اقوام متحدہ کی جنگ بندی لکیرپرجنگ۔۔شفقت راجہ

ریاست جموں و کشمیر کا تنازعہ دراصل تقسیم ہند 1947کے دوران پیش آنے والے سانحات میں سے وہ سانحہ ہے کہ جس کے جسم کے گہرے زخموں سے تاحال لہوٹپک رہا ہے۔ یوں تو قانون آزادی ہند کے تحت15اگست 1947کو تاج برطانیہ کی حاکمیت اعلیٰ کے خاتمے کیساتھ ہی جہاں بھارت اور پاکستان جیسی زیرنگین مملکتیں (ڈومنین) وجود میں آئی تھیں وہیں تاج برطانیہ کے برصغیر کی شاہی ریاستوں کیساتھ اس وقت جاری شراکت اقتدار اور حاکمیت اعلیٰ کا رشتہ بھی ختم ہوا اور ریاستی حکمرانوں کو یہ حق حاصل ہوا کہ وہ اپنے حالات(آبادی اور جغرافیائی حیثیت) کو اہمیت دیتے ہوئے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں مکمل بااختیار ہوں گے۔ اسی لئے اکثر ریاستوں نے 15اگست تک بھارت یا پاکستان کیساتھ اپنا مستقبل جوڑ لیا تھا۔
1947میں موجود جدید متحدہ ریاست جموں کشمیر دراصل معاہدہ امرتسر (مارچ1846 ) میں تخلیق ہوئی تھی جس میں زرخیز جموں، سرسبزکشمیر، برف پوش لداخ (بشمول بلتستان) اور فلک بوس پہاڑوں کا دردستان (گلگت) جیسے مختلف خطوں، قومیتوں اور مختلف رنگ،نسل و مذہب کے حامل انسانوں پر مشتمل اور قدرتی وسائل سے مالامال ایک نئی سیاسی اور انتظامی اکائی تشکیل پائی جسے ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت ہا کا نام دیا گیا تھا۔
اس منفرد ریاست کی جغرافیائی سرحدیں چین، بذریعہ واخان پٹی( افغانستان) وسط ایشیائی ریاستوں (بعدازاں سوویت یونین، حالیہ تاجکستان) سے ملتی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر اپنے اسی خصوصی سیاسی، سماجی، معاشی و جغرافیائی وجود کیساتھ اس زمانے میں بھی دیگر ریاستوں سے الگ خصوصی حیثیت رکھتی تھی۔ ریاست کی یہی معاشی، معاشرتی اور خصوصاٌ تزویراتی (Strategic) اہمیت ہی 1947میں دراصل وبال جان بنی کہ ان نازک حالات میں ایک طرف ریاستی حکمران (مہاراجہ ہری سنگھ) ریاست کو خودمختار رکھنا چاہتا تھا تو دوسری طرف دوقومی نظریہ کے پرچارک مسلم لیگ اور کانگرس بعدازاں پاک و ہند اپنے اپنے سیاسی حلیفوں کے ذریعے ریاست کی اندرونی سیاست میں مداخلت کر رہے تھے جو اکتوبر1947کے آخری عشرے میں قبائلی حملہ اور اس کے ردعمل میں مہاراجہ کا بھارت کیساتھ الحاق اور بالآخر ریاست کے اندر دوطرفہ افواج کے داخلے پر منتج ہوا اور پھر بھارت یکم جنوری 1948 کو یہ تنازعہ لیکر اقوام متحدہ (چیپٹر 6آرٹیکل 34) پہنچا جو گزشتہ ستر سال سے تصفیہ طلب ہے اور اس وقت سے متنازعہ ریاست کے عوام کے سیاسی، سماجی ، معاشی اور آئینی حقوق بھی متنازعہ ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے پہلے17 جنوری (جنگ بندی تجاویز) اور پھر20جنوری 1948 قرارداد میں تین رکنی اقوام متحدہ کمیشن برائے انڈیا پاکستان کی تشکیل کی جسے متنازعہ خطے میں صورتحال کی تحقیقات اور سفارشات کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ 21 اپریل1948کو سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد میں کمیشن ممبران کی تعداد پانچ کر دی اورمسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تفصیلی لائحہ عمل پیش کر دیا کہ جس میں جنگ بندی، دوطرفہ فوجی انخلا اور پھر غیرجانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے یہ فیصلہ ہونا تھا کہ ریاستی عوام کی اکثریت بھارت و پاکستان میں سے کس کے ساتھ  اپنا  مستقبل جوڑنا چاہتے ہیں۔ تین جون1948کی قرارداد میں کمیشن کو فوراٌ متنازعہ علاقوں  میں پہنچنے اور سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل درآمد پر اقدامات کے فرائض دیے  گئے۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاک و ہند نے اسی حکمت عملی کے تحت 13 اگست 1948 ی قرارداد منظور کی اور پھر کمیشن کی معاونت سے یکم جنوری 1949کو جنگ بندی (سیزفائر) پر دوطرفہ اعلان ہوا اور5جنوری 1949 کی کمیشن قرارداد میں ایک بار پھر پاک وہند کی طرف سے اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ریاست کے الحاق کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے  گا۔
8 مارچ 1949 کو اقوام متحدہ فوجی مبصرگروپ برائے انڈیا پاکستان (UNMOGIP ) کی تشکیل ہوئی۔ ان قراردادوں پر عمل درآمد کیلئے پہلے جنگ بندی اور پھر باقاعدہ مرحلہ وارفوجی انخلا سے پہلے 27جولائی1949کے عسکری معاہدہ کراچی میں اس جنگ بندی لکیر (جنوب سے شمال ۔ مناور سے کیرن اور کیرن سے لداخ گلیشیر) قائم کرتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کی سرزمین اور انسانوں کی تقسیم کی دستاویز پر باقاعدہ دوطرفہ دستخط کر دیے  گئے۔ جس جنگ بندی اور جنگ بندی لکیر کی نگرانی کا بیڑہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصر کروپ برائے انڈیا پاکستان (UNMOGIP) نے اٹھایا تھا جن کا پہلا گروہ 24 جنوری 1949 کو متنازعہ ریاست میں وارد ہوا۔ 14مارچ 1950 کو اقوام متحدہ کمیشن (UNCIP) کو ختم کرتے ہوئے کمیشن کی تجاویز پر عمل درآمد کی کوششوں میں بھارت و پاکستان کیساتھ جاری مذاکرات و مشاورت کیلئے خصوصی نمائندہ Owen Dixon  مقرر کر دیا گیا۔
30مارچ 1951 کی قرارداد میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ اوون ڈکسن (Owen Dixon) کے استعفیٰ کو منظور اور خدمات کو سراہتے ہوئے پاک بھارت پر زور دیا گیا کہ رائے شماری کے انعقاد کیلئے فوجی انخلا کو یقینی بنایا جائے (ڈاکٹرفرینگ گراہمFrank Graham کو نیا نمائندہ خصوصی مقرر کیا گیا)۔ بھارتی زیرانتظام ریاستی اسمبلی (نیشنل کانفرنس) کی الحاق بھارت کی توثیق کی قرارداد کو مسترد اور فوجی مبصرین کو بدستور اپنے فرائض پر معمور رکھا گیا۔ 23 دسمبر1952کی قرارداد میں فوجی انخلا کے معاملے پاک بھارت دوطرفہ تحفظات کی روشنی میں مرحلہ وار انخلا کی تکمیل تک پاکستان کو تین سے چھ ہزار اور بھارت کو بارہ سے اٹھارہ ہزار فوجی  جنگ بندی لائن پر تعینات کرنے کی اجازت دی گئی اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے دوطرفہ اقدامات کو تسلیم کیا گیا۔
24جنوری 1957کی قرارداد میں ایک بار پھر تنازعہ کے پرامن حل اور نیشنل کانفرنس کی الحاق بھارت قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے واضع کیا گیا کہ متنازعہ ریاست کی کوئی بھی مقامی انتظامیہ ریاست یا کسی متنازعہ حصے کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔۲۱ فروری ۱۹۵۷ کی قرارداد میں سلامتی کونسل کے صدر اور سویڈن کے نمائندہ خصوصی گنر جیرنگ ( Gunner Jarring) کو درخواست کی گئی کہ وہ متنازعہ ریاست کا دورہ کریں اور حالات کا جائزہ لیں۔2دسمبر1957  قرارداد میں نمائندہ خصوصی رپورٹ کی روشنی میں فوجی انخلا میں رکاوٹ دوطرفہ تحفظات کو دور کرنے پھر سے جنوبی ایشیا جانے اور قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مصالحتی کردار کو جاری رکھنے پر زور دیا گیا ۔
1965 اور1971 کی  پاک  بھارت جنگ ا ور ان کے نتیجے میں تاشقند (جنوری 1966) و شملہ (جولائی1972) دوطرفہ معاہدات نے ریاست جموں کشمیر کے تنازعہ میں اقوام متحدہ کے اس مصالحتی کردار کو بھی تقریباٌ ختم کر دیا ہے (دسمبر1971کی قرارداد میں اقوام متحدہ نے پاک بھارت کو سیزفائرلائن کے احترام اور فوجی مبصرین کو بحال رکھا)۔ شملہ معاہدہ میں جنگ بندی لکیر کو حدمتارکہ (کنٹرول لائن) میں بدلنے کے بعد بھارت نے فوجی مبصرین کے کردار کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تاہم اقوام متحدہ نے انکار کر دیا۔ اب اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کیلئے اپنا کوئی کمیشن یا نمائندہ مقرر نہیں کرتا تاہم ان کا فوجی مبصر گروپ ،متنازعہ علاقوں میں جنگ بندی لکیر (کنٹرول لائن) امن کی نگرانی اور جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی سے متعلقہ رپورٹ یا سفارشات تیار کرنے کے فرائض انجام دے رہا ہے۔
اقوام متحدہ فوجی مبصر گروپ برائے انڈیا پاکستان (UNMOGIP) دراصل دنیا کے مختلف خطوں میں جاری اقوام متحدہ کے امن بحالی مشن (Peacekeeping Mission ( میں سے ایک ہے۔ گروپ میں شامل افراد کی کل تعداد115 جن میں71 سول اور 44فوجی ماہرین ہیں جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے۔ فوجی مبصر گروپ کا ایک ہیڈ کوارٹر سرینگر (مئی تا اکتوبر) اور دوسرا اسلام آباد پاکستان (نومبر تا اپریل) کام کرتا ہے جبکہ بھارتی زیر انتظام جموں، پونچھ اور راجوری میں فیلڈ سٹیشن ہیں جبکہ پاکستانی زیر انتظام سکردو، گلگت، دومیل، راولاکوٹ، کوٹلی اور بھمبر میں فیلڈ سٹیشن قائم ہیں ( ورکنگ باونڈری نگرانی کیلئے ایک فیلڈ سٹیشن سیالکوٹ جبکہ ایک رابطہ آفس دہلی میں بھی ہے)۔
فوجی مبصر گروپ کو مقامی سطح پرسہولیات کی فراہمی پاکستانی اور بھارتی حکومتوں کی ذمہ داری ہے گو شملہ معاہدہ کے بعد بھارت جنگ بندی لکیر سے متعلقہ امور کیلئے مبصر گروپ سے مکمل لاتعلق ہے۔ جنگ بندی معاہدہ کی پاسداری کیلئے جنگ بندی لکیر پر ہرطرح کی فوجی نقل و حرکت پر نظر رکھنا ، جنگ بندی معاہدہ و جنگ بندی لکیر کی خلاف ورزی کی تحقیقات، دوطرفہ شکایات، اور ایسے تمام امور کی تحریری رپورٹ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک پہنچانا فوجی مبصر گروپ کے فرائض میں شامل ہے جن کی ادائیگی کیلئے ان کے نمائندے جنگ بندی لکیر کے ملحقہ علاقوں میں دورے کرتے رہتے ہیں اور دوطرفہ سول و فوجی انتظامیہ کیساتھ رابطہ رکھتے ہیں۔
سیز فائر لائن (جنگ بندی لکیر) پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان اس گھمسان میں درمیانے سے بڑے درجے کی فائرنگ اور شیلنگ کا تبادلہ ایک معمول بن چکا ہے، جس کے پیش نظراسلحہ اور بارود کا بین الاقوامی بیوپار تو عروج پر ہے کہ جس کا کوئی علاقہ اور عقیدہ نہیں ہوتا۔ بھارت دنیا کے سامنے سرحد پار دھراندازی (گھس بیٹھ) کو بہانہ بنا کر نہتے عوام پر جب آگ برساتا ہے تو پھر جوابی کارروائی پاکستان کی مجبوری بن جاتی ہے لیکن ان دونوں کی ان جنگی مجبوریوں کی وجہ سے نہ صرف ان کی دو طرفہ افواج بلکہ خونی لکیر کے آرپار سول آبادی کا بھی شدیدجانی و مالی نقصان اور لوگوں کو نقل مکانی میں بے گھر ہونا پڑتا ہے ، دونوں طرف مجبور نہتے عوام زخمی اور معذور ہوتے ہیں، املاک ،فصل ومال مویشی کا نقصان، چھوٹے کاروبار و روزگار متاثر اور سب سے بڑھ کر اس غیر اعلانیہ،بے قاعدہ و بے نتیجہ محدود جنگ میں جان سے ہاتھ دھونے والوں میں بچے، جوان وپیر مرد و زن سب شامل ہوتے ہیں۔
ریاست جموں کشمیر کے سینے پر کھنچی گئی جبری خونی لکیر یا بظاہر سیزفائر لائن کے قریب بسنے والے ان بے بس، بے قصور، مجبور اور مظلوم و متاثرین باشندگان ریاست کی آہیں، سسکیاں، نوحے اور چیخیں شاید انہی سنگلاخ پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آ جاتی  ہیں اسی لئے ان کی دہائی کی شنوائی کہیں نہیں ہوتی۔ آگ اور خون کے اس سارے منظرنامے میں جہاں ایک طرف ریاست کے دونوں حصوں کی مقامی انتظامیہ ان بے بس متاثرین کیلئے متبادل رہائش ، ہنگامی طبی امداد، مالی معاونت ، روزمرہ ضروریات کی فراہمی اور متاثرین کی واپس بحالی کے انتظامات میں ناکام ہیں وہیں جنگ بندی لکیر پر امن کے قیام کیلئے تعینات اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ اپنے محدود اختیارات کیساتھ جنگ بندی معاہدات کی روزانہ کی بنیاد پرخلاف ورزی پر قابو پانے میں بھی ناکام ثابت ہوا ہے اور دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان جاری اسلحہ کی دوڑ، ہر نئی صبح ایک نئی جنگ کے منڈلاتے بادلوں میں اقوام متحدہ بظاہر اپنی افادیت کھو چکا ہے۔
اب ان دو ممالک اور خصوصاٌ منقسم ریاست جموں کشمیر کے عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دونوں ہمسایہ ممالک کے مقتدر حلقوں اور عالمی امن کے ضامن اقوام متحدہ کیلئے خود ایسا جاندار پیغام بنیں کہ وہ اپنے اس روایتی کردار سے مختلف اپنے اصل مقاصد کے مطابق حقیقی عالمی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے جنوبی ایشیا میں گزشتہ ستر سال سے جاری اس تناؤ  کو ختم کرنے کیلئے خطے میں موجود اس تنازعہ جموں کشمیر کے حل کیلئے کوئی نیا اور موثر کردار اپنائے تاکہ اس پورے خطے کے اکثرخط غربت سے نیچے بظاہر زندہ عوام کم از کم اپنی آئندہ نسلوں کیلئے امن و خوشحالی کی کوئی امید تو باندھ پائیں۔۔۔ ورنہ مرجائیں !!

Facebook Comments

شفقت راجہ
برطانیہ (لندن)میں مقیم باشندہ جموں کشمیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply