لڑکیاں املی کیوں کھاتی ہیں؟ ۔۔۔ انعام رانا

یہ سوال میں نے کئی لڑکیوں سے پوچھا جن سے واقفیت تھی۔ کچھ ناراض ہوئیں، کچھ بس مسکرا دیں تو کچھ نے کہا بس ہمیں پسند ہے، مزہ آتا ہے۔ جو کچھ زرا زیادہ دوست تھیں انھوں نے بیباک جواب دیا کہ سینے کی افزائش کیلئیے اچھی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے آپ حیران ہوں کہ یہ یکدم مجھے کیا سوجھی یا یہ کس قسم کا سوال ہوا۔ لیکن کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ کیوں املی لڑکیوں کا من بھاتا کھاجا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔

جی ہاں درست جواب یہ ہی ہے کہ لڑکیاں املی بہت شوق سے کھاتی ہیں کیونکہ عام تاثر ہے کہ یہ انکے سینے کی افزائش کیلئیے مددگار ہے۔ آپ اکثر نوعمر لڑکیوں کو بہت چٹخارے لے لے کر املی کھاتے دیکھیں گے، کئی کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں کھا رہی ہیں، بس یہ روایت بن گئی ہے کہ نوعمر لڑکیوں کو املی کھانی ہے۔ والدہ، بڑی بہن یا کوئی سہیلی املی کھانے کی جانب راغب کرتی ہے اور اب تو شاید یہ جینز میں آ چکی ہو تو فطری رغبت بھی بن چکی ہو شاید۔

بچپن سے ہمارے معاشرے میں لڑکی کی “ذہنی و جسمانی افزائش” فقط اسکا رشتہ مدنظر رکھ کر ہوتی ہے۔ اسکی تعلیم کا معیار، اسکے اٹھنے بیٹھنے کا انداز، اسکے بالوں کی سیاہی اور لمبائی، اسکی جلد کی ملائمت، اسکے مختلف اعضا کا سائز ایک “کنٹرولڈ افزائش” کا نشانہ ہے۔ وہ بطور انسان کیسی ہے، اسکی ذہانت کا عالم کیا ہے، وہ سماج کیلئیے کس قدر مفید ہے یہ ثانوی ہے۔ اسکے اعضا اسکی تعلیم پر بھاری ہیں۔ سچ بولئیے کہ کیا یہ سماج کے منہ پہ اک تھپڑ نہیں؟

یقینا لڑکی کے ماں باپ یا لڑکی کافی حد تک مجبور ہیں۔ آپکو رشتہ کرتے وقت اکثر یہ جملے سننے کو ملیں گے کہ کڑی کا قد چھوٹا ہے یا بہت لمبا ہے، موٹی ہے یا بہت پتلی ہے، چھاتیاں چھوٹی ہیں یا بہت بڑی ہیں۔ اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ جملے اکثر آپکو خواتین ہی کے منہ سے سننے کو ملیں گے۔ وہی ماں جو اپنی بیٹی کو املی کھلانے پر مجبور ہے، بہو دھونڈنے جائے تو چھاتی کا سائز ذہن میں رکھ کر جاتی ہے۔ نتیجتا، بہت سی ڈاکٹرز، وکیل، بینکر اور دیگر ذہین، اچھی خواتین فقط اس لئیے کنواری ہیں کہ وہ نسوانی حسن کے اس معیار پہ پورا نہیں اترتیں جو اس سماج نے بنا رکھا ہے۔

فیشن انڈسٹری ہو، حکیم، کاسمیٹک سرجری یا ٹوٹکے، ان سب کا کاروبار اسی ذہنیت نے چلا رکھا ہے۔ پوری دنیا میں عورتیں سینہ، سرین، ناک یا ہونٹ ایک غیر حقیقی ی غیر مرئی معیار پہ لانے کی تگ و دو میں لگی ہیں اور جیبیں خالی ہو رہی ہیں۔ ذہانت نفسیاتی مریض بن جاتی ہے اور “جسم” تمام عمر اس معیار کو برقرار رکھنے کی کوشش میں جتا رہتا ہے جسکی بنیاد پہ اسکا رشتہ ہوا تھا۔

گو تحریر کا بنیادی مضمون عورت ہے مگر مرد بھی کم مظلوم نہیں۔ “لڑکا گنجا ہے” ایک عام جملہ ہے جو رشتوں کے دوران سننے کو ملے گا۔ مرد کو اپنے بال، قد، وجود کے طعنے اتنے ہی سننے پڑتے ہیں جتنا کہ اک لڑکی کو اور اس پہ مستزاد اسے دولت مند بھی ہونا چاہیے اور جنسی طور پہ اتنا طاقتور بھی کہ ایک پلاسٹک کی گڑیا کی مانند جامد بیوی سے حق زوجیت ادا کر سکتا ہو۔ سو مظلوم اس سماج میں مرد اور عورت دونوں ہی ہیں۔ بس مرد کو کمانے کی اہلیت ہونے کی وجہ سے کچھ سبقت حاصل ہو جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صاحبو، جو شادی شدہ ہو چکے انکی تو خیر قسمت۔ لیکن جو ابھی کنوارے اور کنواریاں ہیں، آئیے تہیہ کریں کہ ہم اپنے جیون ساتھی کا انتخاب اسکے اعضا کے سائز کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اسکے ساتھ ذہنی ہم آہنگی یا ممکنہ ذہنی ہم آہنگی کی بنیاد پہ کریں گے۔ تاکہ جب کچھ دنوں بعد “ہارمونز کی آندھی” تھم جائے تو وہ جیون ساتھی تب بھی ہمیں پیارا لگے اور واقعی جیون ساتھی محسوس ہو۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”لڑکیاں املی کیوں کھاتی ہیں؟ ۔۔۔ انعام رانا

  1. بہت اعلی تحریر ہمارے معاشرے کے ناصور جن پر غیرت کا پردہ اور جہالت کی تہ در تہ خاک جمی ہوئی ہے آپ کی تحریریں اُن کے لئیے جھاڑو کاکام کرتی ہیں شکریہ لکھتے رہیے صفائی ایک دن ہو ہی جائے گی?

Leave a Reply to Fayyaz Bhatti Cancel reply