگانا مشکل ہے۔ یوں ہم انہیں سینت سینت کررکھتے ہیں!مسز چیپ مین کے پاس دو بارہ شادی کرنے کے مواقع کم نہ تھے کہ وہ ایک قبول صورت خاتون تھیں لیکن انہوں نے صرف اس لیے اجتناب کیا کہ کیا پتہ خاوند ان کے والدین کی موجودگی نہ برداشت کرے تو وہ تنہا رہیں ۔

میرے کمرے کی قد آدم شیشہ کھڑکی پچھواڑے میں ایک جنگل  کی طرف کھلتی تھی ۔ موسم سرما میں جنگلوں میں برف گرتی تھی اور ساز بجتے تھے۔ میں ان کے گھریلو کتے وہسکی کو برفباری کی رتوں میں سیر کے لیے لے جاتا کہ وہ ہمیشہ میری کالج سے واپسی کا منتظر رہتا ۔ جس طور مسز چیپ مین کھلے دل سے مجھے کھانے کھلاتی تھیں اور سہولتیں مہیا کرتی تھیں مجھے شک ہے کہ جتنا کرایہ میں ادا کرتا تھا وہ اس سے زیادہ مجھ پر خرچ کردیتی تھیں ، میں ان کے گھر کا ایک فرد بن چکا تھا اور جب رخصت ہواتو وہ سب مجھ سے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئیں ۔۔ اور ہاں کوئی نصف صدی کے بعد سرگودھا کا ایک نوجوان فہد نام کا، اعلی تعلیم حاصل کرنے مانچسٹر گیا اور وہ ایک مبتلا تھا میری تحریروں کا ،تو وہ “نکلے تیری تلاش میں “ میرے اس قدیم مسکن 12۔1 راشڈیل روڈ کی تلاش میں نکلا ۔اب وہا ں وہ گھر نہ تھا۔دو منزلہ فلیٹ تعمیر ہو چکے تھے  اور اس نے اس فلیٹ میں قیام کیا جس کا ایڈریس 12۔1 راشڈیل روڈ تھا۔ صرف اس لیے کہ میں کبھی وہاں ٹھہرا تھا۔ میرا پتہ  یہی ہوا کرتا تھا، تحریروں کے طلسم میں گرفتار دیوانے ایسے بھی ہوتےہیں ۔

اب ذرا ذائقہ بدلنے کے لیے ،میں ساحل سمندر کنارے ساؤتھ اینڈ آن سی  کی ایک لینڈ لیڈی نام یا د نہیں ۔مسز لیڈی برڈ کہہ لیجیے ،کا تذکرہ کرتا ہوں ، یہاں میرا عزیز از جان دوست شرقی افریقہ کا ہندو دوست بابو راؤ پٹیل بھی میرے ہمراہ مقیم تھا ،مسز  لیڈی برڈ  دن رات اپنی سوزو کی موت پر سوگوار آہیں بھرتی تھی، ہم نے قیاس کیا کہ مرحومہ کی بیٹی ہوں گی، اور جب انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ سوزی تو یہیں آپ کے کمرے کے برابر میں پائیں باغ میں دفن ہے۔ اس کی قبر دیکھ کر تو ہم سناٹے میں آگئے وہاں ایک چھوٹی سی قبر تھی ۔سوزی کی تھی ۔جو مسز لیڈی برڈ کی پالتو چڑیا  تھی، مسز لیڈی برڈ کا سیاہ رنگ کا سپینش پستہ قد کتا اتنا بدتمیز تھا کہ ناشتے کے دوران کود کر گود میں آبیٹھتا اور فرائی انڈوں کو سونگھنے لگتا اور لیڈی برڈ تو نہال ہوجاتیں (نہال ہاشمی نہیں ) کہ یہ کتا تو ایسا نخریلا ہے کہ کسی کو منہ نہیں لگتا آپ کے فرائی انڈوں کو منہ لگتا ہے تو آپ کیسے خوش نصیب ہیں ۔

ایک شام میں اور بابو کسی پارٹی میں شمولیت کے لیے نہایت  سج دھج کر نکلے ،ا س کتے نے فرط جذبات سے مغلوب ہوکر بابو کے نئے نویلے کوٹ کی پتلون پر دانت گاڑ کر اپنی الفت کا اظہار کیاجس کے   نتیجے میں نئی پتلون پھٹ گئی تب ہم دونوں نے متفقہ قرار داد پاس کی کہ اس ناہنجار ڈوگی کو سبق سکھانا چاہیے۔
چنانچہ اگلے روز جب لیڈی برڈ اپنی سہیلیوں کو ملنے کے لیے جاچکی تھیں تو ہم نے اس کتے کو پچکار کر اسے پیار کرتے ہوئے ،اس کی تھوتھنی سہلاتے اپنےکمرے میں لے آئے۔ دروازہ مقفل کیا اور پھر اسے جوتوں اور ڈنڈوں سے اتنا ذود و کوب کیا کہ وہ فریاد بھی نہ کرسکا۔خوب دل کی بھڑاس نکالی ۔بابو کہتا تھا” آئندہ میری پتلون کو پھاڑو گے تمہاری بہن کو اور وہ بھی کتیا ہوگی”

اگلی سویر ہم ناشتے کی میز پر بیٹھے حسب عادت کتا ڈرائنگ روم میں داخل ہوا ہمیں دیکھا اور چاؤں چاؤں کرتا الٹے قدموں لوٹ گیا، ہم نے بہت پیار سے کہا کہ آؤ آؤ ڈوگی اسے پچکارا لیکن وہ بھاگ گیا۔ مسز لیڈ ی برڈ کو بہت حیر ت ہوئی کہ “اسے کیا ہوا” ؟ یہ تو آپ دونوں سے بہت پیا ر کرتا تھا ۔

انہی دنوں بابو کہنے لگا۔۔ چوہدری ہائی سٹریٹ میں جہاں سے میں سگریٹ خریدتا ہوں ،وہ کھوکھا ایک یہودی عورت کا ہے ،کہتی ہے یہیں ہائی سٹریٹ میں میرا ایک شاہانہ فلیٹ ہے جس کی چھتیں سنہری ہیں ،فرش لکڑی کے ہیں ۔ اور باتھ روم سنگ مر مر کے ہیں تو میرے ہاں منتقل ہوجاؤ، عیش کرو گے،چنانچہ ہم دونوں وہاں منتقل ہوگئے،واقعی ایک سنہری شاہانہ وسیع کمرہ تھا ۔ جہاں بابو  ہمہ  وقت اردلی برادرز کے ریکارڈ” کیپ آن کنگ بٹ یو کانٹ کم اِن” یعنی دستک دیتے رہو  لیکن تم اندر نہیں آسکتے ۔فل والیوم پر بجاتا رہتا ۔ اس یہودی عورت نے دوبار خو ب خو ب ہماری مدارت کی اور پھر غافل ہوگئی اور ایک دن  اس نے ہمیں کوئی نایاب چکن سینڈوچ کھلایا اور جب کبھی ہم خوراک کا تقاضا کرتے تو وہ کہتی تھی، “میں نے تمہیں کیا زبردست چکن سینڈوچ کھلایا تھا” ہم تو بھوکوں مر گئے۔

رات کو شراب سے مخمور ہوکر راہداریوں میں بلیوں کی مانند روتی پھرتی اگرچہ صبح سویرے وہ  تیار  ہو کر بن ٹھن کر اپنے کھوکھے پر پہنچ جاتی ،ٹافیاں اور سگریٹ فروخت کرنے لگتی۔
بمشکل ہم اس یہودی لڑکی کے چنگل سے چھوٹے اور پھر مجھے لیڈی جانسن یاد آرہی ہیں ۔ یہ ان کا نام نہ تھا بھول چکا کہ ان کا نام کیا تھا ۔وہ تو ایک ماں جیسی تھی زکام ہوجاتا تو مجھے لیموں کا گرم جوس پلاتیں ، ذرا حرارت ہوتی تو میرے سرہانے بیٹھی رہتیں ۔ ہمیشہ کہتی کہ ینگ مین تم تنہا تنہا سے رہتے ہو،زندگی دوبارہ نہیں ملےگی۔

ایک گئی شب میرا دیرینہ دوست سکھ دیپ سنگھ رانگی حالت خمار میں میر ی کھڑکی تلے غل غپاڑہ کرنے لگا کہ اوئے چوہدری آجا موج مستی کریں گے تو لیڈی  جانسن جو کب کی سو چکی تھیں بیدا ر ہو کر باہر آئیں اور رانگی سے کہنے لگی،ینگ مین اتنی رات گئے غل تو نہ کرو، کل صبح آجانا، تمہیں چائے پلاؤں گی،اب جاؤ۔

جب ایک مدت بعد آسٹریلیا میں میری طرح بوڑھے ہو چکے سکھدیپ سے ملاقات ہوئی تو اسے وہ شب یاد تھی اور پھر مسز رچرڈ تھیں  ،بہت نخریلی طرح دار اور رکھ رکھاؤ والی ۔جن کے معصوم بیٹے کو میں نے برگشتہ کردیا تھا اسے جنوبی افریقہ کے ساحلوں تک لے گیا تھا۔
مسز رچرڈ مجھے پسند نہ کرتی تھیں!
جاری ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ 92 نیوز!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply