اشتعال انگیزی بی جے پی کی پالیسی میں شامل : رشید انصاری

دنیا میں بڑی سی بڑی یا چھوٹی سی چھوٹی سی جماعت یا تنظیم کا کوئی دستور یا منشور ہوتا ہے۔ پارٹی کے عہدیداروں یا اراکین کے حقوق و فرائض اور دائرہ کار تعین ہوتا ہے۔ خاص طور پر کسی جماعت یا تنظیم کی بنیادی پالیسی سے ہٹ کر کہنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ کوئی زمانہ تھا بی جے پی یااس کی پیشرو جن سنگھ اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے جانی جاتی تھی جن سنگھ یا بی جے پی تمام پارٹیوں سے خود کو مختلف اور منفرد کہتی تھی لیکن اب تو کئی لحاظ سے اس پارٹی کا حال دوسری پارٹیوں سے بدتر ہے۔ خارجی امور ہوں یا داخلی معاملات ہوں لگتا کچھ ایسا ہے کہ حکومت کی پارٹی کی حکمت عملی کچھ ہے اور پارٹی کے اراکان کی پالیسی بظاہر کچھ اور ہے ارکان کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی مسئلہ پر جو چاہیں بول سکتے ہیں۔ حکومت کی پالیسی کے بالک ہی مغائر، برعکس اور مختلف بیانات دے سکتے ہیں۔ خاص طور پر اقلیتوں ، دلتوں اس میں بھی خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ہر بات کہنے کی پارٹی کے اراکان کو مکمل آزادی ہے۔ مثال کے طور پر حکومت کسی ایک مسلمان یا مسلمانوں کو برملا پاکستان جانے کی بات نہیں کہہ سکتی ہے لیکن مودی کابینہ کا کوئی بھی رکن پارٹی کا ایم پی، ایم ایل اے جو چاہے کہہ سکتا ہے ۔ کسی کی اشتعال انگیزی پر بی جے پی کی کان پر جوں نہیں رینگتی ہے اگر زیادہ احتجاج ہوتو بڑے آرام سے کہا جاتا ہے کہ مجوزہ بیان سے بی جے پی بری الزمہ ہے۔ اس بیان سے بی جے پی اتفاق نہیں کرتی ہے پارٹی کا موقف الگ ہے۔اس سلسلہ میں بی جے پی کے موقف کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہے۔ دنیا میں شائد ہی ایسا کہیں ہوتا ہو کہ برسر اقتدار جماعت کے وزرأ اپنی پارٹی کے بنیادی موقف سے انحراف کریں اور ایسا بیان دے دیں جس سے وزیر اعظم اتفاق نہ کرسکے اور نہ ہی برسر اقتدار پارٹی کو اتفاق ہو۔
آگے بڑھنے سے قبل ہم یہ بتادیں کہ بی جے پی کے اہم لوگ جو اہم عہدوں پر فائز ہیں وہ احمقانہ انداز میں اشتعال انگیزی و شر انگیزی کے متعدد بیانات دیتے رہتے ہیں۔ ان پر احتجاج ہوتو وہی رٹا رٹا یا جملہ کہ یو بولنے والے کی ذاتی رائے ہے یہ پارٹی کا موقف نہیں ہے لیکن مخالف پارٹیوں کے ایک بیان کا ذکر ہر وقت ہر مووقع پر جا و بے جا دہرایاجاتا ہے مثلاً کانگریس کے منی شنکر ایر، سلمان خورشید، ڈگ وجئے سنگھ یا مجلس اتحادالمسلمین کے اکبر الدین اویسی ، سماج وادی پارٹی کے ملائم سنگھ اور اعظم خاں کے گذشتہ چند سالوں کے دوران دئے گئے ایک بیان پر بی جے پی کے قائدین اور ٹی وی پر آنے والے بی جے پی کے ترجمان ان چند قابل اعتراض بیانات کا بی جے پی کے قائدین موقع بے موقع بہ کثرت ذکر کرکے اپنے قائدین کے بیانات کی سنگین نوعیت کو کم کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں یہ دو عملی دوسرے اخلاقی معیار اور اصولوں کا ایک کھلا ثبوت ہے۔ جس کی تردید ممکن نہیں ہے لیکن ساری بات اس طرح نہیں ہے جس طرح کہ نظر آتی ہے۔ پارٹی کے موقف سے ہٹ کر یا پارٹی کی پالیسی کے خلاف بیان بازی ہر قسم کی قابل ملامت اشتعال انگیزی بلکہ کھلم کھلا مسلم دشمنی کے اظہار کو برداشت کرنا بی جے پی کی حکمت عملی ہے بلکہ باور کیا جاتا ہے ۔ بی جے پی کے وزرأ ، سینئر قائدین ارکان پارلیمان و اسمبلی کے انتہائی متنازع اور مسلم دسمنی پر مبنی بیانات اور ان پر بی جے پی قیادت اور خاص طور پر وزیر اعظم کا درگذر اور نہ ٹوٹنے والی خاموشی یہ سب کچھ بی جے پی کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے کہ ایک طرف حکومت اور پارٹی یعنی خود بی جے پی خود کو معصوم ظاہر کرتی رہے ۔ وزیر اعظم ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ والا پر فریب نعرہ لگاکر خود کو ملک کو بلکہ دنیا کو دھوکا دیتے رہے تو دوسری طرف ملک کے ماحول پر فرقہ واریت، تعصب اور مسلم دشمنی کے اثرات گہرے ہوتے جائیں گے۔ ایک طرف اس غلط فہمی کو فروغ دیا جارہا ہے کہ یو پی اسمبلی کے انتخابات میں مسلمانوں اور خاص طور مسلم خواتین نے بھاجپا کو جوق درجوق ووٹ دیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو مایوس ہی نہیں ہیجان میں مبتلا کیا جارہا ہے کہ اتنی بھاری تعداد میں مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔ مسلمانوں پر مزید دباؤ بڑھانے کیلئے دو مزید حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ ایک قانونی اور غیر قانونی مذبح خانوں اور اس سے وابستہ لاکھوں افراد کو بے روزگاری اور اس سے پیدا ہونے والے مصائب میں مبتلاء کرکے ادتیہ ناتھ یوگی کی حکومت نے قریش برادری پر بڑا گہرا وار کیا ہے۔
مذبح خانے بند کرنے کا مسئلہ حالانکہ بظاہر ایک انتظامی یا قانونی مسئلہ ہے جس کو بی جے پی خود نے سیاست کا شکار بنایا اور اب یہ ہنگامہ کررہی ہے کہ اس کو سیاسی مسئلہ بنادیا گیا ہے حالانکہ اس میں سیاست کو بھاجپا خود اس طرح لائی ہے کہ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں اعلان کیا تھا بلکہ امت شاہ نے کئی بار اعلان کیا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی تمام ’’بوچڑخانے‘‘ (مذبح خانے) بند کرادیں گے (واضح ہو کہ قانونی یا غیر قانونی کا مسئلہ بعد میں لایا گیا) کیا ملک کی سب سے بڑی ریاست میں غیر قانونیت صرف مذبح خانوں تک محدود تھی؟ مذبح خانوں ، ذبیحہ ، گوشت اور قصائی کا تمام تر تعلق مسلمانوں سے ہے اور گوشت نہیں کھانے والوں کے لئے یہ سب سماجی مسئلہ بی جے پی نے بنایا۔ حالانکہ آزادی سے قبل اور بعد بھی لاقانونیت یوپی کے سماجی ماحول میں رچی بسی رہی ہے لیکن بی جے پی کو پتہ تھا کہ اس طرح مسلمانوں کے ایک خوش حال اور غریب دونوں طبقات پرکاری ضرب لگائی جاسکتی ہے۔ حیرت ہے کہ اس پر کسی مخالف بی جے پی جماعت کو بھی خیال نہیں آیا۔ رہا الیکشن کمیشن تو زیدی صاحب اور ان کے الیکشن کمیشن نے خود کو مودی اور بھاجپا کیلئے وقف کررکھا ہے۔ ان کی کیا مجال تھی کہ کچھ کہتے۔ مایاوتی کا نام لے کر مسلمانوں سے ووٹ مانگنا بھی قابل اعتراض تھا لیکن مایاوتی یہ سب بی جے پی کے لئے کررہی تھیں اس لئے الیکشن کمیشن کی مجال تھی کہ مایاوتی کے خلاف کوئی کارروائی کرتا!
بی جے پی نے بابری مسجد رام جنم بھومی کو ایک مرتبہ پھر زور شور سے چھیڑنے میں کوئی دیر نہیں کی جس کیلئے اس نے قدیم مسلم دشمن سبرامنیم سوامی کو استعمال کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مسئلہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی عدالت عظمیٰ میں زیر غور ہے۔ اس کو بہ عجلت تمام فیصل کرنے کیلئے کوئی متعلقہ فریق درخواست دے سکتا ہے نہ کہ غیر متعلق سبرامنیم سوامی اگر خود سے عدالت عظمیٰ اگر ان کی درخواست پر توجہ نہ دیتی تو اچھا تھا۔ اب وہ کھلم کھلا مسلمانوں کو دھمکی دے رہے ہیں کہ مسجد کی زمین کی ملکیت سے دستبردار ہوجاؤ ورنہ ہم قانون پاس کرکے مندر بنالیں گے اور ایودھیا میں کہیں بھی مسجد نہیں بنانے دیں گے۔ سوال ہوتا ہے کہ سبرامنیم سوامی کو اس طرح دھمکی دینے کا کیا حق ہے؟ حکومت کیوں خاموش ہے؟ مسلمانوں کو ان کی حرکتوں اور حکومت کی ان کو تائید حاصل کرنے پر سپریم کورٹ سے شکایت کرنی چاہئے۔
یہ سب جو ہم نے بیان کیا اور جو ہم بیان نہیں کرسکے بی جے پی کی مکارانہ حکمت عملی کا حصہ ہیں جو بات ایوان اقتدار سے بی جے پی نہیں کہہ سکتی ہے یا کرسکتی ہے وہ بھاجپا اپنے وزیروں، قائدین اور ارکان پارلیمان و اسمبلی سے کہلوادیتی ہے تاکہ عوام پر خاص طور پر مسلمانوں پر دھاک بیٹھے مثلاً حال ہی میں بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی نے دھمکی دی ہے کہ جو ’’وندے ماترم اور بھارت مات کی جئے‘‘ کہنے میں ہچکچائے گا اس کے ہاتھ پیر توڑ دئیے جائیں گے۔ کوئی کہتا ہے کہ جو گائے کو ہلاک کرئے گا اس کو مارڈالا جائے گا۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ نے مسلمانوں کے خلاف جو کچھ وزیر اعلیٰ بننے سے قبل کہا تھا وہ ادتیہ ناتھ کی ذاتی رائے نہیں تھی بلکہ دراصل بی جے پی کا غیر سرکاری موقف ہے جو کہ وہ آہستہ آہستہ روبہ عمل لایا جائے گا بلکہ اس پر عمل کیا جارہا ہے۔ گویا اس طرح بی جے پی والے جو بھی کہتے ہیں اور کرتے ہیں وہ صرف اور صرف بی جے پی کی سرکاری حکمت عملی بن جاتی ہے اور بھاجپا اپنے اہداف کو کسی نہ کسی طرح پورا کرتی ہے جہاں بی جے پی کی حکومت بنتی ہے وہ بہت سی ان باتوں پر عمل کرتی ہے جو اس کے قائدین کہتے آرہے تھے۔ آنجہانی ہیمنت کرکرے نے جن ہندتووادی دہشت گردوں کو دہشت گردی کے سنگین جرائم میں ماخوذ کیا تھا اب وہ رفتہ رفتہ کسی نہ کسی طرح رہا ہوچکے ہیں یا کئے جائیں گے۔ یاد رہے کہ ان کی گرفتاری کے بعد ہی سنگھ پریوار کے ان تمام کے مظلوم و بے قصورہونے کی رٹ لگارکھی تھی۔ اب یوپی میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سب وہی ہے جو کہ سنگھ پریوار والے کہتے آئے تھے اور جن باتوں کا زبردست پروپیگنڈہ سنگھ پریوار والے کہتے آئے تھے اور جن باتوں کا زبردست پروپیگنڈے سنگھ پریوار کا غلام میڈیا زور شور سے کرتا رہا ہے بلکہ آج بھی کررہا ہے۔ اب اس پر عمل ہورہا ہے۔ عدالتوں پر سنگھ پریوار کو بھروسہ نہیں ہے کہ اس لئے وہ قانون بناکر مسجد کی جگہ پر اپنے غاصبانہ اور ظالمانہ قبضے کو مزید مستحکم کرکے مندر بناسکتے ہیں اس لئے سنگھ پریوار کی دھمکیوں کو ایک طرح سے پیش بندی یا پیش گوئی سمجھا جاسکتا ہے۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply