دم مست قلندر۔۔۔حسیب حیات

میرے پوچھے گئے سوال کا سائز شائد چھوٹا تھا یا دوست کے نقصان کا وزن زیادہ اسی لئے مجھے جواب دینے کی بجائے اس نے چہرے پر گرد کی طرح جمی افسردگی جھاڑتے ہوئے کہا . چل یارچھوٹی سی رقم کا میرا نقصان ہوا اتنی کوئی بڑی بات نہیں پر اس رانے کو دیکھو اس بیچارے کی تو قسمت ہی خراب ہے.دوست کے خیالات پر قدر کی نگاہ ڈالنے کوضروری تھا کہ ملک میں بسے لاکھوں رانوں میں سے وہ ایک بدقسمت رانا اگلے چند لمحوں میں ڈھونڈ نکالا جائے. کوشش ناکام ہونے کی صورت ہم نے اپنی لاعلمی پر، بل کھاتی لفاظی کا پردہ ڈالتے ہوئے رانا صاحب کے بارے میں استفسار کیا. یوں ہمارے علم میں کثیر اضافہ ہوا. وہ رانا صاحب گاڑھے تیل کا کاروبار کرتے ہیں . یہ تیل مشینوں کی لازم غذا ہوتا ہے. آجکل رانا صاحب اس تیل سے قلندروں کی مالش والش کر کے نیا کاروبار جما رہے مگر وہ قلندر ،دم مست قلندر کی لے پر علی علی کہتے ہوئے کامیابی کو گلے لگا ہی نہیں پارہے . دوسرے لفظوں میں قلندروں کی سودے بازی کے اس کھیل میں گاڑیے مشینی تیل والے رانا صاحب کی دکان نقصان میں جارہی ہے.. قلندری اور دکانداری کا آپس میں کیا جوڑ،ہمارے لئے یہ سمجھنا بہت ہی مشکل تھا.
کھیل اور ہمارا تعلق ننھے ننھے پہلے چند قدموں کے ساتھ بندھا تھا بالکل کبھی نا بھلائے جانے والے پہلے عشق جیسا . ہم کھیل سے جڑے تو کھلاڑیوں کے ہاتھ میں دل کے ڈرائنگ کی چابی تھما دی . جس کا دن اچھا ہوتا جو مین آف دی ڈے ہوتا وہی ڈرائنگ روم کا بند دروازہ کھولتا سب اندر جابیٹھتے، محفل جمتی خوب ہلا گلا ہوتا اور ہمارا دل باغ باغ ہو جاتا.
بچپن میِں جس عشق کا آغاز ریڈیو کمنٹری سے ہوا وہ عشق جیت جانے والے میچز کی جھلکیاں دیکھنے کو مچلتا رہتا. جو دو چار دن بعد پی ٹی وی ہر نصیب ہوجایا کرتی تھیں. باہر سے ٹیم ملکی دورے پر آتی ہماری تو جیسے لاٹری لگ جاتی. صبح سوئی دس ہر چڑھتی اور ہم ٹی وی سے چپک جاتے اسکول میں ہوتے تو ماسٹر جی سے بہانے بہانے سے اسکور اپ ڈیٹ لیتے رہتے. پانچ روزہ میچ اپنے شہر کو نصیب ہوتا تو اپنے ساتھ ایک عدد لوکل ہالیڈے کی نوید بھی لاتا. اپنے عشق کے سہارے ر ب پر توکل کر کے، خالی جیب کی پرواہ کئے بغیر ہم اسٹیڈئم کا رخ کئے چل پڑتے. دن بھر جوشیلے بھڑکیلے نعرے لگاتے ،کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور شام کو تھک ٹوٹ کر واپس گھر پہنچتے. جب کبھی جزائر لغرب الہند سے کالی آندھی ہماری سرحدوں سے ٹکراتی تو پورا ملک مورچہ زن ہوجاتا سب مل جل کر لمبے تڑنگے باؤلروں کی بمباری کا مقابلہ کرتے. بیٹنگ میں ویو رچرڈ کا بلاچلتا تو گیند باز کا پردادا بھی قبر کا ٹوپ اٹھائے گراؤنڈ سے اڑ اڑ باہر آتی گیندیں گنتی کرتا جاتا. ایسا جادو تھا اس کے بلے میں . پاکستان کا ٹؤر انڈیا وہ پہلا بیرون دورہ تھا جو بال ٹو بال ہمیں لائیو دیکھنے کو ملا تھا. کرکٹ نہیں وہ تو عزت کی خاطر لگائی گئی سر دھڑ کی بازی تھی کھلاڑی گراؤنڈ میں کھیلے اور قوم نے مصلوں پر جم کر دعا درود کرتے ان کا بھرپور ساتھ دیا. سلیم ملک کی یادگار بلے بازی اور بنگلور ٹیسٹ جب بھی یاد آتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہو کر گھٹتی ہوئی دھڑکن پھر سے جوان ہوجاتی ہے.
کھیل کا یہ جنون صرف کرکٹ تک ہی محدود نا تھا، مجھے یاد یے ایک بار اولمپکس میں پاکستان اور ہالینڈ سے اہم ہاکی میچ کے آخری منٹ چل رہے تھے پرنسپل آفس میں اساتذہ چھوٹے ٹی وی کے گرد اکٹھے ہوگئے اورکلاس روم میں بچے بےچین جیت کی خبر سننےکو تڑپ رہے تھے. وہ زندگی کا پہلا موقع تھا جب بدنام زمانہ ہماری کلاس میں حقیقی پن ڈراپ سائلنس دیکھا گیا تھا. ہاکی تو خیر ہمارا مان ہوا کرتی تھی. اولمپکس میں ،سبز جھنڈے اور قومی ترانے کے اٹھان کی واحد امید اور ہاکی کھیلنے والے بھی ہمارے اسی طرح سے ہیرو ہوا کرتےتھے. سمیع اللہ کلیم اللہ آپس میں بھائی تھے اور قوم کی ہر ماں انہیں اپنا بیٹا ہی تصور کرتی تھی. حسن سردار کی ہاکی اور ڈی میں گیند جب جڑ جاتی تو گول ہونا لکھ دیا جاتا تھا . شہباز سینئر جیسا آرٹسٹک پلئر خدا کا ایک تحفہ تھا قوم کو یہ تحفہ ہمارے اسکول ہی کے توسط سے ملا تھا. مگر افسوس آج قومی کھیل کا نام تک مٹ گیا گراس روٹ لیول کا کوئی وجود ہی نہیں رہا. اسلام آباد کے سیکٹرز میں بنے ہاکی گراونڈ میں ہاکی کی بجائے بچے فٹ بال اور کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں..جو بچہ اس بات سے یی لا علم کہ یہ ہمارے نیشنل گیم ہاکی کے لئے بنائی گئی گراؤنڈ ہے وہ بھلا ہاکی پلئرز کو کیا جانے گا. اسلام آباد میں لاتعدار بھاری فیسیں ہڑپنے والے پرائیویٹ اسکولز ہیں کوئی ایک اسکول بھی ہاکی ٹیم تیار نہیں کر رہا اپنے نیشنل گیم کو پروموٹ نہیں کر رہا. بچوں کو بس فٹ بال دے کر زمہ داری ادا کر دی جاتی ہے. آج کے بچوں کے آئڈئلز فٹ کے انٹرنیشنل کھلاڑی ہیں..میسی سے لیکر رونلڈینو تک انہی ناموں کو اپنا پیرو مرشد مانے ہمارے بچے فٹ بال لئے بھاگتے پھرتے ہیں .دھکا شاہی کے کھیل فٹ بال تک محدود کردئیے گئے یہ بچے کیا جانیں کہ ہاکی کی ڈربلنگ ڈاجنگ ،پاسنگ اور پینٹریشن کس خوبصورت آرٹ کا نام ہے.
چھوڑئیے صاحب دل کےپھپھولے بندہ کھولے تو کس کے آگے کھولے. زمانہ بہت بدل گیا یہ کرکٹ ترقی کر کے سپر پروفیشنل ہو گئی ہے. آج کا تو بچہ بھی بکیز سے ٹیموں کا ریٹ پوچھ کر پی ایس ایل کا میچ دیکھتا ہے . بڑی بڑی کمپنیوں کے لگائے بل بورڈز پر پلئرز کی تصاویر، پی ایس ایل کا چرچا دنیا کے اچھے کھلاڑیوں کی شمولیت یہ سب کچھ برا نہیں مگر ہمارے گزرے قلندرانہ دور سے یکسر مختلف یے .آج کرکٹ کو نئی اٹھان مل چکی ہے ہر طرف اسی کھیل کا چرچا ہے. مگر اپنے گزرے دور سے نکلنے کو کم از کم ہمارا دل تیار نہیِں ہوتا . ہم اس پی ایس ایل سے بہت پہلے بیت گئے ہوئے قلندرانہ دور کے خول میں ہی رہنا چاہتے ہیں مگر کیسے؟ ؟؟؟
ہر اخبار ہر چینل ہر سڑک ہر محفل کو پی ایس ایلایز کرنے والے دوکانداروں تک رحم کی ہماری یہ اپیل پہنچانے والا کوئی بننے والا کون ہوگا؟ یہی سوال میں نے اپنے دوست سے پوچھا تھا مگر جواب نا ملا. کیا آپ کے پاس میرے اس سوال کا جواب ہے؟؟؟

Facebook Comments

حسیب حیات
ایک پرائیویٹ بنک میں ملازم ہوں اسلام آباد میں رہائش رکھے ہوئے ہوں اور قلم اُٹھانے پر شوق کھینچ لاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دم مست قلندر۔۔۔حسیب حیات

Leave a Reply to ولائیت حسین اعوان Cancel reply