قرارداد مقاصد کا بھوت۔۔۔ انعام رانا

برطانیہ  کی آبادی اس وقت  چھ کروڑ انچاس لاکھ اور اکانوے ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ برطانیہ یہ دعوی کرتا ہے کہ اس ملک میں ہر رنگ و نسل اور  مذہب کے افراد موجود ہیں۔ یہاں مساجد بھی ہیں اور مندر بھی، چرچ کا گھڑیال بھی بجتا ہے اور سردار وساکھی کا جلوس بھی نکالتے ہیں۔ بدھ بھکشو بھی کھڑاویں بجاتے ہیں اور احمدی بھی سرعا” جلسہ سالانہ “کرتے ہیں۔ اور تو اور برطانوی فوجیوں کی میتیں آئیں تو کچھ مسلمان ان کے سامنے مذہبی نعرے لگا کر احتجاج بھی کرتے ہیں۔ یوکے کے کچھ شہر تو ایسے ہیں کہ گورا چراغ رخ زیبا لے کر دھونڈنے نکلو تو بھی خال خال ہی ملتا ہے۔

اس رنگا رنگ ملک کی ڈیموگرافی جانتے ہیں؟۔۔۔

بھیا اب ڈیموگرافی کا اردو مترادف جاننا ہو تو  محترم وجاہت مسعود سے پوچھیے۔ میں تو صرف اردو ہجے میں لکھ سکتا ہوں۔ آخر “ایڈیٹر نوٹ” پہ ہماری تحریر کا بھی حق ہے۔ خیر تو انگلینڈ کے حالات یہ ہیں کہ 2011 کے اعداد و شمار  کے مطابق قریباً  اٹھاسی فیصد گورے ہیں اور باقی سب اقوام بارہ فیصد ہیں۔ مذہب کی رو سے  دیکھیں تو عیسائیت کے پیروکار قریب 60 فیصد، مذہب کو نا ماننے والے 26 فیصد اور مسلمان 4 فیصد ہیں۔ باقی مذاہب کے ماننے والے اس سے بھی کم یعنی  13 یا 14 فیصد بقایا میں سما جاتے ہیں۔ یقیناً پچھلے پانچ برس میں اس تعداد میں فرق آیا ہو گا مگر بات کے ابلاغ کے لیے یہ اعداد و شمار بھی کافی ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہر مذہب کے ماننے والے کو یہ لگتا ہے جیسے ریاست اس کی ہے اور اس کے حقوق کی محافظ ہے اور مجھ جیسے اکثر کو تو کئی برسوں سے یہ محسوس بھی نہیں ہوا    کہ ہم اقلیت ہیں۔

سوچتا ہوں اگر برطانوی پارلیمنٹ ایک دن ایک قرارداد پاس کر دے۔ پارلیمنٹ میں موجود کچھ مسلمان، یہودی اور ہندو نمائندے اختلافی تقاریر کر کے بے بسی سے اس قرارداد کو قانون بنتا دیکھیں “برطانوی پارلیمنٹ منظوری دیتی ہے کہ

1- اقتدار اعلی خداوند یسوع مسیح کا ہے اور اس نے سلطنت برطانیہ کو بخشا جسے اس کی عوام کے   ذریعے نافذ کیا جائے گا۔

2- عیسائیت میں دی گئی  آزادی، جمہوریت، برداشت، برابری اور سماجی برابری کے اصولوں کی پاسداری کی جائے گی۔

3- عیسائیوں کو ایسے حالات فراہم کیے جائیں گے کہ وہ یسوع کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

4- ایسے قوانین بنائے جائیں گے کہ اقلیتیں اپنی زندگی اپنے اصولوں کے مطابق بسر کر سکیں۔

5۔ اقلیتوں اور پسے ہوئے  طبقات کے قانونی حقوق کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔

 سچ کہوں تو الفاظ خواہ کتنے ہی خوبصورت کیوں نا  برت لوں، ایسا کوئی بھی قانون یہ اعلان ہو گا کہ یہ ملک عیسائیوں کا ہے، ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ایک نہاں پیغام یہ ہو گا کہ اب برطانیہ رہنا ہے تو بندے کا پتر بن کر رہو۔ ایسا کوئی قانون برطانیہ کی پارلیمنٹ سے پاس ہو، خدا وہ دن کبھی نہ لائے۔ آمین۔

آج سے کئی سال قبل 12 مارچ 1949 کو ایک ایسا ہی قانون مقبولیت کھوتے ہوئے لیاقت علی خان نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے پاس کروایا تھا۔ اور جو خدشات فرضی برطانوی قانون کی بابت میرے دل میں اٹھے، ویسے ہی خدشات ان اقلیتوں کے دل میں اٹھے جو قائداعظم کی اس یقین دہانی پر پاکستان رک گئے تھے کہ یہ ملک ان کو برابر کا شہری سمجھے گا۔

ہم بہت فخر سے بیان کرتے ہیں کہ پاکستان کا پہلا وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل تھا، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ وہی منڈل اس قرارداد کے بعد پاکستان چھوڑ گیا۔ میں اپوزیشن لیڈر چندرا چٹو پدھائے کی دہائی سنتا ہوں کہ ” ایک ایسا ملک جہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہوں، وہاں ریاست کو کسی ایک کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے، غیرجانبدار رہنا چاہیے۔ ریاست کو، اگر ضروری ہو تو ہر مذہب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ناکہ ایک کو مسکرا کر دیکھنا اور دوسرے کو شک کی نگاہ سے۔ اسلام کے تحت برابری کے اصول کے الفاظ اقلیتوں کے لیے  محض ڈھکوسلہ ہیں۔ مذہبی اصولوں کو متعارف کرا کر آپ اکثریت اور اقلیت میں فرق پیدا کر رہے ہیں۔ اکثریت اقلیت کو احترام کے بجائے ترحم کی نظر سے دیکھے گی۔”

صاحبو! چٹوپدھائے جی شاید نہیں جانتے تھے کہ جن کا حلقہ انتخاب دوسرے ملکوں میں رہ جائے، انھیں نیا حلقہ بنانے کے لیے کیسے کیسے کرتب دکھانے پڑتے ہیں۔ میں نے خود سے کئی بار یہ تاویل کی ہے کہ اگر اسلامی مملکت نہیں بننا تھا تو پاکستان بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ سو قرارداد مقاصد بھی قرارداد پاکستان کی اضافی شق ہی تھی۔ مگر کیا پاکستان کے قیام کا مقصد یہ نہ تھا کہ اقلیت کو اکثریت کے ظلم کا نشانہ بننے سے بچایا جائے؟۔۔ ایسا کوئی قانون نہ ہو جو مسلم اقلیت کو خوف میں مبتلا کر دے۔ تو پھر اکثریت بنتے ہی ہم خود ظالم کیوں بن بیٹھے؟۔ یعنی جیسے اسرائیل بنا تھا کہ یہودی ہولوکاسٹ کے بعد تحفظ حاصل کریں اور یہ تحفظ ملتے ہی انھوں نے فلسطینیوں کا ہولوکاسٹ شروع کر دیا۔

سوچتا ہوں کہ ایک مسلم اکثریتی ملک میں آخر اس قرارداد کی غیر موجودگی میں کون سا ایسا قانون بن جاتا جو اسلامی اصولوں کے منافی ہوتا۔ ہاں مگر شاید اقلیتوں کو اپنی حب وطنی ثابت کرنے کے لیے کئی نوٹنکیاں نہ کرنی پڑتیں۔ یہ موضوع ایسا ہے کہ مجھ کم علم کا زیادہ کچھ کہنا فقط ٹامک ٹوئیاں مارنا ہی ہو گا، سو آئیے دبنگ مسلم سیاستدان مولانا حسرت موہانی کے الفاظ پر غور کریں۔ احمد بشیر صاحب اور ان کے درمیان یوں تبادلہ خیال ہوا۔۔

“لیاقت پاکستان سے دھوکہ کر رہا ہے۔ یہ جاگیریں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر مولانا اس میں پاکستان پر اللہ کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے اور اس پر اعتراض بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک۔۔ مگر یہ خارجیوں کا نعرہ ہے۔ وہ قبائلی تھے اور کوئی خودکار ریاستی ڈھانچہ نہ چاہتے تھے۔ اپنی سرداریاں قائم رکھنے کے لیے اللہ کی حاکمیت کا سہارا لیتے تھے۔ اگر اس ارفع نظریے کو اس دور میں رہنما اصول بنائیں تو بے ایمانی ہے۔ یہ اصول زبان و مکاں کی قید سے ماورا ہے جبکہ دستور زبان و مکان کا پابند ہوتا ہے۔ جانتے ہو لاحکم الا اللہ کے جواب میں حضرت علی(ر) نے کیا کہا تھا؟ یہ حق ہے جسے باطل کے استحکام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جناح زندہ ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ لیاقت زمینداروں اور مولویوں کی مدد سے حکومت کرنا چاہتا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری مسلمانی اور سیاسی بصیرت دونوں ہی حضرت موہانی کے سورج کے سامنے چراغ ہیں۔ میں تو بس اتنا کہوں گا کہ قرارداد مقاصد پاس ہوئی اور آئین کا حصہ بھی بن گئی۔ سالوں بعد بھی معاشرہ اسلامی بن سکا یا نہیں، جاگیریں محفوظ اور اقلیتیں غیر محفوظ ہو گئیں!!

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قرارداد مقاصد کا بھوت۔۔۔ انعام رانا

Leave a Reply