آئیڈیل شوہر

بچپن سے ایک ہی مضمون پڑھا، لکھا میرا پسندیدہ دوست۔۔جس میں دوست کی وہ خوبیاں بیان کی جاتی تھیں جو اُس غریب میں سِرے سے ہی مفقود ہوتی تھیں اور ان خوبیوں بارے خود اسے بھی علم نہ ہوتا تھا۔خیر۔۔۔اب یہ بات ہمارے فرشتوں نے بھی کبھی نہ سوچی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب ہمیں میرا آئیڈیل شوہر کے زیرِ عنوان مضمون لکھنا پڑے گا۔
اس بارے جب بُوا سے استفار کیا کہ آپ کو کیسے شوہر پسند ہیں تو بدلے میں ایک زبردست گھوری ہمارے اوسان خطا کر گئی۔۔دوبارہ ہمت کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا کہ اصل میں ہم کیا جاننا چاہ رہے ہیں تو اب کی بار ہماری گھوری نکل گئی۔۔جسے بُوا نظر انداز کرتے ہوئے شرم سے دوہری تہری ہو گئیں۔۔۔ہم نے پوچھا، بُوا۔۔آپ پھوپھا سے مطمئن تھیں؟۔۔ تو بڑی ادا سے بولیں۔۔۔گیارہ نشانیاں چھوڑ گئے ہیں وہ میرے پاس۔۔اور پھر سے شرما دیں۔بس ہم نے خاموشی میں عافیت جانی اور بُوا کو شرماتے لجاتے چھوڑ کر اپنے کام میں لگ گئے۔۔
ایک سہیلی سے پوچھا کہ بھئی تمھیں کیسے شوہر کی تلاش ہے؟کیا کیا خوبیاں دیکھنا چاہتی ہو گوہرِ نایاب میں۔۔۔ابھی سوال مکمل بھی نہ ہونے پایا تھا کہ جواب آن حاضر ہوا۔۔۔۔پیسہ!۔ہمارے چہرے پر تاسف پھیل گیا جو چھپا نہ رہ سکا تو محترمہ پھر سے کچھ یوں گویا ہوئیں۔۔۔ارے بھئی سمجھا کرو نہ،پیسہ سب عیب چھپا لیتا ہے،
ایک شوہر نے بیوی سے پوچھا۔جانو یہ بتاؤ،تمھیں میری شخصیت اچھی لگتی ہے یا میری عقلمندی؟
بیوی نے جل کر جواب دیا،تمھاری مذاق کرنے کی یہ عادت!
کچھ لڑکیاں شوہرو ں میں سعادتمندی کی متلاشی ہوتی ہیں۔۔کہ شوہر کم اور بیٹا زیاد ہ لگے۔۔اور پھر ایسے شوہر بھی انتہا ہی کر دیتے ہیں بس منہ میں فیڈر پکڑنے کی کسر باقی رہ جاتی ہے،
رخسانہ نے بڑے لاڈ سے اخبار پڑھتے شوہر کے کندھے پر تھوڑی ٹکاتے ہوئے پوچھا۔۔۔سنو! تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو؟
شوہر! اتنی محبت جتنی شاہ جہاں کو ممتاز سے تھی۔
واقعی؟۔۔۔تو کیا تم میرے مرنے کے بعد میری یاد میں محل بنواؤ گے؟
شوہر! ارے میری جان،میں نے تو پلاٹ بھی خرید لیا ہے،اب تمھاری طرف سے ہی دیر ہے!۔۔
کچھ لڑکیوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انہیں چھینک آنے پر بھی تحفہ دیا جائے،ایسی عورتوں کو ملنے والے شوہر اندر سے سِکھ ہی نکلتے ہیں۔۔کہ اگر بیوی سونے کی چیز کی فرمائش کر ے تو بدلے میں نیند کی گولی ہتھیلی پر دھر دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں اکثر خواتین ڈکٹیٹر بلکہ ہٹلر نسل کی ہوتی ہیں۔ان کے شوہر حقیقت میں ان کے سامنے دم بھی نہیں مار پاتے یہ الگ بات ہے کہ یہی شوہر گھر سے باہر دم بہ دم مارتے ہیں (لڑکیوں پر لائنیں)۔ماہرین کا خیال ہے کہ نوے فیصد شوہر بیویوں سے ڈرتے ہیں،باقی دس فیصد جھوٹ بولتے ہیں، زیادہ تر لڑکیاں لمبے قد کا شوہر چاہتی ہیں تاکہ بعد میں پرچھتی سے چیزیں اتارنا اور چھت پر لگے پنھے صاف کرنے میں مشکل نہ ہو،کچھ عورتوں کو مونچھ والے مرد اس لیئے سخت ناپسند ہوتے ہیں کہ مونچھ بیچ میں حائل ہوجاتی ہے(تعلقات کے)،یہ خواتین بھول جاتی ہیں کہ اگر ان کی بھی مونچھیں ہوتیں تو رشتے دیکھ کر آئی مائیں بیٹوں سے کہتیں۔۔وے سلیم کر لے ویاہ۔۔ایڈی ایڈی تے مُچھ اے شازیہ دی۔
بعض خواتین بلاکی غیر مطمئن ہوتی ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ شوہر بالکل مطمئن ملے کہ ان کی بات پر آگے سے چوں چرا نہ کر سکے،یہ کسی حال میں راضی نہیں ہوتیں۔۔ان کا حال آئین سٹائن کی بیوی جیسا ہی ہوتا ہے کہ جب اس نے بتایا۔۔بیگم میں نے نظریہ کششِ ثقل دریافت کرلیا ہے۔۔تو بیگم بولی چھوڑو بھئی۔۔یہ بتاؤ تمھیں دھینہ لینے بھیجا تھا،پودینہ کیوں لے آئے؟
عورتوں کے آئیڈیل صرف کنوارے مرد ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی نہیں دوسرے کی بیوی کے ساتھ ہوتے ہیں۔۔کچھ لڑکیاں بھڑکیلی طبعیت کی ہوتی ہیں اور اپنا ہمسفر بھی ویسا ہی چاہتی ہیں۔ان کے شوہر اور کھسروں میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے،کسی کے جنازے پر بھی چوبیس سو سنگھار کرکے جانیوالی عورتیں عجیب و غریب نین نقش کے شوہر پالنا چاہتی ہیں تاکہ انہیں نظر نہ لگے اور دیکھنے والوں کی توجہ دوسری مخلوق کی جانب ہی مبذول رہے۔ ویسے روسی کہاوت ہے کہ بیوی خاوند کی دریافت ہوتی ہے اور خاوند بیوی کی ایجاد، ایسے ہی پرتگالیوں کا خیال ہے کہ کوئی بندہ اپنی بیوی کا ہیرو نہیں ہوتا اور کوئی عورت اپنے ہیرو کی بیوی نہیں ہوتی۔
کچھ عرصہ سے چائنہ ساخت کے بچے مارکیٹ میں آرہے ہیں،لڑکے چھوٹے قد کی لڑکی سے بھی خوشی سے شادی کر لیتے ہیں بقول ان لمبوتروں کے مصیبت جتنی چھوٹی ہو اتنا ہی بہتر ہے۔بعض لڑکیاں شوہروں میں ہنسنے ہنسانے کی عادت کو خوب پسند کرتی ہیں لیکن یہی شوہر جب ان پر کوئی لطیفہ فٹ کردیں تو گُدی پر پڑنے والا ایک ہی بیلن سارا سینس آف ہیومر باہر نکال دیتا ہے
پڑھے لکھے مرد ان پڑھ لڑکیوں کے آئیڈیل ہوتے ہیں جبکہ پڑھی لکھی عورت کم تعلیم یافتہ شوہر کو فوقیت دیتی ہے تاکہ وقت بے وقت اپنی ذہانت کا رعب جھاڑ سکے لیکن اب چونکہ زمانہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اسی طرح لڑکیوں کی شوہروں کے معاملے میں پسند نا پسند بھی اسی تیزی سے تغیر پذیر ہے لیکن ایک خواہش ہر عورت میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے وہ ہے اٹھتے بیٹھتے تعریف سننا۔۔۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عورت دن رات کی تعریفوں سے بہت جلد اکتا جاتی ہے ایسا دراصل ایک ہی صورت میں ممکن ہے اور وہ ایک صورت یہاں بیان نہیں کی جاسکتی۔۔مثل مشہور ہے کہ دین سے دنیا رکھنی مشکل ہے۔۔جبکہ میرے خیال میں عورت کی نسبت رب کو راضی کرنا آسان ہے۔۔کہ یہ معصوم مخلوق ہر پل مختلف مخمصوں میں الجھی رہتی ہے،کہیں ایک چیز اور بات پر متفق ہونا اس کی فطرت میں نہیں سو شوہروں کو خود ہی اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لینا چاہیے،عورتوں میں بہتر سے بہترین کی تلاش انہیں ٹِک کر نہیں بیٹھنے دیتی، اور محتاط اتنی ہوتی ہیں کہ ایک لپ اسٹک بھی خریدنی ہو تو پہلے چار دکانوں پر قیمت معلوم کرتی ہیں۔
شہر میں ایک جگہ 6 منزلہ“شوہر شاپنگ مال“ کا افتتاح ہوا تو پورے شہر میں دھوم مچ گئی۔ ایک عورت شوہر خریدنے جا پہنچی۔ استقبالیہ پر درج تھا“ہر منزل پر مختلف خصوصیات کے شوہر دستیاب ہیں لیکن ایک منزل سے اگلی منزل پر جانے کے بعد واپس کسی منزل پر آنا ممکن نہیں۔ صرف باہر جانے کا راستہ مل سکتا ہے“
عورت پہلی منزل پر پہنچی۔ شوہر کی مندرجہ ذیل خصوصیات درج تھیں۔
یہ حضرات کام (جاب) کرتے ہیں اور خدا سے ڈرتے ہیں
عورت دوسری منزل پر پہنچی تو درج تھا
یہ حضرات جاب کرتے ہیں۔ خدا سے ڈرتے ہیں اور بچوں سے محبت کرتے ہیں
عورت تجسس میں ڈوبتی تیسری منزل پر چلی گئی جہاں لکھا تھا
یہ حضرات جاب کرتے، خدا سے ڈرتے، بچوں سے محبت کرتے اور بہت خوش شکل ہیں
عورت“بہتر سے بہتر“ کی تلاش میں چوتھے فلور پر گئی جہاں لکھا تھا
یہ حضرات جاب کرتے، خدا سے ڈرتے، بچوں سے محبت کرتے، بہت خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج میں عورت کا ہاتھ بٹانے والے ہیں۔
عورت نے ایک لمحے کے لیے یہاں سے شوہر خریدنے کا سوچا لیکن اگلے لمحے ھل من مزید کے تحت پانچویں فلور پر گئی جہاں درج تھا۔
یہ حضرات جاب کرتے، خدا سے ڈرتے، بچوں سے محبت کرتے، بہت خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج میں عورت کا ہاتھ بٹانے والے اور اپنی بیوی سے دیانتداری سے محبت کرتے ہیں۔
عورت کو محسوس ہوا کہ ایسا شوہر ہی اسکی مراد ہے۔ لیکن دل نہ مانا چنانچہ اس نے آخری منزل یعنی چھٹے فلور پر جانے کا فیصلہ کیا۔وہاں پہنچ کر یہ تحریر پڑھنے کو ملی
افسوس آپ یہاں پہنچنے والی خاتون نمبر 54،3400 ہیں۔ اس منزل پر کوئی شوہر دستیاب نہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورت کو خوش اور مطمئن کرنا نا ممکن ہے۔ یہاں سے صرف واپس جانے کا راستہ ہے۔ برائے مہربانی قدم سنبھال کر اٹھائیے گا۔ آپکی آمد کا بہت شکریہ۔!!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply