آخری حل۔۔مظہر حسین سید

نوشاد منصف جب بھی آتا  بعنوانِ شاعری کچھ صفحات میرے سپرد کر جاتا ۔ اُس نے  خود کو میرا شاگرد مقرّر کر کے  مجھے اپنی اُستادی میں لیا ہوا تھا   اور تصحیح کی ذمہ داری میرے نازک کندھوں پر ڈال رکھی تھی ۔

چھ ماہ کی طویل ریاضت کے بعد بھی وہ ردیف اور قافیے کے فرق کو سمجھنے میں ناکام تھا ۔ایک ہی غزل میں مختلف بحریں یوں گتھم گتھا ہوتیں کہ اُنھیں چھڑانا مشکل ہو جاتا ۔

 

آزاد نظم کو اُس نے یوں آزادی دی ہوئی تھی کہ  اُسے  آزاد نظم کے بجائے”مادرپدر آزاد نظم ” کہنے کو جی چاہتا تھا ۔لیکن اُس پر شاعر کہلوانے  کا  جنون سوار تھا ۔ ایسے میں اُسے مایوس کرنا بھی مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔

آج سہ پہر بھی  وہ اپنے تئیں کچھ شاعری لیے آ دھمکا ۔

سر کیا سمجھتے ہیں ؟ میری شاعری میں بہتری آ رہی ہے ؟

ہاں بالکل  ۔ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔

لیکن تمہاری  شاعری میں  ایک مسئلہ ہے ۔ ایک ذرا سی تبدیلی سے  تمہاری ساری شاعری ٹھیک ہو سکتی ہے ۔ اور پھر تمہیں میرے پاس بھی نہیں آنا پڑے گا ۔

وہ کیسے ؟ اُس نے حیرت سے پوچھا ۔

میں نے اُس سے تمام صفحات لیے ، ہر عنوان کو کاٹا اور اُس پر ” نثری نظم” لکھ دیا!

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

مظہر حسین سیّد
شاعر نثر نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply