• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نہ کوئی فرعون جھکا سکا، نہ کوئی قارون خرید سکا ۔۔محمد آصف بھلی

نہ کوئی فرعون جھکا سکا، نہ کوئی قارون خرید سکا ۔۔محمد آصف بھلی

حبیب جالب ایک باغی شاعر تھا اور اپنے عہد میں اپنی نوعیت کا شاید واحد شاعر تھا۔ مزاحمتی شاعری کی تاریخ میں جالب کا نام ہمیشہ ناقابل فراموش رہے گا۔ آج انہیں اپنے مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت چکے۔صرف صداقت لکھنے کے جرم میں حبیب جالب کو کئی مرتبہ جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے جیل بھیجا گیا لیکن زنداں کے مصائب بھی جالب کی بے خوف آواز کو نہ دبا سکے۔ فوجی آمر جنرل ایوب خان جب یونین کونسل کے ممبرز سے ووٹ لیکر ملک پر بطور صدر مسلط ہونا چاہتے تھے اور ان کا انتخابی نشان گلاب کا پھول تھا تو اس موقع پر جالب نے فوجی آمر جنرل ایوب خان کو اپنے درج ذیل اشعار کی صورت میں للکارا تھا ….
پھول دامن پہ سجائے ہوئے پھرتے ہیں وہ لوگ ۔۔۔ جن کو نسبت ہی نہ تھی کوئی چمن سے یارو
سینہ¿ قوم کے ناسور ہیں، یہ پھول نہیں ۔۔۔ خوف سا آنے لگا ہے سرو و سمن سے یارو
آمریت کے ایوانوں کو چیلنج کرنے کیلئے اس دور کی حزب اختلاف نے قائداعظم کی عظیم بہن مادر ملت فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان کے خلاف بطور صدارتی امیدوار کھڑا کیا تھا۔ حبیب جالب مادر ملت کے انتخابی جلسوں میں اپنی باغیانہ نظمیں پیش کرتے تو عوام کے جوش و جذبہ میں آمرانہ حکومت کے خلاف بے پناہ اضافہ ہو جاتا اور جلسہ عام میں عوام آمریت مردہ باد کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ جالب نے قوم کی ماں فاطمہ جناح کی عظمت بیان کرتے ہوئے مندرجہ ذیل شعر کہے ….
ماں کے قدموں ہی میں جنت ہے اِدھر آ جاﺅ ۔۔۔ ایک بے لوث محبت ہے، اِدھر آ جاﺅ
وہ پھر آئی ہے ہمیں ملک دلانے کے لیے۔۔۔ ان کی یہ ہم پہ عنایت ہے، اِدھر آ جاﺅ
مادر ملت کے انتخابی جلسوں میں جالب کی شاعری سے جنرل ایوب خان کی حکومت کس قدر خوفزدہ تھی اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں کہ لاہور کے ایک بدمعاش کے ذریعے جالب کے خلاف قاتلانہ حملے کا جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا گیا اور جالب کو سات سال قید بامشقت کی سزا کا فیصلہ سُن کر جیل جانا پڑا۔ جالب قید و بند کی صعوبتوں سے گزرتا رہا مگر جالب کا جذبہ بغاوت کبھی ماند نہیں پڑا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں ”دستور“ کے عنوان سے لکھی ہوئی جالب کی ایک نظم بہت ہی مشہور ہوئی۔ یہ نظم آج بھی زبان زدِ خاص و عام ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی اکثر اپنے جلسوں میں جالب کے ترنم کی نقل اتارتے ہوئے یہ نظم پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں ….دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لیکر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے چلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو۔۔۔ میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
جنرل ایوب خان کے دور میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ کے عہدہ سے الگ کیا گیا تو نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی نے یوم حمید نظامی پر خطاب کرنے کیلئے ذوالفقار بھٹو کو دعوت دے دی۔ مجید نظامی کے پیش نظریہ حکمت عملی تھی کہ وہ بھٹو کو جنرل ایوب خان کی آمریت کے سیاہ ترین دور کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے۔ حبیب جالب نے بھی یوم حمید نظامی کی تقریب میں اپنا باغیانہ کلام پیش کیا اور ایک بار پھر گرفتار کر لئے گئے لیکن فرضی مقدمات، جھوٹی شہادتیں، گرفتاریاں اور سزائیں حبیب جالب کو جنوں کی حکایتیں بیان کرنے سے روکنے میں ہمیشہ کی طرح ناکام ہی ثابت ہوئیں۔ جالب زندگی بھر پوری استقامت سے ایک ہی اصول پر کاربند رہے اور وہ اصول یہ تھا ….
دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ، سچ ہی لکھتے جانا۔۔۔ مت گھبرانا مت ڈر جانا، سچ ہی لکھتے جانا
جنرل ایوب خان کو جب اپنے خلاف عوامی تحریک کے سامنے مجبوراً سر جھکانا پڑا تو اس نے ایک اور فوجی جنرل یحیٰی خان کو اقتدار سونپ کر پاکستان میں ایک نئی فوجی آمریت کی بنیاد رکھ دی۔ حبیب جالب نے نئے فوجی آمر کا استقبال بھی اپنی باغیانہ شاعری سے کچھ یوں کیا ….
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا۔۔۔ اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاﺅ۔۔۔ وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
پاکستان کے کچھ عاقبت نا اندیش سیاستدان اور جنرل یحیٰی خان سمیت چند فوجی جرنیل جب اپنی منفی پالیسیوں اور طرزِ عمل سے پاکستان کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف کار تھے تو حبیب جالب نے لاہور میں ایک جلسے میں اپنی نظم پڑھنے سے پہلے یہ کہا تھا کہ اس وقت خاموش رہنا میرے نزدیک قومی بے حمیتی ہے۔ وطن عزیز کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں تو جالب کے ضمیر کی آواز کیسے دبی رہ سکتی تھی۔ جالب نے حرفِ صداقت بلند کیا اور انہیں قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ حبیب جالب کی گرفتاریوں کا سلسلہ صرف فوجی آمروں تک محدود نہیں رہا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے سول دور میں بھی وہ بغاوت کے جرم میں چودہ ماہ تک جیل میں رہے۔ پھر جنرل ضیاالحق کے دور میں بھی جالب نے اپھی حق گوئی کے ریکارڈ کو قائم رکھا اور اس کے صلے میں انہیں قید و بند کی سختیوں سے گزرنا پڑا۔ جنرل ضیاالحق کے دور کی کوڑوں کی دہشت، جیلوں کا خوف اور شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں تشدد کے واقعات جالب کی زبان پر تالہ نہیں لگا سکے۔ اسی سیاہ دور میں جالب کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے ….
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گوہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں ، دم گھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
حبیب جالب کی فوجی اور سول حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کے راستے میں بے پناہ قربانیاں اپنے کسی ذاتی مفاد کیلئے نہیں تھیں بلکہ ان کی جنگ پاکستان کے مجبور اور مظلوم عوام کے حقوق کی خاطر تھی۔ پاکستان کے غریب، مفلس اور بنیادی انسانی ضرورتوں سے بھی محروم طبقوں کیلئے جنگ کرنے والے حبیب جالب کی اپنی تمام زندگی بھی غربت اور فاقوں میں بسر ہوئی لیکن دنیاوی مفادات کے حصول کیلئے جالب نے کبھی اپنا ضمیر نہیں بیچا۔ جالب بِکنے والے شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کو بدنصیب قرار دیتے تھے اور اپنی تمام تر غربت، معاشی بدحالی اور فاقوں کے باوجود خود کو خوش نصیب انسان سمجھتے تھے۔ وہ یقیناً خوش قسمت تھے کہ ضمیر اور اصول پسندی کی دولت سے وہ زندگی بھر مالا مال رہے۔ ان کے اپنے گھر میں ہمیشہ غربت، افلاس اور فاقوں کی حکمرانی رہی لیکن ہر دور میں انہوں نے انسانی برابری اور معاشی انصاف کی اعلیٰ اقدار کی خاطر معاشرے کے انتہائی طاقتور اور غاصب طبقوں کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ نہ کوئی فرعون جالب کر مرعوب کر سکا نہ کوئی قارون انہیں خرید سکا۔ محنت کشوں، جھگیوں کے مکینوں اور زمین کو اپنے لہو اور پسینے سے سیراب کرنے والے کسانوں کے دکھ درد بیان کرنے کیلئے جالب نے ہمیشہ اپنی شاعری کو وقف رکھا۔ جالب کی جدوجہد جمہوری اقدار اور عوام کی حقیقی حکمرانی کیلئے تھی۔ وہ ملک میں ایک ایسے انقلاب کے متمنی تھے جس میں کھیت وڈیروں کے پاس نہ ہو اور ملیں خون چوسنے والے لٹیروں کے پاس نہ رہیں۔ وہ پاکستان میں ایک ایسے نظام کو قائم کرنے کے خواہشمند تھے جو مفلوک الحال اور فاقہ زدہ انسانوں کے استحصال کی موجودہ صورتحال کو یکسر بدل دے۔ آج جالب کی نظمیں پڑھنے والے حکمران تو موجود ہیں۔ جالب کو ہلال امتیاز دینے والی حکومت بھی موجود ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ایسا حکمران بھی ہو جو دکھ میں ڈوبے ہوئے حالات سے عوام کو نجات دلا دے، جوظلم و استحصال کی ہر شکل مٹا ڈالے، جس کے دور میں دولت کے بجائے محنت کی عظمت کو تسلیم کر لیا جائے اور جس دور میں مظلوموں کو تسلیم کر لیا جائے اور جس دور میں مظلوموں اور مجبوروں کے سامنے ظالم کانپ رہے ہوں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply