قومی مجرم، بھٹو

سوچا تھا بھٹو پر نہیں لکھنا۔
والدہ پاکستان سے تشریف لائیں اور اعلان کیا کہ تیری شادی نہیں ہو سکتی۔ پوچھا کیوں؟ بولیں یہ تیرا فیس بک تیرا رشتہ نہیں ہونے دیتا۔ لڑکی والے تجھے گوگل کرتے ہیں اور “سولسٹر انعام رانا” کے بجائے “لکھاری انعام رانا” سامنے آ جاتا ہے۔ فیس بک پر “سرچ اور ریسرچ” کے بعد وہ کہ دیتے ہیں کہ آپکا بیٹا “کنٹروورشل” بہت ہے۔ تو بھائیو اسی لئیے میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب “متنازعہ بات” نہیں کرنی۔ بلکہ لاہور سے لندن تک جس جس لڑکی اور لڑکے کی شادی نہیں ہو رہی اور فین فالونگ میں اضافہ اور رشتوں میں کمی ہو رہی ہے، میری مان لو اور چولیاں نا مارو بلکہ خود کو عالی اور ممتاز کرو تاکہ رشتہ آئے اور ماوں کو سکون نصیب ہو۔
خیر تو سوچا تھا کہ بھٹو پر بھی نہیں لکھنا کہ گو بھٹو اب سیاسی قائد سے زیادہ عقیدہ بن چکا ہے مگر اس پر بات کرنا تنازعے کا حصہ بننا ہی ہے۔ مگر دو دن سے لگتا ہے کہ بھٹو اس ملک کی قومی تاریخ کا سب سے بڑا مجرم ہے اور شاید بھٹو نا ہوتا تو شہد کی نہریں بہتیں۔
افسوس تو یہ کہ بھٹو کی برائی اور اسے قومی مجرم کہنے والے وہ بھی ہیں جنھوں نے میری طرح بے نظیر کا دور بھی اپنے بچپن میں ہی دیکھا۔ بھٹو کا یعنی فقط نام ہی سنا ہے۔ اور معلومات کا عالم یہ کہ ایک صاحب نے بھٹو کو سقوط ڈھاکہ کا شدید مجرم قرار دیتے ہوے کہا کہ آخر وہ ملک کا وزیرخارجہ تھا، اسکا ذمہ کیوں نہیں بنتا؟ جگر پیٹنا ہے یا دل، اس بات پر تو غالب مزید کنفیوز ہو گیا ہو گا۔ مگر انکا بھی کیا قصور۔ ایک شخص ضیا کے دور تاریکی سے مسلسل میڈیا ٹرائل کا شکار ہے۔ نئی نسل نے بھی اسکو فقط میڈیا ٹرائل کے زریعے ہی جانا اور ضیا مجاھد اسلام تھا جس نے ایک “مشتبہ مسلمان” کو پھانسی دی، سو بھٹو مجرم کے سوا اور ہو بھی تو کیا۔ ویسے بھی بھٹو جیسی شخصیت سے یا شدید محبت ہوتی ہے یا نفرت، اعتدال ممکن ہی کب رہتا ہے۔
بھٹو اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ایک انسان تھا، تضادات سے بھرپور انسان۔ اس نے بے شمار وہ کام کئیے جو ستر سالہ سیاست میں نا اس سے قبل کوئی کر سکا اور نا اسکے بعد۔ قائداعظم کے بعد ایسی کرشماتی قیادت کا تاج اسکے سوا کسی اور کے سر سج ہی نا سکا۔ ہاں اس نے غلطیاں کیں، شدید سیاسی غلطیاں اور انکا خمیازہ بھی بھگتا۔ بھٹو کی ایک بہت بڑی غلطی خود کو اسقدر عالمی رہنما سمجھنا تھا کہ لوکل سیاست کو نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔ مگر اس وقت عالمی سیاست جس مقام پر تھی، کیا یہ ممکن تھا کہ بھٹو سا زیرک اور عالی دماغ اپنا رول ادا نا کرتا؟ اور کیا اس سے بہتر وہ رول کوئی ادا کر پاتا؟
بھٹو نے فاش غلطی کی عوام کے بجائے بیوروکریسی پر اعتماد کر کے، سوشلسٹ عناصر کو نظرانداز کر کے جاگیردار طبقے پر انحصار کر کے، مذہبی طبقے کی بڑھتی ہوئی طاقت کو بچگانہ خیال سمجھ کر۔ اپنے جمہوری اصولوں پر کئی بار آمرانہ رویوں کو فوقیت دے کر۔ مگر پھر بھی بھٹو قومی ہیرو تو ہو سکتا ہے، قومی مجرم نہیں۔
سقوط ڈھاکہ میں بھٹو کا کردار کیا تھا یا کیا کوئی کردار ہو بھی سکتا تھا؟ یہ سوال مکمل تحقیق کا متقاضی ہے۔ مگر چلتے چلتے عرض کروں کہ سانحہ مشرقی پاکستان جیسے سانحات کی ذمہ داری فرد نہیں گروہ پر ہوتی ہے، موجود لمحے نہیں تاریخی روئیے پر ہوتی ہے۔ اکہتر میں پھٹنے والا لاوا فقط ایک دو برس کی بات نا تھا کہ ہم بھٹو اور مجیب پر سارا ملبہ ڈال کر اس مجرمانہ روئیے سے بری ہو جائیں جو من حیث القوم مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان سے روا رکھا۔
بھٹو قومی ہیرو کیونکر ہو سکتا ہے یہ سوال البتہ مختصر جواب میں بھی سمٹ جائے گا۔ مسلم سیاسی تاریخ میں سقوط کا سانحہ پہلی بار نا ہوا تھا۔ ہم نے غرناطہ کھویا، بغداد میں شکست کھائی، فلسطین ہارا، دہلی لٹی اور ان سب کے بعد کبھی بھی وہاں دوبارہ کھویا ہوا مقام نا پا سکے۔ آج بھی ہمارا ایک بڑا طبقہ ان ذلت آمیز لمحوں پر گریہ کناں رہتا ہے۔ مگر مشرقی پاکستان کی شکست جو سقوط بغداد کے بعد مسلم تاریخ کی سب سے بڑی شکست مانی گئی، یہ نہیں ہوا۔ سن اکہتر میں ایک ہاری ہوئی قوم، شکست خوردہ فوج اور ٹوٹے ہوے ملک کی قیادت سنبھالنے والا بھٹو جب مرا تو فوج مظبوط تھی، قوم خود ترحمی سے نکل چکی تھی، نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھ کر مستقبل کی جنگ کا روپ بدلا جا چکا تھا۔ مگر ہر بار کی طرح ہم نے اپنے ہیرو سے وہی سلوک کیا جو ہم ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔
صاحبو، ضیا کی محبت ہو یا گیارہ سالہ دور ظلمت میں پڑھا جھوٹ، جو بھی آپکو بھٹو کو قومی ہیرو نہیں ماننے دیتا، نا مانئیے۔ مگر بھٹو کو اس کا وہ کریڈٹ تو دیجیے جسکی گواہی خود اسکے قاتل کی بیوی نے اپنے انٹرویو میں دی۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply