سرگودھا درگاہ پہ 20 انسانوں کا قتل اور ریاستی ذمہ داریاں

سرگودھا درگاہ پہ 20 انسانوں کا قتل اور ریاستی ذمہ داریاں
طاہر یاسین طاہر
گذشتہ سے پیوستہ روز صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا کے نواحی گاؤں میں قائم درگاہ کےمتولی نے اپنے چاررساتھیوں کی مدد سے اپنے 20 مریدوں کو لاٹھی، چاقو اور خنجر کے وار سے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 20 افراد ہلاک اور چار افراد زخمی ہوگئے۔ سرگودھا کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی)کے مطابق واقعے کی اطلاع ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا میں آنے والی ایک زخمی خاتون نے دی تھی، ان کا کہنا تھا یہ خاتون ان دیگر 3 زخمی افراد میں شامل تھیں جو درگاہ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ واقعہ سرگودھا کے نواحی علاقے چک نمبر 95 شمالی میں موجود ایک درگاہ پر پیش آیا۔پولیس کے مطابق واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری درگارہ پہنچی اور درگاہ کے متولی عبدالوحید کو اس کے 4 ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا جبکہ 19 افراد کی لاشیں برآمد کرکے انھیں اور کچھ زخمیوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ریجنل پولیس چیف ذوالفقار حمید نے غیرملکی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دگارہ کے متولی 50 سالہ عبدالوحید نے مریدوں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے جبکہ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ انھیں شک تھا کہ وہ مجھے مارنے آئے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ،ملزم جنونی اور نفسیاتی ہوسکتے ہیں یا یہ معاملہ درگاہ کے کنٹرول کا بھی ہوسکتا ہے۔واقعے کی ابتدائی تفتیش کے مطابق درگاہ علی محمد گجر 2 سال قبل آبادی سے دور تعمیر کی گئی تھی، اور ابتدائی تحقیقات میں واقعے میں گدی نشینی کے تنازع کا پہلو نظر نہیں آتا ہے۔خیال رہے کہ مذکورہ درگاہ پر دو گروپوں کے درمیان گدی نشینی کے معاملے پر کچھ عرصے سے تنازع بھی چل رہا تھا۔ ڈی سی سرگودھا نے میڈیا کو بتایا کہ دو سال قبل ہی سے لاہور کے رہائشی اور خود کو درگاہ کا موجودہ متولی کہلوانے والے عبدالوحید نے یہاں آکر درگاہ سے منسلک لوگوں کو درس دینے کا آغاز کیا تھا۔جس کے بعد اس کے عقیدت مندوں میں اضافہ ہوتا رہا۔
ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ عبدالوحید کی ذہنی حالت درست معلوم نہیں ہوتی اور اطلاعات کے مطابق وہ درگاہ پر آنے والے اکثر مریدوں کو تشدد کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔ڈی سی سرگودھا کے مطابق زخمی خاتون نے پولیس کو بتایا تھا کہ متولی نے گذشتہ روز سے اپنے مریدوں کو بلا کر قتل کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ملزم اپنے مریدوں کو فون کرکے بلاتا تھا اور ایک ایک کرکے ان کو کمرے میں بلا کر قتل کرتا رہا۔ڈی سی سرگودھا کے مطابق عبدالوحید مریدین کو نشہ آور جوس پلا کر بےہوش کرتا اور پھر انھیں برہنہ کرکے لاٹھی اور چاقو کے وار سے ان کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجاتے اور بعد ازاں ان کی لاشوں کو ایک کمرے میں جمع کرتا رہا۔
دریں اثنا پنجاب حکومت کے ترجمان اور صوبائی وزیر برائے اوقاف زعیم قادری نے دعویٰ کیا ہے کہ سرگودھا کی درگاہ میں 20 افراد کے قتل کا واقعہ خالصتاً ذاتی دشمنی پر مبنی تھا۔زعیم قادری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی انکوائری رپورٹ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو روانہ کی جاچکی ہے۔انھوں نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق درگاہ پر 2 گروپ اپنا قبضہ جمائے رکھنا چاہتے تھے، جبکہ متولی نے نہ صرف جانشین بلکہ معاملہ نمٹانے کے لیے آنے والے دیگر افراد کو بھی قتل کردیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے سرگودھا کی مذکورہ درگاہ کو محکمہ اوقاف کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس درگاہ کے علاوہ علاقے کی دیگر درگاہوں اور مزارات کو بھی محکمہ اوقاف کے حوالے کردیا جائے گا۔
ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ مذکورہ واقعہ بربریت،جاہلیت اور اندھی عقیدت کے اشتراک کا عملی نمونہ ہے۔یہ بات عام مشاہدے کی ہے کہ لوگوں کو برداشت،تحمل اور قربانی کا درس دینے والے گدی نشین اپنے جانشینوں میں یہ جذبہ پیدا نہیں کر سکتے۔اور کسی بھی چھوٹے بڑے دربار کے گدی نشین یا سجادہ نشین کی وفات کے بعد ان کے بیٹے،بھتیجے یا دیگر اقارب گدی نشینی کے لیے ایک دوسرے کے رقیب بن جاتے ہیں۔وجہ صاٖ ف ظاہر ہے، اس میں نہ دین کی خدمت کا جذبہ کارفرما ہے اور نہ ہی انسانیت کی فلاح کاکوئی پہلو، ان کے پیش نظر ہوتا ہے بلکہ ان کا واحد ہدف مریدیں کی نیازوں اور چڑھاووں پہ ہاتھ صاف کرنا ہوتا ہے۔
ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ بحثیت مجموعی ہم توہم پرست معاشرے کا حصہ ہیں۔اس امر میں شک نہیں کہ بر صغیر میں اولیا اللہ کی زبردست دینی خدمات ہیں۔لوگ آج بھی اولیا اللہ کے مزارات پہ جا کر روحانی سکون حاصل کرتے ہیں اور اپنی مرادیں پاتے ہیں ،ہم مگر ان شعبدہ بازوں کی بات کر رہے ہیں جو درباروں میں نشہ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس بری عادت کی ترغیب دیتے ہیں۔یہاں ریاست سے بھی کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ہم سمجھتےہیں کہ تمام چھوٹی بڑی درباروں کو محکمہ اوقاف کے حوالے کر دیا جائے ۔ سرگودھا واقعہ پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ مگر یہ سچ ہے کہ سرگودھا میں اکٹھے 20 افراد مار دیے گئے ،لیکن میرے ملک میں کئی پیر خانے اور عاملوں کے ڈیرے ایسے موجود ہیں جہاں ایک ایک کر کے لوگوں کی انا اور آبرو کو قتل کیا جاتا ہے۔ ریاست ان جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف بھی کارروائی کرےاورسرگودھا واقعے کے ذمہ داروں سمیت اس واقعے کے اصل اسباب کو بھی سامنے لائے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply