شوہر سے بیوی تک۔۔ گل نوخیزاختر

میاں بیوی کا عالمی دن کیوں نہیں منایا جاتا؟ وجہ صرف ایک ہے کہ دونوں سارا سال ایک دوسرے کو مناتے رہتے ہیں۔یہ جو محفلوں میں اور فیس بک پر میاں بیوی ایک دوسرے کی فرینڈ لسٹ میں ہوتے ہیں اور آپس میں صدقے واری جارہے ہوتے ہیں ان میں سے اکثر کی بیوی میکے سے لا گ اِن ہوتی ہے اور خود وہ کسی دوست کے فلیٹ پر رہ رہے ہوتے ہیں۔ایسے ’آئیڈیل‘ جوڑے اکٹھے رہ رہے ہوں تو عید کے دن بھی اِن میں لڑائی ہوجاتی ہے۔عموماً میاں بیوی کی لڑائی جلد ختم ہوجاتی ہے۔ ایک ساس صاحبہ گھر تشریف لائیں تو انہوں نے دیکھا کہ گھر کا سارا سامان ٹوٹا پڑا ہے۔ انہوں نے بہو سے پوچھا کہ ’’یہ کرسیاں کیسے ٹوٹیں؟‘‘ بہو نے ندامت سے سرجھکا کر کہا’’ امی جی! میری اور شکیل کی لڑائی ہوگئی تھی‘‘۔ ساس نے ٹوٹے ہوئے بیڈ کی طرف اشارہ کیا’’اور یہ کیسے ٹوٹا؟‘‘۔ کچھ دیرخاموشی کے بعد ہلکی سی آواز آئی’’ وہ بعد میں ہماری صلح ہوگئی تھی۔۔۔‘‘
کافی عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ میاں بیوی کو اُن کی مائیں الٹے سیدھے مشورے دیتی ہیں جس کی وجہ سے دونوں میں لڑائی ہوتی ہے لیکن یہ کلیہ غلط ثابت ہوچکا ہے۔ اب میاں بیوی اکیلے بھی رہ رہے ہوں تو ایک دوسرے کوبرداشت نہیں کرتے۔میرے ایک دوست کی اپنی بیوی سے لڑائی ہوگئی۔ پانچ دن تک دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی‘ حسبِ معمول ہفتہ کی رات شوہر نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے بیگم سے سوری کہا تو وہ بھڑک اٹھی’’سوری کا مطلب ہوتاہے کہ آئندہ یہ کام نہیں ہوگا‘ لیکن تم ہر دفعہ سوری کرتے ہو اور پھر اگلے روزمجھ پرچیخنے چلانے لگتے ہو‘‘۔شوہر نے لجاجت سے کہا’’کیا یہ اچھی بات نہیں کہ میں سوری کرلیتا ہوں‘ آخر رہنا تو ہم نے ساتھ ہی ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی بیوی کا پارہ مزید چڑھ گیا۔ ایک دم سے پھر لڑائی شروع ہوگئی‘ جس کے جو ہاتھ لگا اُس نے کھینچ مارا۔ اگلے دن فیس بک پر شوہر نے بیوی کی تصویر لگا کرسٹیٹس لگایا ’’آج میرے دل کی رانی کی سالگرہ ہے جس کے بغیر میں ادھورا ہوں۔۔۔‘‘
ہائے۔۔۔کیا زمانہ تھا جب شوہر کہا کرتا تھا کہ ’’شکیلہ اگر میں مر گیا تو۔۔۔‘‘اور شکیلہ جھٹ سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی تھی کہ’’اللہ نہ کرے کیسی باتیں کر رہے ہیں‘‘۔ اب زمینی حقائق کا دور ہے‘ شوہرایسا جملہ کہہ بھی دے تو بیوی اطمینان سے چیونگم چباتی ہوئی کہہ رہی ہوتی ہے’’اسی لیے تو کہتی ہوں دو تین چیک ویسے ہی سائن کرکے رکھ دیں اور اے ٹی ایم کا پاس ورڈ بھی بتا دیں‘‘۔پہلے بیوی شوہر کے آنے کا انتظار کرتی تھی‘ اس کے لیے اچھے اچھے کھانے بنا کر رکھتی تھی۔ آج کل اچھے کھانے تو بناتی ہے لیکن شوہر کے جانے کا انتظار کرتی ہے تاکہ اپنے بھائی بہنوں کو بلا لے۔شوہر بھی بدل گئے ہیں۔پہلے کسی دوسرے شہر جاتے تھے تو واپسی پر بیوی کے لیے کوئی گفٹ لایا کرتے تھے‘ آج کل واپسی پر پوچھ رہے ہوتے ہیں’’وہ جو میں دو ہزار دے کر گیا تھا اُس میں سے کتنے خرچ ہوئے؟‘‘۔میا ں بیوی کی گفتگو بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ لڑائی کا موقع ہو تو یہ دونوں تین گھنٹے تک لگاتار بولتے جاتے ہیں لیکن سکون سے بیٹھے ہوں تو آپس میں آدھا گھنٹہ بھی گپ شپ کرنا مشکل لگنے لگتاہے۔بیوی ڈرامہ دیکھنے میں مگن رہتی ہے اور شوہر موبائل پر فیس بک کھولے بیٹھا رہتاہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ہمیں فیس بک پر کسی کی فرینڈ ریکوئسٹ آئے تو ہم فوراً پروفائل میں جاکر اس کا پورا بائیو ڈیٹا چیک کرتے ہیں۔ کسی کا میسج آئے تو جواب کے آخر میں سلامت رہیں‘ خوش رہیں‘ شکریہ وغیرہ لکھنا اخلاقیات سمجھتے ہیں۔ لیکن جو شریک حیات گھر میں ہوتی ہے نہ اس کا دل چیک کرتے ہیں نہ ڈھنگ سے بات کرتے ہیں نہ کسی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اصل میں زندگی روٹین میں چلنی شروع ہوجائے تو ایک عجیب سی بوریت چھا جاتی ہے۔ بیوی کو پتا ہوتاہے کہ اس کے شوہر نے کما کر لاناہی لانا ہے۔ شوہر کو یقین ہوتاہے کہ بیوی نے گھر سنبھالنا ہی سنبھالنا ہے۔ دونوں کی آدھی عمر ایک دوسرے کویہی طعنے دیتے ہوئی گذر جاتی ہے کہ مجھ پر ذمہ داریوں کا زیادہ بوجھ ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جن میاں بیوی میں زیادہ لڑائی ہوتی ہے ان کے بچے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔کبھی جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ گھریلو لڑائیاں ایسی معمولی باتوں سے شروع ہوتی ہیں جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی۔ میرے ایک کولیگ عدنان صاحب ہیں ‘ بتا رہے تھے کہ ان کی اپنی بیوی سے پچھلے ہفتے جو خونخوار لڑائی ہوئی اُس کی وجہ یہ تھی کہ بیوی کہہ رہی تھی کہ اپنے گھر میں آف وائٹ پینٹ کروانا ہے جبکہ عدنان صاحب نیلے رنگ کا پینٹ کروانا چاہتے تھے۔ میں نے حیرت سے پوچھا’’لیکن قبلہ ! آپ کا تو اپنا گھر ہے ہی نہیں۔۔۔آپ تو کرائے کے گھر پر رہتے ہیں ‘‘۔ عدنان صاحب نے آہ بھری’’ہاں ! لیکن ہم دونوں بات کر رہے تھے کہ اگر کبھی ہمارا انعامی بانڈ نکل آئے اور ہم کسی جگہ چھوٹا سا پلاٹ خرید لیں اور پھر اُس پر اپنا گھر بنوائیں تو اُس میں کون سے رنگ کا پینٹ کروانا چاہیے۔۔۔‘‘ عدنان صاحب وہ بدنصیب ہیں جن کی اپنی بیوی سے شادی کی پہلی رات ہی گھمسان کی جنگ ہوگئی تھی جب پھولوں بھری سیج پر یہ معاملہ ڈسکس ہوا کہ اگر ہمارا بیٹا ہوا تو ہم اُس کی شادی کہاں کریں گے۔دو تین ماہ پہلے بھی ان کی بیوی اس بات پر روٹھ میکے چلی گئی تھی کہ اُس نے مرتبان میں اچار ڈالنے کے لیے رکھا تھا اور عدنان صاحب نے اُس میں سے کچے اچار کی ایک ’’پھاڑی‘‘ نکال لی تھی۔
کئی بیویوں کو یہ شک ہوتاہے کہ ان کا شوہر اپنی کمائی میں سے چوری چھپے ماں باپ کو بھی پیسے بھیجتا ہے جبکہ شوہر اِس یقین میں مبتلا ہوتے ہیں کہ آئے دن جو بٹوے سے پانچ سو روپے غائب ہوتے ہیں وہ یقیناًسُسر صاحب کی دوائیوں پر خرچ ہورہے ہیں۔جن گھروں میں معاشی مسائل ہیں وہاں روپے پیسوں پر جھگڑا ہوتاہے۔ جہاں پیسوں کی کوئی کمی نہیں وہاں ایک دوسرے کے رویوں سے شکایت ہے۔ اورجہاں رویے ٹھیک ہیں وہاں ایک دوسرے کے رشتہ داروں کی وجہ سے لڑائیاں ہیں۔ بیوی اپنے رشتہ داروں کے لیے لڑتی ہے‘ شوہر اپنے رشتہ داروں کے لیے۔۔۔اور رشتہ داراِن دونوں کو جوتی کی نوک پر لکھتے ہیں۔میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میاں بیوی میں لڑائی کی وجہ کا ہونا ضروری نہیں۔ بس لڑائی ہونی ہوتی ہے اور ہو کر رہتی ہے۔شادی کے پہلے تین سال لڑائی کے لیے بہترین ہوتے ہیں۔پھر آہستہ آہستہ ان کا دورانیہ کم ہونے لگتاہے۔ بیس سال بعد کہیں جاکر دونوں کو احساس ہوتاہے کہ وہ حق پر تھے اور ٹھیک لڑتے رہے ہیں۔سیانے کہتے ہیں میاں بیوی کی لڑائی ہورہی ہو تو کسی تیسرے فریق کو ’چلتی بے عزتی‘ میں منہ نہیں دینا چاہیے کیونکہ یہ لڑائی عارضی ہوتی ہے اور خود ہی ختم ہوجاتی ہے لیکن تیسرے فریق کی درگت بن جاتی ہے۔ عدنان صاحب بتا رہے تھے کہ ایک دفعہ جب ان کی اپنی بیوی سے لڑائی ہورہی تھی تو ہمسائے میں ایک رشتہ دار نے آکر ان سے کہا کہ اگر تمہیں اپنی بیوی سے اتنی ہی نفرت ہے تواِسے طلاق کیوں نہیں دے دیتے۔۔۔‘‘ یہ سنتے ہی بیوی کی سمت سے گلدان اڑتا ہوا آیا اور رشتہ دار کی کنپٹی پر اتنے زور سے لگا کہ وہ وہیں بے ہوش ہوگیا۔ دو دن بعد عدنان صاحب اپنی بیگم کے ساتھ پارک میں دہی بڑے کھاتے ہوئے قہقہے لگا رہے تھے اور رشتہ دار ایمرجنسی وارڈ میں پڑا تھا۔۔۔!!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply