پارا چنار پھر لہو لہان / اسباب و خدشات

یاد نہیں کہ چند برس میں کتنی بار پارا چنار کے لہولہان ہونے کی سرخی جما کر ہم نے افسوس کا اظہار کیا کتنی بار مذمت کی ۔
نہ افسوس کے لئے الفاظ بچے نہ مذمت کرنے کیلئے بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی کے یہ پری پلان منصوبے جن میں انسانوں کا خون بہا کر کبھی جزو وقتی اور کبھی کل وقتی سرمایہ کاری کی جاتی ہے کچھ ایسے بیمار ذہنوں کی پیداور ہوتے ہیں جنھیں ہمیشہ موقع کا انتظار رہتا ہے اور یہ ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کبھی اپنی ناکامیوں پر معصوم اور بے گناہ افراد کا خون بہاتے ہیں تو کبھی اپنی فتح کا اعلان خون کی ہولی کھیل کر کرتے ہیں ۔ کرم ایجنسی کا علاقہ افغان سرحد سے متصل ہے اور ایک طویل عرصہ تک فرقہ واریت کا شکار رہا ہے اور ہزاروں لوگ یہاں مسلکی اختلافات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ سن 2010 ء میں کی گئی کوششوں سے یہاں کسی حد تک کشیدگی میں کمی واقع ہوئی تھی مگر گزشتہ برس سے تاحال امن کی یہ فضا ایک بار پھر خون اگل رہی ہے ۔ دو ماہ قبل جنوری میں پارا چنار کی ایک مارکیٹ میں ہونے والے بم دھماکے میں 28 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے ۔آج صبح ایک بار پھر پارا چنار کی نور مارکیٹ میں موجود امام بارگاہ پر کار بم دھماکہ کیا گیا جس میں آخری اطلاعات آنے تک 22 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے اور پچاس سے زیادہ شدید زخمیوں کی حالت بھی تشویشناک بتائی جارہی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ کرم ایجنسی میں شیعہ سنی متحارب گروپ آپس میں لڑ رہے ہیں مگر گزشتہ کئی برس میں اس علاقہ میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں اگر اموات کے اعداد و شمار دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ مرنے والوں کی 95 فیصد تعداد صرف شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے اور متحارب گروپوں کی لڑائی محض ایک پروپیگنڈا ہے درحقیقت پورے پاکستان کی طرح اس علاقہ میں بھی منظم انداز میں شیعہ مسلک کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ۔ آج کے حملے سے صرف چند دن پہلے اس علاقہ میں شعیہ مسلک کے خلاف ایک پمفلٹ بھی تقسیم کیا گیا جس میں داعش کی جانب سے مذکورہ مسلک کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں ۔ بی بی سی کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے جماعت الاحرار گروپ نے قبول کی ہے جب کہ وائس آف امریکہ کے ذرائع کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کی ہے ۔ تاہم اس خطے میں طالبان ، داعش ، القاعدہ ، لشکرجھنگوی اور جماعت الاحرار سمیت کسی بھی جنگجو جتھے کو ایک دوسرے سے الگ سمجھنا یا ان میں تفریق کرنا ایک نہایت بھیانک غلطی ہوگی کہ مقاصد کے حساب سے ان تمام جنگجووں کا ایک ہی بیانیہ ہے اور وہ بیانیہ بلا شک و شبہ کے ایک نکاتی ایجنڈا ہے شیعہ کافر ۔کہا جا سکتا ہے کہ ان جتھوں کی طرف سے ریاست اور ریاستی اداروں کو بھی تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور بنایا جا رہا ہے تو اسکا واحد سبب بھی ریاست کی اس بیانیہ کی ترویج کی راہ میں حائل ایک بہت کمزور سی مزاحمت ہے ۔ اس خطے میں جاری یہ خون ریزی کسی طور افغانستان اور مشرق وسطی میں جاری خون ریزی سے جدا نہیں ۔ گو کہ شام میں حلب اور عراق میں موصل سے داعش کی پسپائی ایک حوصلہ افزا خبر ہے مگر اول تو یہ پسپائی ابھی کسی منظقی انجام کو نہیں پہنچی دوسرا یہ کہ دہشت گرد جتھے اپنا رخ بدلنے میں دیر نہیں لگاتے اور اس خدشے کا اظہار ہم ایک تواتر کے ساتھ مشرق وسطی میں بدلتی عالمی حکمت عملی کے تناظر میں بارہا کر چکے ہیں ۔
گزشتہ روز اقوام متحدہ میں متعین امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا ہے کہ شام میں بشار الاسعد کی حکومت کا تختہ الٹنا اب امریکی پالیسی کا حصہ نہیں رہا انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت کی نسبت اب موجودہ حکومت کیلئے یہ آہم نہیں رہا کہ وہ اس پر وقت برباد کرے کہ بشار کو کس طرح حکومت سے الگ کیا جائے بلکہ اب امریکہ کی توجہ اس جانب ہے کہ کس گروپ کے ساتھ مل کر کام کیا جائے جس سے شام کے عام لوگوں کو ریلیف ملے ۔ نکی ہیلی ہی کی طرح موجودہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بھی گزشتہ روز ترکی کا دورہ کرتے ہوئے واضع کر دیا کہ بشار کے مستقبل کا فیصلہ اب شام کی عوام نے کرنا ہے ۔ کم و بیش دس لاکھ بے گناہ اور معصوم انسانوں کا خون بہانے کے بعد آج امریکہ کی بدلی ہوئی سرکار جس نتیجے پر پہنچی ہے وہ تاریخ انسانی کا ایک قابل افسوس سانحہ اور عالمی انسانی ضمیر کے ماتھے پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔ ہم نے ان حالات سے کیا سیکھا ؟ جلتے ہوئے حلب ، دمشق اور موصل نے ہمیں کیا سبق دیا ؟ دس لاکھ بے گناہ انسانوں کے بہتے خون اور اس سے دوگنی تعداد میں بے گھر ہو جانے والوں کی زبوں حالی سے ہم نے کیا سیکھا ؟ شاید کچھ بھی نہیں ۔
ہم نے اگر کچھ سیکھا تو شاید یہ کہ ایک لبرل اور روشن خیال بیانیہ کو کس طرح پیروں تلے روندا جا سکتا ہے ، مادی مفادات کیلئے کس طرح نسل پرستی اور فرقہ واریت کو فروغ دیا جا سکتا ہے ، اپنے ملزم ریاست کے چنگل سے آزاد کروانے کیلئے کس طرح فوجی عدالتیں بنانے کی منظوری دی جا سکتی ہے ، کس طرح کرپشن کے مقدمات سے بری ہونے کیلئے ایک سابق جنرل کو ایک غیر ملکی فوجی اتحاد کی سربراہی کی اجازت دی جاسکتی ہے اور اسکے اثرات سے تباہی کے کنارے کھڑے وطن کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ آپ کے صرف اس ایک فیصلے سے شہ پا کر آج پارا چنار کو خون میں نہلایا گیا ہے, یہ 22 یا نہ جانے کتنی توپوں کی سلامی دی گئی ہے آپ کے نام نہاد فوجی اتحاد کے سربراہ کی خوشی میں اور کل جب اس کا دائرہ پورے ملک میں کراچی سے خیبر تک وسیع ہوگا تو کیا آپ کا یہ غیر ملکی فوجی اتحاد یہاں پاکستان میں تعینات ہو کر امن قائم کرے گا ؟ بات تلخ سہی مگر آپ عوام کا خون چوستے رہے اور اب اسکی سزا پانے پر بھی رضامند نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ نہ سہی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر لوگوں کی جان بخشی تو کیجئے وطن کی سلامتی کو تو داؤ پر مت لگائیے ۔ اقتدار اقتدار اور حکومت حکومت شوق سے کھیلئے مگر کچھ توجہ ان سرحدوں کی حفاظت پر بھی دیجئے جن کے پار سے دہشت گردوں کے آنے کا واویلا کیا جاتاہے ، کچھ توجہ اس جانب بھی دیجئے کہ شام اور یمن میں انسانیت کو تاراج کرنے میں ہماری عملی معاونت خود ہمیں کس مقام پر لا کھڑا کرے گی ۔ اپنی نسل پرست اور فرقہ واریت پر مبنی پالیسیوں پر بھی غور کر لیجئے اس سے پہلے کہ یہ یکطرفہ لڑائی واقعی متحارب گرپوں کی لڑائی بن جائے اور بہت دیر ہو جائے ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply