جنابِ عالی مجھے سزا دیجئے

جناب عالی مجھے سزا دیجیے کیونکہ میں ایک عام آدمی ہوں ، آپ کے قانون سے ڈرتا ہوں مجھے تعزیرات اور جیل کا ڈر رہتا ہے مجھے اپنی سفید پوشی پر جیل اور سزا کا دھبہ لگنے کا ڈر رہتا ہے ۔ مجھے آپ سے ڈر لگتا ہے بالکل اس ہندو کی طرح جو بھگوان کو پوجتا تھا ۔ آپ نے دو ہندو بھائیوں کی کہانی تو پڑھ رکھی ہو گی اگر نہیں تو میں آپ کو سناتا ہوں، دو ہندو بھائی تھے ایک بھگوان کو مانتا تھا ، صبح صبح پرشاد کی تھالی اٹھا کر مندر پہنچ جاتا لوگوں میں پرشاد بانٹتا پھر بھگوان کے بت کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جاتا اور گھنٹوں جاپ کرتا رہتا کیونکہ وہ بھگوان کو بہت طاقتور سمجھتا تھا اور اس کی پکڑ سے ڈرتا تھا۔ دوسرا بھائی اس بت کو نہیں مانتا تھا اور اس کے گلے میں جوتوں کا ہار ڈال آتا تھا۔ کافی دنوں کی اہانت کے بعد بھگوان اپنے ماننے والے کے خواب میں آئے اور کہا۔۔ تو مجھے اپنے اس بھائی سے بچا ورنہ میں تجھے سزا دونگا۔اس نے کہا بھگوان آپ کو بے عزت تو وہ کرتا ہے لیکن آپ سزا مجھے کیوں دیں گے؟ تو بھگوان نے کہا کیونکہ اس پر میرا بس نہیں چلتا وہ مجھے مانتا نہیں ہے اور تو میرا بھگت ہے مجھے مانتا ہے تجھ پر میرا بس چلتا ہے لہذا میں تجھے سزا دونگا۔
جناب عالی میں کوئی بڑا آدمی نہیں ہوں جو اربوں کا نادہندہ ہو ، میں نے بجلی کا بل ادا نہیں کیا جس کی سزا تعزیرات پاکستان میں کم ازم کم چھ ماہ کی جیل تو ہو گی۔ ارسطو نے کہا تھا، قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں چھوٹی چھوٹی مکھیاں پھنس جاتی ہیں لیکن بڑی چیزیں اسے پھاڑ کے نکل جاتی ہیں ۔ جناب میں وہی کمزور مکھی ہوں تو اٹھائیے قلم اور لکھ دیجئے سزا۔۔
جناب عالی مجھے سزا دیجئے کہ میں کوئی خوش رنگ ، خوش ادا، شوخ و شنگ حسینہ نہیں ہوں جس کی پشت پر کوئی بڑا سیاسی مافیا ہو جو اسے قانونی موشگافیوں کا ادراک رکھنے والے خائن وکیلوں کے ذریعے مکھن میں گرے بال کی طرح نکال کر لے جائے ۔ پھر سزا تو بنتی ہے نہ جناب عالی۔۔ جناب عالی سزا اس لیے بھی بنتی ہے کہ میں کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ٹارگٹ کلر نہیں ہوں جو گواہ کو کمرہ عدالت تک پہنچنے سے پہلے مروا سکے ۔ میں گواہوں کو عدالت میں پہنچنے سے نہیں روک پایا، اس لیے آپ کے قانون کی پکڑ میں آنے کا مستحق ہوں ۔
عالی جناب میں چکنی چپڑی باتیں کر کے اٹھارہ کروڑ بھیڑ بکریوں کو اپنے پیچھے لگانے والا سیاستدان بھی تو نہیں ہوں جس کی گرفتاری پر دس پندرہ ہزار بھیڑیں اپنی فرسودہ بھیڑ چال کی عادت سے مجبور ہو کر آوے ای آوے اور زندہ باد کے نعرے لگا کر عدالت کو دباؤ میں لے سکیں۔ جناب عالی میں تو اتنا بد قسمت ہوں کہ میری بیوی بھی کرائے کے پیسوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے عدالت میں نہیں آ سکی۔ اتنے غیر مقبول آدمی کو کوڑے مروائیے حضور کوڑے۔۔ اگر ہو سکے کو پھانسی پرلٹکائیے۔
حضور والا میری جیب میں اتنے پیسے نہیں تھے کہ نان جویں کے چند ٹکڑے خرید کر بھوک سے بلکتے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھا سکتا تو میں کسی جج کو کیسے خرید سکوں گا؟؟ حضور والا تمام جرائم بلا کم و کاست آپ کے سامنے ہیں، مجرم اقبال جرم کر چکا ہے اس لیے اب "سزا تو بنتی ہے ناں" ؟
جناب عالی میرے ساتھ ساتھ عمران خان کو بھی سزا دی جائے تو اس سے آپ کی عدالت کا اقبال اور بھی بلند ہو گا۔وہ اس لیے کہ اس بے وقوف نے ان جسٹس منیر سے لے کر افتخار تک تمام تر عدالتی فیصلوں بلکہ مبنی بر حق عدالتی فیصلوں کو بھلا کر آپ کی عدالت پر اعتماد کیا۔۔ اسے بھی سزا دیجیے جناب ، اسے بھی سزا دیجیے!

Facebook Comments

شاہد خیالوی
شاہد خیالوی ایک ادبی گھرا نے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ معروف شاعر اورتم اک گورکھ دھندہ ہو قوالی کے خالق ناز خیالوی سے خون کا بھی رشتہ ہے اور قلم کا بھی۔ انسان اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور خالق کا شاہکار ہے لہذا اسے ہر مخلوق سے زیادہ اہمیت دی جائے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا لیا تو قلم کوآسودگی نصیب ہو گی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”جنابِ عالی مجھے سزا دیجئے

Leave a Reply to Ibrahim Jamal Cancel reply