شذرات ہاشمی-2

(ڈاکٹر طفیل ہاشمی، ماہر علوم اسلامی اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ مختصر جملوں میں کتاب بھر کا علم دینے میں بھی ماہر ہیں۔ انکے کچھ خوبصورت اقوال پیش خدمت ہیں)

تاریخ کا سبق:
ایوب خان اور بھٹو کے خلاف نکلنے والے جلوسوں میں شرکت کی سعادت حاصل رہی لیکن دونوں بار ہمارے خیال کے برعکس امیر المومنین اوپر سے نازل ہو گئے. اگر جلوس کے پیچھے بین الاقوامی آشیرباد اور مقامی بادلوں کا سایہ نہیں ہے تو یہ بانجھ زمین پر زور آزمائی کرنے کے مترادف ہے.

اگلا الیکشن:
حکومتیں اس طرح نہیں گرتیں، لوگ صرف اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ کہیں اس کے پس پردہ جمہوریت کا کمبل چرانے کی سازش نہ ہو اگر ایسا ہوا تو اگلا الیکشن میرے اور خان صاحب کے انتقال کے بعد ہی ہو گا.

سوشل میڈیا:
سوشل میڈیا کی اثر آفرینی میں نے کئی بار سوچا کہ وقت کے ضیاع کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا کو خدا حافظ کہہ دیا جائے لیکن مجھے بارہا یہ تجربہ بھی ہوا کہ جن ایوانوں میں ہم ایسے گوشہ نشین اپنی بات نہیں پہنچا سکتے، کسی موضوع پر دو چار زور دار پوسٹ کی جائیں تو وہاں سے مثبت جواب آ جاتا ہے نہ معلوم کمزور آوازیں کیسے دور دور تک پہنچ جاتی ہیں.

آل بیت ایک بار پھر فرات کنارے:
صبح ٹیکسلا پہنچ کر معلوم ہوا کہ یونیورسٹی بند ہے، سوچا، ایک بجے واپس چلے جائیں گے، کورٹ کا فیصلہ بھی آگیا تھا، ٹریفک رواں دواں تھی. ایک بجے نکلے تو جی ٹی روڈ بند، موٹر وے پر جھانکا تو وہ بند؛ بار الہا! جائیں تو جائیں کہاں؟ شکر ہے ڈرائیور کو کچے راستوں، پگڈنڈیوں، گلیوں اور کھیتوں سے گزرنے والے ایسے راستوں کا علم تھا کہ 35 منٹ کا سفر 2_3 گھنٹے میں طے کر کے، ان پگڈنڈیوں پر بھی جابجا سروس کارڈز دکھاتے آخر گھر پہنچ گئے. راستے میں سنسان موٹر وے اور خاموش جی ٹی روڈ دو طرفہ نظر آتی رہی اور آل علی کو کربلا کی پیاس اور فرات کے پانی کی فراوانی یاد کراتی رہی.
شورش کاشمیری کا ایک جملہ بار بار سوچ کے گنبد میں گونجتا رہا، وہ عوام سے ہمیشہ یہ سوال کرتے تھے :
“پاکستان کی سیاسی کربلا میں ابو سفیان کا پوتا کون ہے؟؟”

عہد نبوی کا اسلام:
تعصبات خواہ مذہبی ہوں یا سیاسی، موجودہ ہوں یا ماضی کے، ان سے بالا تر ہو کر ہی پر سکون جیون جیا جا سکتا ہے۔ مانا کہ آپ بدنی طور پر زمین کی کشش ثقل سے نہیں نکل سکتے، کیا روح کو بھی زمین کے کھونٹے سے باندھنا ضروری ہے؟ جس طرح سیاسی، مذہبی اور عسکری پارٹیوں سے بلند ہوکر صرف پاکستان سے محبت زیادہ بہتر انداز میں کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح فقہی، کلامی، نظریاتی مکاتب فکر سے بالا تر ہو کر عہد نبوی کے سادہ اسلام سے وابستگی ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔

زرداری اور میں:
آصف علی زرداری نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ قرآن پڑھنا اور اسلام سیکھنا چاہتے ہیں، حکومت نے مجھے اس خدمت کے لیے مامور کر دیا، وہ جیل میں ہونے کی وجہ سے پمز میں تھے، مختلف تجربات کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ انہیں تاریخ سے دلچسپی ہے چنانچہ ہم نے برنیئرکی کتاب اورنگ زیب عالمگیر پڑھی، جس نے ان کے رویوں پر اتنا بھر پور اثر ڈالا کہ وہ ہر طرح کی سچوئشن میں Survive کرنے میں ماہر ہو گئے. انہوں نے ایک متوقع جغرافیائی تبدیلی کے خیال سے الیکشن میں سرگرمی نہیں دکھائی ورنہ وہ جب چاہیں ہاری ہوئی بازی اپنے حق میں کر سکتے ہیں۔ اور یہ سبق انہوں نے اورنگ زیب سے سیکھا کہ کس طرح بھائیوں کو اپنے حق میں استعمال کر کے ایک ایک کر کے راہ سے ہٹایا جا سکتا ہے. اورنگ زیب کے بھائیوں کے نام لکھے ہوئے خطوط ان کی سیاسی پالیسی کا محور تھے اور وہ یہ تبصرہ کرتے تھے کہ ضیاء الحق اسی قماش کے دین دار تھے۔ نیز؛ یہ کہ جو میں روزانہ پڑھتا ہوں اسے اپنے دماغ کے کمپیوٹر میں محفوظ کر کے سٹریٹجی بناتا ہوں.
سیاست دانوں کو کچھ پڑھ بھی لینا چاہئیے.

آصف زرداری نے پچھلے الیکشن میں دانستہ طور پر بھر پور حصہ نہیں لیا، وہ کہہ رہے تھے کہ اگلے پنج سالہ میں پاکستان کا نقشہ تبدیل کرنے کی سازش کا اندیشہ ہے اور ہم اس میں پارٹی نہیں بننا چاہتے. اس پنج سالہ میں مجھے امید تھی کہ پاکستان اب محفوظ ہاتھوں میں ہے اس لیے کوی سازش کامیاب نہیں ہو گی لیکن پچھلے چند روز سے جو کچھ ہو رہا ہے اس سے خوف آتا ہے، ہم سانپ کے ڈسے ہوئے رسی سے بھی ڈر جاتے ہیں.

ادھورا انقلاب:
تشکیل پاکستان واحد موقع تھا کہ بھارت کی طرح یہاں بھی جاگیر داری کا خاتمہ کر کے جمہوریت کو پنپنے کا موقع دیا جاتا لیکن اس وقت شاید جاگیر داروں نے اپنی جاگیروں کے تحفظ کی ضمانت لے کر یا انگریز نے اپنے وفاداروں کے تحفظ کو یقینی بنا کر تحریک پاکستان کو آگے بڑھنے کی راہ دی ہو گی. بعد میں وہی جاگیر دار صنعت میں داخل ہو گئے جس کی وجہ سے کچھ نئے خاندان بھی ان میں شامل ہو گئے. اور سیاست دان کے لئے یہ ضروری ٹھہرا کہ وہ بورژوا طبقہ سے ہو. بھٹو کی تحریک میں اتنی طاقت تھی کہ وہ دور رس تبدیلیاں کر سکتی تھی لیکن وہ خود صف اول کے جاگیردار تھے اس لیے ان کی زرعی اصلاحات منافقت سے آگے نہ بڑھ سکیں، بعد میں پارٹی میں جاگیرداروں کی کثرت ہو گئ. جماعت اسلامی نے سوشلزم اور کمیونزم کی اتنی مخالفت کی کہ اس کی سوچ سے سرمایہ دارانہ نظام کی آبیاری ہوئ تاہم دیگر مذہبی جماعتوں کے برعکس اس کے لیڈر اپنا طبقہ تبدیل نہیں کر سکے. علماء، ججز اور جنرلزبھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہے. پچھلے چند سالوں سے جرنلسٹ آگے بڑھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں. مزدور تنظیموں کو منظم نہیں ہونے دیا گیا کہ معاشی انقلاب کی راہ ہموار ہو سکے اور تعلیم اس قدر گراں کر دی گئی کہ صرف بے پناہ وسائل والے ہی خرید سکتے ہیں. جمہوریت شعور سے جنم لیتی ہے، شعور تعلیم سے آتا ہے اور تعلیم عام ہو جائے تو وسائل والے طبقے کو بے دام یا سد رمق پر مزدور، ہاری، ملازم کہاں سے مل پائیں گے، اس لیے اطمینان رکھیں یہاں جمہوریت نہیں آسکتی، ہاں جمہوریت کے نام پر لٹیرے آسکتے ہیں، انہیں ہٹا کر مارشل لا آجائے خواہ ٹیکنو کریٹس یا ججز کی حکومت بن جائے کبھی کوئی ایسی تبدیلی نہیں آنے دی جائے گی جو عوام کی فلاح پر مبنی ہو. کیونکہ پاکستان ایک طبقے کے مفادات کے تحفظ کا ضامن ہے. آپ کو حصہ چاہیے تو طبقہ تبدیل کر لیں اور بس.

توبہ کیا ہے؟
ہر کام میں کامیابی کی سب سے بڑی ضمانت!
توبہ کا مفہوم ہے “واپس پلٹ کر اس مقام پر جا کھڑے ہونا جہاں سے دانستہ یا نادانستہ غلط روش اختیار کر لی تھی”۔
اس کا تعلق صرف گناہوں سے نہیں ہے بلکہ پوری انسانی زندگی کے تمام معاملات سے ہے خواہ وہ اخلاقی ہوں معاشی یا سیاسی،. اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو روزانہ اپنے تمام رویوں پر نظرثانی کر کے غور کرنا چاہئیے کہ کہاں کہاں اس سے غلطی ہوئی اور پھر واپس پلٹ کر اسی پوزیشن میں چلا جائے جہاں سے غلطی کا آغاز ہوا تھا اور نئے سرے سے درست سمت میں سفر شروع کرے۔ درست سمت سے مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر کام کے لیے فطرت نے کچھ اصول، ضوابط اور طریق کار رکھے ہیں، ان سے ہم آہنگی پیدا کرنا ہی درست سمت میں سفر ہے۔ مثلاً کسی سرگرمی سے وقت کے ضیاع، معاشی ناہمواری، خاندانی تعلقات کی نادرستی کا احساس ہو، تو اسے ترک کر کے متبادل صحت مند رویے اختیار کرلینا ہی توبہ ہے. جو قرآن کی رو سے خوشی، خوش حالی، صلاحیت کے مطابق مواقع اور احباب کے تعاون کی ضمانت ہے، (سورۃ ھود)۔ اسی بنا پر حدیث میں آیا ہے کہ روزانہ سو بار بھی کچھ غلط ہو جائے تو پلٹ کر واپس آ جائیں.

کرپشن:
جب میں طلبہ کے اصرار یا اپنی تھکن کے باعث کلاس وقت سے پہلے چھوڑ دیتا ہوں یا دیر سے کلاس میں جاتا ہوں، طالب علم کی ریسرچ پڑھے بغیر یا نامکمل پڑھ کر، اسے گائیڈ کئے بغیر او کے کر دیتا ہوں، پیپر، اسائنمنٹ، مقالہ مکمل جانچے بغیر نمبر دے دیتا ہوں یا کسی پسندیدہ طالب علم کو اپنی پسندیدگی کے دو نمبر زائد دیتا ہوں یا اوقات اور جدول کی پاس داری نہیں کرتا تو میری تمام تر خدمت کا جامع عنوان ہے کرپشن کون کرپشن سے پاک ہے؟؟
لا تزکوَا انفسکم

عمران خان کی سیاست کے خم وپیچ؟
عمران خان بچہ نہیں ہے کہ سیاست کے نشیب و فراز نہ سمجھتا ہو۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے بقائمی ہوش و حواس کر رہا ہے. میرے خیال میں ہر سیاست دان اقتدار کے حصول کے لیے سیاست کرتا ہے اور اقتدار کی معراج وزیر اعظم ہونا ہے، یہی اس کی خواہش ہے اور اسی کے لیے کوشش. اس منزل کے حصول میں اس کا مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے ہے. پیپلز پارٹی اب کسی کے لیے چیلنج نہیں رہی، واحد چیلنج مسلم لیگ نون ہے. پاکستانی عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے مزاج شناس جانتے ہیں کہ ان ذرائع سے نواز شریف کو ہٹانا ممکن نہیں ہے. اس میں کوئی ابہام نہیں کہ اگر ریفری انگلی کھڑی کر دے گا تو وہ عمران خان کو گراؤنڈ نہیں دے گا . یہ شیخ رشید کی ترجیح ہو سکتی ہے. عمران خان کی کوشش یہ ہوگی کہ مسلم لیگ کو اس قابل نہ رہنے دیا جائے کہ وہ پانامہ لیکس کا بوجھ لے کر 2018 میں عوام کے پاس جاسکے اور اس کے موثر اور با عزت افراد عمران کے پاس آ جائیں.

جمیعت:
ایک بزرگ سے کسی نے کہا کہ حضرت، آپ کا فلاں مرید جو بہت دولت مند ہے بڑا عابد و زاہد ہو گیا ہے ہمیشہ روزہ رکھتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا: کیسی عبادت اور کیسا زہد؟ روزہ تو فقیروں کی عبادت ہے. اسے چاہئے کہ کہ اپنا دستر خوان کشادہ رکھا کرے.
ٹھیک اسی طرح جب حکمران دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں تو وہ جھک مارتے ہیں، زبانی مذمت تو ہم ایسے بے بسوں کا رد عمل ہے، ان کی مذمت عملی ہونی چاہیے. لوگوں کی غربت پر آنسو بہانا اور اپنے پاس دولت کے ماورائے حساب انبار جمع کر کے رکھنا، ملک کے تمام تر وسائل اپنے تحفظ کے لیے مختص کر کے عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا، اپنی بیوٹی فیکیشن کے لیے انگلینڈ روانہ ہو جانا اور غریب کے بچے سے ڈسپرین کی گولی بھی چھین لینا، تعلیم کو اس قدر مہنگا کر دینا کہ چند خاندانوں کے علاوہ سب لوگ اپنے بچوں کومزدور بنانے پر مجبور ہو جائیں:

کیا ملیں اسی لئیے ریشم کے تار بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں
ایسی حکمرانی کو کیا نام دیا جائے؟؟
جمہوریت ذریعہ ہے مقصد نہیں

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیں اگر کبھی آمریت جمہوریت سے بہتر ڈیلیور کرنے لگ گئی تو لوگ اس نام نہاد جمہوریت پر تین حرف بھیج کر الگ ہو جائیں گے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply