ٹرمپ کی تجارتی جنگ اور چین۔۔عمیر فاروق

ٹرمپ نے ان دنوں تجارتی جنگ کا اعلان کرتے ہوئے ٹیرف کی کچھ پابندیاں عائد کیں جن پہ شور و غوغا جاری ہے۔ لیکن مجھے یہ کہنے میں ذرا تعامل نہیں کہ ، حتی کہ یہ پابندیاں بھی غلط رخ پہ ہیں اس نوع کی پابندیوں کے نتیجے  میں امریکہ دوسرا جاپان تو نہیں بلکہ دوسرا برازیل بنتا نظر آتا ہے جس کی معیشت مستقبل میں نیم تیار خام مال کی برآمد پہ انحصار کرے گی۔ ان پابندیوں کے نتائج بھی یہی بتا رہے ہیں۔ سٹیل اور ایلومونیم کی درآمد پہ ٹیرف عائد کرنے کے نتیجے  میں سٹاک مارکیٹ میں جہاں ان دونوں کے شیئرز میں اضافہ ہوا ہے وہیں آٹوموبائیل اور ہائی ٹیک انڈسٹری کے شیئرز گرے ہیں۔
اگر تجاری جنگ ہی مقصود تھی تو ایسے اقدامات اٹھائے جاتے جن کے نتیجے  میں ہائی ٹیک انڈسٹری کو فروغ ملتا نہ کہ مزید نقصان۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اعلان تو چین کے بارے میں کیا گیا لیکن چین اپنی سٹیل کی پیداوار کا صرف ایک فیصد امریکہ کو برآمد کرتا ہے جبکہ کینیڈا، برازیل اور یورپی یونین اپنی پیداوار کا دس سے پندرہ فیصد امریکہ کو برآمد کرتے ہیں اسی لئے ان کی طرف سے سخت ردعمل بھی آیا ہے۔ ان تمام مسائل کے پیچھے امریکی مینوفیکچرنگ کا بحران موجود ہے۔ مینوفیکچرنگ امریکہ سے تقریباً ختم ہوچکی ہے۔
سن ۲۰۰۰ وہ اہم ترین سال تھا جب امریکہ نے چین کو ڈبلیو ٹی او پر دستخط پہ آمادہ کیا ۔یوں چین اور امریکہ کے درمیان فری ٹریڈ کا آغاز ہوا۔ تب جو توقعات باندھی گئی تھیں وہ سب خام خیالی ثابت ہوئی عملاً یہ ہوا کہ مینوفیکچرنگ اور انڈسٹری ساری کی ساری چین شفٹ کرگئی۔ امریکی فرمیں پہلے ہی یورپ اور جاپان سے مسابقت کے باعث پریشان تھیں چھوٹی فرموں کے پاس تو کوئی چارہ ہی نہ تھا، سوائے اس کے کہ ساری کی ساری فیکٹریاں ہی چین منتقل کردیں۔ جنرل الیکٹریک جیسی بڑی فرموں نے بھی صرف جیٹ انجن اور نیوکلیئر پاورپلانٹ کی مینوفیکچرنگ امریکہ میں رکھ کے باقی سب چین منتقل کردیا۔
سن ۲۰۰۰ کے وقت پوزیشن یہ تھی کہ عالمی ہائی ٹیک انڈسٹری میں امریکہ کا حصہ 19 فیصد اور چین کا 3 فیصد کے قریب تھا اور اب یہ پوزیشن ہے کہ امریکہ کا حصہ ایک فیصد اور چین کا حصہ 25 فیصد کے قریب جاپہنچا ہے اور یہ فرق دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ایپل جیسی کامیاب امریکی فرم کا صرف ہیڈکوارٹر اور ڈیزائننگ ہی امریکہ میں ہے اس کی مینوفیکچرنگ تمام کی تمام چین، کوریا تائیوان میں ہورہی ہے۔ بہت سی اہم ٹیکنالوجیز جو امریکہ میں ہی وضع کی گئی تھیں کی بنیاد پہ کام کرنے والی ایک بھی امریکی فرم موجود نہیں ہے۔
۲۰۰۸ کے معاشی بحران کے بعد چین کے لئے ایک سنہری موقع تھا اس نے باقاعدہ ٹارگٹ کرکے ایسی امریکی فرموں کو خریدا یا ان سے ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے معاہدے کئے جن کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی تھی لیکن وہ مالی مشکلات کا شکار ہوچکی تھیں۔ یہی وہ وقت تھا جب اس نے ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ہر امریکی اجارہ داری کو توڑ دیا۔ امریکہ کے لئے خطرہ اس وقت ایک نئی سرحد کو چھوتا نظر آتا ہے اور وہ ہے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا۔
اس شعبہ پہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے امریکی اجارہ داری اتنی مستحکم تھی کہ ہم لوگ اس کے عادی ہوچکے تھے۔ یہ کہا جاتا تھا کہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور ریسرچ پہ صرف امریکہ کی اجارہ داری ہے اور باقی دنیا اس کی سیکنڈ ہینڈ شکل پہ گزارا کرتی ہے۔ لیکن اب یہ بھی خطرے سے دوچار ہے۔ اس امریکی اجارہ داری کی وجہ ریسرچ کا امریکی ماڈل تھا جس کی دنیا مثال نہیں پیش کرسکتی تھی۔ یہ عظیم الجثہ امریکی ریسرچ لیبارٹریز تھی جن میں  بیل لیبارٹریز، اے ٹی اینڈ ٹی، آئی بی ایم اور آر سی اے جیسی لیبارٹریز  تھیں جن میں مختلف سائنسز کے ماہرین مل کر لانگ ٹرم ریسرچ کیا کرتے تھے اور بنیادی سائنس سے براہ راست نئی ٹیکنالوجیز وضع کرتے تھے۔ آج بھی کمپیوٹنگ، لیزر اور مائیکرو الیکٹرانکس کی صنعتیں ان ٹیکنالوجیز پہ انحصار کررہی ہیں جو ان لیبارٹریز نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں وضع کی تھیں۔ ان پہ فرموں کے روایتی انجنیئرنگ ڈویژن کی طرح وقت اور سرمائے کے محدود ہونے کا دباؤ نہیں ہوتا تھا۔ یہ ماڈل نوے کی دہائی میں ٹوٹنا شروع ہوگیا جب یہ لیبارٹریز یکے بعد دیگرے معاشی مسائل کا شکار ہوتی گئیں اور بند ہوتی گئیں۔ ان کو بچانے کے لئے امریکی حکومت کی طرف سے کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو اس کے سائنسدانوں نے یونیورسٹی کی پروفیسر شپ اختیار کرلی۔
تب امریکہ میں بھی وہی ماڈل سامنے آیا جو باقی دنیا میں موجود تھا یعنی مختلف انڈسٹریل فرمیں اپنی ضرورت کی ٹیکنالوجی کو وضع کرنے کے لئے ان یونیورسٹیز کو ریسرچ گرانٹ دیتی تھیں۔ لیکن اس ماڈل میں وقت اور سرمایہ دونوں ہی محدود ہوتے ہیں۔ اب ایک نیا خطرہ موجود ہے کہ وہ انڈسٹریل فرمیں ہی ختم ہورہی ہیں جو ٹیکنالوجی پہ ریسرچ کے لئے سرمایہ کاری کریں۔
یہ صورت حال کتنی گھمبیر ہے اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ پچھلے دنوں امریکی محکمہ دفاع نے دو نئی دفاعی ٹیکنالوجیز پہ ریسرچ کے پراجیکٹس کی منظوری دی لیکن یہ کام درمیان میں ہی ترک کرنا پڑا جس کی وجہ یہ تھی کہ ان ٹیکنالوجیز پہ مشتمل پروڈکشن کے لئے امریکہ میں کوئی مائیکرو انجنیئرنگ فرم ہی موجود نہ تھی جو واحد فرمیں اس سے متعلق تھیں ان کا تعلق چین یا کوریا سے تھا ۔اس طرح پروڈکشن کے لئے ان ممالک پہ انحصار کرنا پڑتا تو یہ ٹیکنالوجی مفت میں ان ممالک کے ہتھے چڑھ جاتی سو پراجیکٹس ہی ترک کردیے گئے۔ اسی طرح یہ ۲۰۰۸ کی بات ہے جب چین نے بوئنگ سے کمرشل ایئرلائنرز کی ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور مینوفیکچرنگ کا معاہدہ کیا۔
اس کے بعد چونکہ کمرشل ایئر لائنرز کی پروڈکشن چین میں باقی دنیا سے زیادہ ہے تو ریسرچ بھی وہیں سب سے زیادہ ہورہی ہے۔
جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسی ہفتے جرمن ایئر بس نے چین سے کمرشل جیٹ انجن کی نئی ٹیکنالوجی کی خرید کا معاہدہ کیا ہے۔ یعنی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا بہاؤ جو دس سال قبل تک مغرب سے چین کی جانب تھا ابھی سے یہ بہاؤ الٹ رخ یعنی چین سے مغرب کی طرف ہونا شروع ہوگیا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ٹرمپ جن دعوؤں  اور وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آیا اس کے بعد میں اسے بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا کہ اگر وہ اپنے وعدے پورے کرنے میں سنجیدہ ہے تو یہ امریکہ کے ساتھ باقی دنیا کے لئے بھی اچھی خبر ہوگی۔ لیکن وہ مایوس کررہا ہے۔
آنے والا وقت اپنے جلو میں ڈرامائی تبدیلیاں لیکر آرہا ہے اور یہ تبدیلیاں ہمارے اندازے سے زیادہ قریب پہنچ چکی ہیں طاقت کا توازن ایشیا منتقل ہورہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان تبدیلیوں کے لئے تیار ہیں؟؟

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply