دادا جی کے نام ایک خط

پیارے دادا،
سلام۔ امید ہے خیریت سے ہوں گے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو کم ہی جانتے ہیں کہ ایک دوسرے کو دیکھ نا پائے۔ ابا فقط پانچ برس کے تھے جب آپ چل دئیے۔ آپ کو تو نہیں دیکھا مگر آپکے نا ہونے کی وجہ سے ابا کی آنکھوں میں ایک محرومی سدا دیکھی۔ ابا نے آپ کے نا ہونے کے بعد بہت محنت کی، زندگی بنائی۔ خیر اپنی کہانی تو وہ آپکو خود سناتے ہی ہوں گے تو میں مزا خراب کیوں کروں۔ تو ابا کی آنکھوں میں ہمیشہ آپ کے نا ہونے کی کمی ضرور دیکھی۔ امی کہا کرتی ہیں کہ یتیموں کے چہرے بدل جاتے ہیں۔ میری آنکھیں کبھی بہت شرارتی ہوا کرتی تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میری اولاد کو بھی میری آنکھیں ویران ویران لگا کریں گی۔

تو دادا، آپ کو جتنا جانا وہ یا تو دادی کی باتوں سے جانا، یا پھر ابا کے مختصر جملوں سے جنھیں پورا کرتے ان کی زبان لرکھڑا جایا کرتی تھی۔ وہ بیچارے بھی کیا کرتے، باپ خواہ پانچ برس کی عمر میں یتیمی کا داغ دے جائے، نشان ساری عمر نہیں جاتا۔ وہ ہمیشہ مجھ سے بہت سخت رویہ رکھتے تھے۔ بہت سال پہلے شاید میں دس گیارہ سال کا تھا ان سے شکوہ کیا تھا۔ بہت عرصے بعد اس دن انھوں نے نرمی سے بات کی۔ کہنے لگے کہ میں بہت چھوٹا تھا جب تیرے دادا فوت ہو گئے۔ ویسے تو میں نوے سال سے پہلے نہیں مروں گا، مگر میں چاہتا ہوں کہ تو مظبوط مرد بنے۔ دادا، ابا گو جھوٹ نہیں بولتے تھے مگر یہاں ڈنڈی مار گئے، نوے سے پہلے ہی مر گئے۔ ابھی تو میں مظبوط بھی نہیں ہوا تھا، میں اب بھی کبھی کبھی رو پڑتا ہوں، ابا کے کان ضرور کھینچنا، مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟

تو دادا، دادی کہتی تھی کہ آپ کو گھوڑے بہت پسند تھے۔ دادی نے ساری عمر کبھی چوڑیاں یا لال رنگ نہیں پہنا۔ ہمیشہ سفید پہنتی تھی، جب بھی میں آپکا پوچھتا تو چڑ جاتی تھی۔ اور چڑ کر کہتی تھی تیرے دادے کو گھوڑوں کا دکھ لے کر بیٹھ گیا۔ دادی کہتی تھی کہ جب اجاڑے پڑے۔ لو سنو دادا، دادی اس اسلامی مملکت کے قیام کو “جب وطنوں سے اجاڑے گئے” کہتی تھی۔ شکر ہے وقت سے مر گئی، ورنہ غداری کا مقدمہ چل جاتا۔ تو کہتی تھی کہ جب اجاڑے پڑے اور گھوڑے چھوڑ کر بھاگنا پڑا، تو تیرا دادا جو آدھا مرا تھا، پورا مر گیا۔ بس لاش پاکستان بننے کے تین برس بعد دفنائی تھی۔

دادا، دادی سناتی تھی کہ آپکو گھوڑوں سے عشق تھا۔ شاید خون میں ہے کہ مجھے بھی بہت پسند ہیں۔ جانتے ہو ایک دور میں پولو بھی کھیلتا تھا۔ اور جو گھوڑا پٹھے پہ ہاتھ نہیں رکھنے دیتا تھا، میرے استاد، حاجی ساب کہتے تھے، رانے اس پہ بیٹھ۔ میں کبھی گھوڑے سے گرا نہیں، شاید گھوڑے بھی میرے خون کو پہچانتے تھے۔

دادا، سنا ہے کہ آپ بہت زبردست گھوڑے پالتے تھے۔ سنا کہ ہوشیار پور (موجودہ ہندوستان) میں آپکے مقابلے کے گھوڑے کسی کے پاس نا تھے۔ آپ کے گھوڑے ناچتے بھی تھے، نیزہ بازی بھی کرتے تھے اور سواری بھی کراتے تھے۔ انگریز آپ سے گھوڑے خریدتے بھی تھے۔ مگر پھر دوسری جنگ عظیم میں ایک ڈپٹی کمشنر آیا اور آپ کے سب جوان گھوڑے لے گیا کہ بادشاہ کو جنگ جیتنی تھی۔ دادی کہتی تھی کہ آپکا کوئی جوان بیٹا ہوتا تو اس کی جبری بھرتی پہ آپکو دکھ نا ہوتا شاید، کہ جنگ راجپوت کا زیور ہے۔ مگر گھوڑے چھینے جانے پر آپ آدھے مر گئے تھے۔ آپ نے غم میں کئی دن کچھ نا کھایا اور گھوڑوں کو یاد کرتے رہے جو کبھی واپس نا ملے۔ میں ہنستا تھا دادا، پر جب سے آپکی جرمن بہو نے میرا کتا بہانے سے اپنے بھائی کو چھین کر دے دیا، میں اب آپکا دکھ سمجھتا ہوں۔ شاید میں بھی آدھا، مگر آدھا تو ابا کے ساتھ ہی مر گیا تھا، چلو آدھے سے کچھ زیادہ مر گیا ہوں۔

دادا، ابا گئے تو میں نوجوان تھا۔ آپ تو جانتے ہی ہو گے کہ کیسے مجھے پاکستان چھوڑنا پڑا۔ پھر اپنے خوابوں کے تعبیر ڈھونڈتے، محنت کرتے، میں لندن میں بھی وکیل بن گیا، اب تو الحمدللّٰہ اپنی فرم بنا لی ہے۔ ابا نے بہت پڑھا دادا، کہ سنا ہے آپ نے دادی سے کہا تھا کہ میرے بیٹوں کو پڑھنے سے نا روکنا۔ دادی نے سب زمین بیچ دی مگر جو جتنا پڑھنا چاہتا تھا، اسے پڑھایا۔ ابا کو وصیت کا موقع نہیں ملا، مگر کرتے تو یقینا کہتے کہ انعام ایک بڑا وکیل ضرور بنے۔ دادا، انکو بتانا کہ میں اب لندن کا ایک مشہور وکیل ہوں۔ کئی بار انکو خط لکھنا چاہا، پر “پیارے ابا” لکھتے ہی نہ جانے کیوں صفحہ بھیگ جاتا ہے، کچھ لگنے کے قابل نہیں رہتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دادا، کل ایک گورا آیا تھا، کوئی ساٹھ برس کا، مجھ سے نوکری مانگنے، اچھا وکیل تھا۔ باتوں میں بتانے لگا کہ اسکا باپ، سن اکتالیس میں ہوشیار پور کا ڈپٹی کمشنر تھا۔ دادا، جس نے آپکے گھوڑے چھینے کیا اسکا نام بھی سندرلینڈ تھا؟ دادا، آپ کتنے عظیم تھے جو تعلیم پہ یقین رکھتے تھے۔ آپ نے ایک کسان خاندان میں تعلیم کا رواج ڈالا جسے ابا نے قائم رکھا۔ آج اسی تعلیم کی وجہ سے گورے مجھ سے نوکری مانگتے ہیں۔ دادا سندرلینڈ کے باپ نے آپکے گھوڑے چھینے یا نہیں، میں نے اسے نوکری پہ رکھ لیا ہے۔ جو کل آپکے گھوڑے چھینتے تھے، آج آپ کے پوتے کیلیے کام کرتے ہیں۔
ابا کو کہیے گا، انعام نے غلامی کا داغ اتار ڈالا ہے۔
آپکا پوتا،
انعام

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”دادا جی کے نام ایک خط

  1. دادا، آپ کتنے عظیم تھے جو تعلیم پہ یقین رکھتے تھے۔ آپ نے ایک کسان خاندان میں تعلیم کا رواج ڈالا جسے ابا نے قائم رکھا۔ آج اسی تعلیم کی وجہ سے گورے مجھ سے نوکری مانگتے ہیں۔
    بہت بڑی حقیقت.

Leave a Reply