کئی چاند تھے سرِ آسماں (ایک جائزہ)

کئی چاند تھے سر آسمان (ناول از شمس الرحمن فاروقی)
کچھ عرصہ قبل میں نے اردو کے کلاسیک ناولوں کی ایک فہرست احباب کے سامنے پیش کی تھی اور اس فہرست میں اضافہ کے لیے سب احباب سے اپنی پسند کے مطابق گزارش کی تھی۔ اسی دوران شمس الرحمن فاروقی کے اس ناول کا بھی کافی تذکرہ ہوا جس سے مجھے تحریک ملی اور اس کو پڑھنا شروع کیا تو اس قدر محو ہوا کہ پڑھتا ہی چلا گیا۔ احباب کے ساتھ تاثرات بانٹ رہا ہوں۔ امید ہے کہ پسند آئیں گے۔۔ خیر اندیش، ایم اکرام الحق!
شمس الرحمن فاروقی ہی کئی چاند تھے سرِ آسماں جیسا بیانیہ لکھ سکتے تھے ، جو نہ صرف بے عیب ہے بلکہ نہایت تفصیل کے ساتھ اور لطافت سے گھڑا گیاہے۔ فاروقی نے مگر مچھوں کے اس تالاب میں گہرا اور پراعتماد غوطہ لگا کر، جسے ہم میں سے اکثر انیسویں صدی کی دلی کے شب و روز سمجھتے ہیں، ہمیں ایک ایسی کہانی عطا کی ہے جو 1857 کی جنگ آزادی سے کچھ پہلے کی دہائیوں کی ہو بہو عکاسی کرتی ہے۔اس میں مرکزی کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو اپنی جائے پیدائش دلی کی مانند توجہ انگیز اور ترغیب آمیز حسن کی مالک، دل موہ لینے والی سرکشی کی حامل،بے ساختہ رجھانے والی، غم کی ماری بدقسمت عورت ہے۔یہ ناول ہماری اجتماعی زندگی کے المیے کو سامنے لانے اور حقیقی بنانے کی یادگار کوشش کرتا ہے۔اس ناول کے ذریعے ہم اس سب سے کہیں بڑھ کر وہ کچھ جاننے لگتے ہیں جسے اب تک محض جاننے کے قابل سمجھا گیا تھا، ان چیزوں سے مختلف چیزیں یاد کرنے لگتے ہیں جنہیں محض یاد رکھنے کے قابل قرار دیا گیا تھا اوراس شےء کا تعاقب کرنے لگتے ہیں اور اس کا مطالعہ کرنے لگتے ہیں جس کی تھاہ لانا تو کیا، خبر پانا بھی محال سمجھا جاتا رہا تھا۔ شمس الرحمن فاروقی نے غالب اور داغ کی دلی کی تہذیب و معاشرت نیز روز مرہ، رہن سہن،آلات حرب، طرز زندگی کو فنکارانہ انداز میں اسی عہد کی زبان میں کاغذ پر اتار دیا ہے۔ مرزا رسوا نے اس عہد کو پیش کیا ہے جس عہد میں وہ خود سانس لے ہے تھے جب کہ فاروقی نے زائد از ایک صدی قبل کے عہد کو اسی کی زبان میں پیش کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ناول فاروقی صاحب کی عمر بھر کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ اس میں برصغیر کا کلچر اور کردار دکھائے گئے ہیں۔ ناول میں غالب کا سراپا پڑھنے کے قابل ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ ناول انیسویں صدی سے بھی بہت پہلے سے شروع ہو کر سال 1856میں ختم ہوتا ہے۔ اس پورے عرصے کا بیان ہمیں ایسی دنیا کی سیر کراتا ہے جو معاشرتی اور تہذیبی لحاظ سے بے حد معمور ہے۔ یہاں کی زندگی اور اس کی اقدار نہایت مستحکم اور توانا ہیں۔ ہر طرف زندگی کی چہل پہل اور تحرک نظر آتا ہے۔ یہ دنیا ایسی ہے جس پر کوئی بھی عہد فخر کر سکتا ہے۔ یہاں کی ادبی تہذیب بھی پوری تابناکی کے ساتھ جلوہ گر ہے اور دنیا کی دوسری بڑی تہذیبوں سے خود کو کم نہیں سمجھتی۔ لیکن پھر زمانے کی بساط الٹتی ہے اور سماں بدل جاتا ہے۔مختلف علوم و فنون کا بیان ان کی مکمل تفصیلات اور تمام باریکیوں کے ساتھ ناول کے صفحات پر دیکھا جا سکتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ مصنف کی معلومات اور مشاہدات کی وسعت کہاں تک ہے۔ عام اور معمولی چیزوں کے بارے میں بھی یہاں جس تفصیل سے کام لیا گیا ہے وہ بلا شبہ دیدنی ہے۔بنی ٹھنی کی تصویر کا بیان ہو،کشمیر کے مختلف مقامات کا ذکر ہو، گھریلو ساز و سامان، کھانا پینا، لباس و پوشاک، عادات و اطوار، ان تمام کے بارے میں حد درجہ باریک بینی سے کام لے کر انہیں ہمارے سامنے آئینہ کر دیا گیا ہے۔ بنی ٹھنی کی تصویر کے بیان میں مصنف نے غیر معمولی باریک بینی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ یہ ناول ظاہری سطح پر محبت کی ایسی داستان ہے جس میں کامیابی اور نا کامی و محرومی ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن اس کی تہ میں ایسی حقیقتیں بھی پوشیدہ ہیں جو انیسویں صدی کے ہندوستان کی تاریخی، سیاسی اور تہذیبی صورت حال کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں۔ اس زمانے میں ہندوستانیوں کے ساتھ انگریزوں کا رویہ کیا تھا اور انگریز حکام اپنی طاقت کو روز بروز مزید مستحکم کرنے کے لیے کیا کیا حکمت عملی اختیار کر رہے تھے، اس کی طرف بھی بہت سے اشارے ناول میں موجود ہیں۔ولیم فریزر کا قتل ناول کے آہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان خاص کر دہلی کی معاشرتی اور سیاسی صورت حال پر کیا اثرات مرتب ہوئے، اس کا اندازہ بھی ناول سے ہوتا ہے۔ ناول میں ہندوستان کا ۱۸۱۱ سے لے کر ۱۸۵۶ تک کا عہد بیان کیا گیا ہے ۔ ناول کا مرکزی کردار وزیر خانم (پیدائش ۱۸۱۱) ہیں جو مشہور اردو شاعر نواب مرزا خان داغ دہلوی کی والدہ محترمہ تھیں لیکن وزیر خانم کے اجداد دلی کے نہیں تھے بلکہ راجھستان کے گاؤں ہندالولی (ہند الولی شیخ معین الدین چشتی کے نام سے موسوم ) گاؤں کے چتیرے (مصور) تھے ۔ شو مئی قسمت کہ ان کے جد امجد میاں مخصوص اللہ نے ایک خیالی تصویر بنائی اورکشن گڑھ کے راجہ کی گاؤں میں آمد کی خوشی اور اپنے فن کے اظہار کے لیئے faruqis-novelآویزاں کر دی لیکن اتفاقاً تصویر ہو بہو راجہ کی بیٹی سے ملتی تھی ۔ راجہ نے تصویر دیکھ کر اپنی بیٹی کو اس تصویر کے نیچے اس شبہ میں قتل کر دیا کہ اس نے شاید پاؤں گھر سے باہر نکال کر خاندان کی آن اور شان کو بٹہ لگایا ہے۔ راجہ کے حکم سے میاں مخصوص اللہ کا گھرانہ جلاوطن ہو کر کشمیر آ گیا ۔ وہاں انہوں نے لکڑی پر نقاشی کا کام سیکھا لیکن اس میں دل نہ لگا تو قالین بافی کی تربیت جسے “تعلیم ” کہتے تھے دس سال لگا کر سیکھی حتی کہ اس ہنر کے امام کہلائے لیکن راجھستانی چتر کاری کی چاہ ہمیشہ ان کے دل میں کسی شوریدہ ندی کی طرح سر مارتی رہی تھی ۔ آخر ایک دن وہ اپنی ایک پرانی تصویر جس کا نام “بنی ٹھنی ” تھا کو ہاتھ میں لیئے جنگل میں جا بیٹھے اور محویت کے عالم میں سردی سے فوت ہو گئے ۔ ان کے تین بیٹے تھے ، داؤد یعقوب اور یحیی ۔ یحیی تو فوت ہو گئے لیکن بقیہ دو کے دل میں اپنے پرانے وطن کی محبت جوش مارنے لگی تو وہ سب کچھ بیچ باچ عازم راجھستان ہوئے اور وہاں دو یتیم لڑکیوں سے شادی کر کے فرخ آباد میں جا آباد ہو گئے اور کپڑوں پر قلم کاری کا کام کر کے روزی کمانے لگےاور ان کا ایک بیٹا محمد یوسف پیدا ہوا۔ ان دنوں دلی پر مرہٹوں کا قبضہ تھا ۔ انگریزوں نے فرخ آباد کے نواب مظفر جنگ پر فوجی دباؤ ڈالا تو وہ ایک لاکھ روپے پنشن کے عوض فرخ آباد سے دستبردار ہو گئے ۔ فرخ آباد سے گزر کر اب انگریز دلی پر قبضہ جمانے کی کوشش کرہے تھے ۔ داؤد اور یعقوب اپنے خاندان کے ہمراہ دولت حاصل کرنے کے لالچ لے کر انگریزی لشکر میں بطور سوداگر شامل ہو گئے ۔ جب انگریزوں نے مرہٹوں کو دہلی سے نکالنے کے واسطے ۱۸۰۳ میں حملہ کیا تو مرہٹوں کی جوابی گولہ باری میں سوائے محمد یوسف کے خاندان کے باقی افراد مارے گئے ۔ انگریزی فتح کے بعد محمد یوسف کی پرورش لشکر میں شامل ایک ڈیرہ دار طوائف اکبری نے کی جو دلی مقیم ہو گئی تھی ۔ اکبری نے محمد یوسف کی شادی اپنی بیٹی اصغری سے کر دی اور یوں محمد یوسف سادہ کاری کا پیشہ اختیار کر کے اپنے علیحدہ گھر میں رہنے لگے ۔ محمد یوسف کے ہاں تین بیٹیاں ہوئیں ، انوری خانم عرف بڑی بیگم ، عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم اور وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم ۔ یہی چھوٹی بیگم اس ناول کی ہیروئن ہیں ۔ بڑی بیگم کی شادی مولوی نظیر صاحب سے ہوئی اور منجھلی بیگم نے رام پور کے شہزادے کے نواب یوسف علی خان کی ملازمت اختیار کی ۔ البتہ وزیر خانم کے خواب بہت اونچے تھے اور اپنے حسن کا احساس بھی تھا ۔ وزیر جب پندرہ برس کی تھیں تو ان کی والدہ اصغری اچانک بیمار پڑیں اور وفات پا گئیں ۔ وزیر خانم اپنے والد کے ہمراہ نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دے کر بہل میں واپس آ رہی تھیں کہ اچانک ایک ویرانے میں آندھی آ گئی اور بہل کا دھرا ٹوٹ گیا ۔ اس ویرانے اور آندھی کے عالم میں پولیٹیکل سروس کا ملازم ایک انگریز مارسٹن بلیک اپنے نوکروں کے ہمراہ سرراہ مل گیا اور انہیں بحفاظت ان کے گھر پہنچایا ۔ وزیر خانم اور مارسٹن بلیک کی آشنائی بڑھی تو وزیر خانم اپنے والد سے ضد کر کے بلیک کے ہمراہ جے پور آ گئی جہاں بلیک اسسٹنٹ پولیٹیکل آفسر تھا ۔ اس وقت وزیر خانم کی زندگی عیش و عشرت سے معمور تھی ، عالی شان گھر ، اٹھاون نوکر اور روپے پیسے کی فراوانی کے علاوہ بلیک وزیر خانم سے شادی رچانے کا بھی وعدہ کر چکا تھا۔ پولیٹیکل افسر جب چھٹی گئے تو بلیک قائم مقام بنا ، انہیں دنوں مقامی راجہ کی وفات ہوئی اورراجہ کی جانشینی کے مسئلے مارسٹن بلیک رعایا کے ہاتھوں قتل ہو گیا ۔ کمپنی نے وزیر خانم کو بلیک کی جائز منکوحہ ماننے سے انکار کر دیا ، بلیک کے بہن بھائیوں نے وزیر سے اس کے بچے مارٹن اور صوفیہ لے لیئے اور اس کے عوض اسے کچھ سامان اپنے ہمراہ لے جانے کی اجازت دے دی ۔ وزیر واپس دلی پہنچ کر بیوگی کے دن کاٹنے لگی اس وقت اس کی عمر انیس سال کچھ مہینے تھی ۔
نواب یوسف علی خان کی مرضی سے وزیر بیگم دلی کے ریذیڈنٹ ولیم فریز کی کوٹھی پر ایک دعوت میں شریک ہوئی جہاں اس کی ملاقات مرزا غالب ، ولیم فریزر ، کچھ انگریز خواتین اور والئی فیروزپور جھرکہ نواب شمس الدین سے ہوئی ۔ نواب شمس الدین نے ملاقات کے دوسرے ہی دن وزیر کے گھر آ کر تعلق کو بڑھاوا دیا اور کچھ عرصے بعد ۱۸۳۰ میں وزیر نے نواب کی ملازمت اختیار کر لی نواب سے وزیر کے ہاں مرزا داغ دہلوی نے جنم لیا ۔ ولیم فریزر بھی وزیر کو حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن وزیر نے اسے بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا تھا ۔ رنج میں ولیم نے نواب شمس الدین کی سرعام تضحیک کی جس کا بدلہ لینے نواب شمس الدین نے ولیم کی کوٹھی پہنچ کر اسے دھمکانے کی کوشش کی ۔ ولیم نے نواب سے فیروز پور کی ریاست لے لی تو نواب شمس الدین نے ولیم کو اپنے ایک وفادار کے ذریعے قتل کروا دیا ۔ بعد از تفتیش نواب کو پھانسی ہوئی تو وزیر ایک بار پھر بیوہ ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد ۱۸۴۲ وزیر کا نکاح رام پور کے داروغہ فیل خانہ تراب علی سے ہو گیا جس سے ایک بیٹا شاہ محمد آغا پیدا ہوا لیکن تراب علی ہاتھی خریدنے کے سلسلے میں ۱۸۴۴ دوران سفر ٹھگوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے تو وزیر ایک بار پھر بیوہ ہو گئی اور اپنے بیٹے کو لے کر دلی آگئی ۔ یہاں مرحوم نواب شمس الدین کے حریف نواب ضیا الدین نے سلسلہ جنبانی کی کوشش کی لیکن وزیر نے ٹھکرا دیا ۔ بہادر شاہ ظفر بادشاہ کے تیسرے بیٹے مرزا فتح الملک بہادر عرف مرزا فخرو نے وزیر کے حسن کے چرچے سنے تو شاہی چترکار سے کہ کر وزیر کی تصویر بنوائی جو کہ کسی پرانی تصویر کی نقل تھی ۔ تصویر دیکھ کر شہزادہ وارفتہ ہو گیا۔ مرزا فخرو نے بادشاہ سے اجازت لے کر وزیر سے نکاح کر لیا اور یوں وزیر شاہی محل میں آ گئی ۔ لیکن بادشاہ کی نو عمر بیگم زینت محل کو وزیر بیگم اس لیئے پسند نہیں تھیں کہ اپنے بیٹے کو ولی عہد بنانا چاہتی تھیں ۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ پہلے اور دوسرے ولی عہد وفات پا گئے تو ۱۸۵۲ مرزا فخرو ولی عہد بن گئے ۔ زینت محل کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی لیکن مرزا فخرو بھی ۱۸۵۶ کو ہیضہ میں مبتلا ہو کر ملک راہی عدم ہوئے تو زینت محل نے وزیر بیگم اور مرزا داغ کو محل سے نکال دیا اور وہ رام پور چلے گئے ۔
ناول کیا ہے تاریخ کی چادر میں بُنا ہوا انیسویں صدی کی ہند اسلامی ، انسانی اور تہذیبی و ادبی سروکاری کا مرقع ہے ۔ مصنف ہر منظر کو اتنی تفصیل اور وضاحت سے پیش کرتا ہے کہ اس زمانے کا نقشہ آئینہ ہو کر سامنے آ جاتا ہے اور محرم کی مجالس کا احوال ، دربار اور محلات کی سازشیں ، شاعری اور موسیقی کی محفلیں ، شکار اور خاصہ تناول کرنے کے طریقے ، اردو اور فارسی زبان کی نزاکتیں ،ٹھگوں کی کارستانیاں ،یوان حافظ سے فال نکالنا ، امام ضامن باندھنا وغیرہ اور اس زمانے کی اشیاء کے وہ نام جو اس زمانے میں مستعمل تھے یوں بیان ہیں کہ انسان ناول کے کرداروں کے ہمراہ انہیں گلیوں ، حویلیوں ، بازاروں اور درباروں میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے جو اب خس و خاشاک ہو چکے ۔آج کے قاری کی آنکھ میں آپ ان ہندوستانی کرداروں کے لیئے کہیں ستائش اور کہیں تضحیک بآسانی محسوس کریں گے جو شاید انگریز ان کے لیئے محسوس کرتا تھا ۔ مثلا ایک جگہ مسٹر بلیک وزیر بیگم سے کہتا ہے کہ ہندوستانی چور اور جھوٹے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح بادشاہ سلامت نے زبردست کا ٹھینگا سر پر کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرہٹہ سپہ سالار مادھو راؤ سندھیا کو فرزند دلبند ، وکیل مطلق ، مدارالمہام ، عالی جاہ کے خطابات اور نائب السلطنت مقرر کیا ۔ اسی طرح ذرا تھامس مٹکاف ریذیڈنٹ دہلی کو عطا کیئے گئے کے خطابات ملاحظہ فرمائیے ۔ فدوی خاص و فرزند ارجمند سلطانی معظم الدولہ امین الملک اختصاص یار خان ٹامس تھیا فلس مٹکاف صاحب بہادر فیروز جنگ ایجنٹ نواب گورنر جنرل بہادر مختار امور سرکار دولت مدار کمپنی انگریز بہادر و صاحب کمشنر بہادر مال و دائر سائر علاقہ دارالخلافہ شاہجہان آباد ۔
وہ زمانہ ایسا تھا کہ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی تھی ، جس کا بس چلتا تھا جو شے چاہتا تھا اپنے تصرف میں لے آتا تھا ۔محل سے نکلنے کا حکم سن کر وزیر بیگم اپنے بیٹے کے اس اصرار پر کہ وزیر کو اپنے حق کے لیئے ضرور کوشش کرنی چاہئیے تو زہر خند لہجے میں کہتی ہیں ” حق کیا شے ہے صاحب عالم ؟ ساری زندگی حق کی ہی جویا رہی ہوں ، وہ پہاڑوں کی کھوہ میں کہیں ملتا ہو تو ملتا ہو ورنہ اس آسمان تلے تو کہیں نہیں دیکھا گیا ” اس زمانے کے لوگوں کو احساس ضرور تھا کہ گزری ہوئی شان و شوکت اب واپس نہیں آ سکتی اور انگریز کو اس ملک سے نکالنا اب ممکن نہیں ہے ۔نواب شمس الدین کا مقدمے میں طلبی کے سلسلے میں روانگی سے پہلے اپنی بیگم کو جواب ایسے ہوتا ہے “آپ نے شاید اس معاملے کو ٹھیک طرح سے خاطر نشین نہیں کیا ہے ، میں کہیں اور بھی چلا جاؤں تو آپ رحم و کرم پر فرنگی کے ہی رہیں گی سارے ہندوستان جنت نشان پر شیطان کا سایہ ہے ، میں جہاں جاؤں گا یہ سایہ مجھ پر مسلط رہے گا ۔ میں اگر یہاں رہا تو لُٹیرے فرنگیان آج نہیں تو کل چڑھ دوڑیں گے ، لوہارو تو وہ لے ہی چکے ہیں ، فیروزپور مقابلہ ان کا کیا کرے گا ، مگر تابہ کے ؟ ایک دن سپر ڈالنی ہو گی۔ اس دن میں نہ ہوں گا ۔ پھر وہ سلوک بھی آپ لوگوں کے ساتھ نہ ہوگا جو ٹیپو شہید کے گھر والوں کے ساتھ ہوا ”
دلی کی تہذیب کی اہم خصوصیت شاعری کو ذریعہ اظہار بنانا تھا کہ معزز افراد عام گفتگو میں بھی فارسی اور اردو کے اشعار جا بجا ٹانکتے تھے ، ناول کی ہیروئن کی زندگی اگرچہ کشاکش میں گزری لیکن ان کا شعری ذوق بہت بلند تھا ۔ تسلیم اور کورنش۔ :تسلیم ادب کا ایک قرینہ تھا جس میں ملاقاتی ذرا سا جھک کر دایاں ہاتھ زمین پر اس طرح رکھتا کہ ہتھیلی کا رخ اوپر کی طرف رہتا پھر کمر کو سیدھا کرتے ہوئے ہاتھ کو اُٹھا کر سر پر رکھتے تھے ۔ منہ سے کچھ بولنا ممنوع تھا ۔ میزبان اعلی حضرات جواب میں ایک تسلیم اور بعد میں دل پر ہاتھ رکھ کر تسلیم کا جواب دیتے تھے ۔ تسلیم کا رواج عام تھا۔ تسلیم کے برعکس کورنش میں صرف بادشاہ کے لیئے مخصوص تھی اس میں دائیں ہتھیلی کو پیشانی پر رکھتے تھے اور پھر سر کو جھکا لیتے تھے ۔ اردا بیگی (پروٹوکول اسکورٹ) یا قلماقی (خاتون باڈی گارڈ )۔ کی خدمت پر جو عورتیں حویلیوں اور قلعہ میں نوکر رکھی جاتی تھیں وہ عموماً علاقہ سندھ یا کاٹھیاواڑ کی زنگن ہوتی تھیں ۔ نہایت گٹھے ہوئے بدن کی ، بنوٹ ، طمنچہ بازی اور چاقو زنی میں طاق یہ عورتیں بادوی میں بھی ماہر ہوتیں اور نقش قدم اور دوسرے نشانات کی مدد سے مفرور مجرم یا چور کا پتہ لگانے میں بھی بے حد مشاق تھیں ۔ بعض حویلیوں میں ترکنیں بھی رکھی جاتی تھیں ۔ اردا بیگنیوں کے بر خلاف جو مردانہ لباس پسند کرتی تھیں ، ترکنیں ہمیشہ اپنے ملک کا زنانہ لباس پہنتی تھیں ، لمبی تڑنگی ، نہایت گوری گلابی رنگت اور بڑی بڑی بادامی آنکھیں ، بے حد سیاہ یا سنہرے چمکیلے بالوں والی یہ سورما عورتیں جس قدر دلکش تھیں اسی قدر جرات اور جفا کشی اور سفاکی میں بھی مشہور تھیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ترکن دس مردوں پر بھی بآسانی قابو پا لیتی تھی اور میدان جنگ میں غنیم پر پنجہ قابض ہو جانے پر اسے قیدی بنانے کی بجائے وہیں اس کی تکہ بوٹی کر ڈالتی تھیں ۔ یہ عورتیں ازبک اور قزاق قوم کے ہی مردوں سے رشتہ مناکحت قائم کرتی تھیں اس لیئے کئی نسلیں گزرنے پر بھی ان کی نسلی اور لسانی خصوصیات پہلے کی طرح برقرار تھیں ۔
ناول میں یوں تو کردار دوران گفتگو کئی محاورے استعمال کرتے ہیں ، بطور نمونہ دو یہاں درج ہیں ، ماں کا پیٹ کمہار کا آوا کوئی گورا کوئی کالا ، ایک توے کی روٹی کیا پتلی کیا موٹی۔ مشعلہ، مشعل کی لکڑی سے ذرا چھوٹی لکڑی کے ایک سرے پر پیتل کا گہرا پیالہ نصب کر دیتے تھے پھر مشعل جلانے کا سامان مثلا سرسوں کے تیل کی گاڑھی تلچھٹ یا روغن نفت میں تر کیا موٹا چیتھڑا اس میں یوں رکھتے تھے کہ پیالے کی کور اس کے لیئے اوٹ کا کام کرتی تھی لہذا اس کا شعلہ ہوا سے بجھتا نہ تھا ۔
کسی بھی ناول کی کامیابی موضوع، کردار، پلاٹ، واقعات، جزئیات اور منظر نگاری پر ہی منحصر نہیں ہوتی بلکہ حسن بیان اور طرز نگارش بھی شایان شان ہونا چاہئے۔ اس ناول میں زبان و بیان کا حسن، مکالمہ کی برجستگی، واقعات اور زبان کے ہم آہنگ ہونے کا گہرا احساس ہر صفحے پر نمایاں ہے۔ فاروقی نے زبان و بیان پر کافی توجہ صرف کی ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مستعمل زبان کو ہی ناول میں جگہ دی ہے جو اس عہد میں رائج تھیں۔ انہوں نے خاص طور سے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ بیانیہ میں کوئی بھی ایسا لفظ نہ آنے پائے جو اس دور میں مستعمل نہ تھا۔ عربی اور فارسی کے فقروں و محاوروں کی کثرت اس ناول میں دکھائی دیتی ہے جو اس وقت دہلی ونواح دہلی میں مستعمل تھے۔ فارسی اشعار کا مکالموں میں برمحل استعمال بھی حسن بیان کو مزید دلکشی عطا کرتا ہے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے قاری ناول کے مطالعے کے وقت کچھ زیادہ ہی لطف اندوز ہوتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا تعلق اکیسویں صدی سے ہے۔ غرضیکہ ’’کئی چاند تھے سرآسمان‘‘ تاریخ، تہذیب وتمدن، شعر و ادب، معاشرت کے آداب، عام زندگی کی جزئیات کے سچے اور زندہ بیان کی وجہ سے اردو ادب میں صرف اپنا ایک منفرد اور نمایاں مقام بنانے میں ہی کامیاب نہیں ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک صدی سے کچھ زیادہ کی تہذیبی دستاویز بھی ہے۔

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”کئی چاند تھے سرِ آسماں (ایک جائزہ)

  1. میاں مخصوص اللہ کے تین نہیں ایک بیٹا تھا جس کا نام یحیی تھ۔اس کے دو بیٹے تھے داؤد اور یعقوب

Leave a Reply