پیسہ

پیسہ انسان کو اوپر تو لے کر جا سکتا ہے مگر انسان پیسے کو اوپر نہیں لے کر جا سکتا،
قارئین! آج ایک ایسا موضوع چھیڑنے جا رہا ہوں جو کہ ہم سب کو شاید پڑھنے میں کچھ تلخ لگے لیکن شاید ہمیں اسے نہ صرف پڑھنا چاہیے بلکہ اس بارے سوچنا بھی چاہئے۔ موضوع ہے پیسہ ہماری ضرورت ہے یا مجبوری۔ ضرورت ہے تو کتنی بڑی ضرورت ہے مجبوری ہے تو کیوں مجبوری ہے معاشرتی مجبوری ہے یا خود ساختہ مجبوری ہے۔ چلیں کچھ حقائق جاننے اور جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں ہمارا ایمان ہے کہ قدرت کا نظام انصاف اور عدل پر مبنی ہے۔ انسان کو اللہ نے اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے خود وہ اس کائنات کا خالق ہے اور اس کے بعد اس نے اپنی بنائی ہوئی تمام مخلوقات، تخلیقات انسان کے تابع کردیں اور اسے آزادی اور اختیار بھی دیا کہ جیسے چاہے زندگی گزار آخر ایک روز تیرا ساتھ حساب ہو گا اور عدل کیا جائے گا۔ اب اختیار کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احتساب اور آزمائش کی تیاری کے لئے بھی کہا ہے۔ پیسہ ہماری ضرورت ہے کیوں کہ اس کے بغیر زندگی کا پہیہ نہیں چلتا روٹی، کپڑا، مکان،تعلیم، صحت، زندگی کی آسائشیں جن میں موبائل فون، گاڑی، بجلی، گیس غرضیکہ ہم سب کچھ پیسے سے ہی خریدنا پڑتا ہے اور اس کے لئے پیسہ کمانا بہت ضروری ہے یہاں تک سب تسلیم شدہ ہے ضروری ہے اس کے لئے محنت کرنی چاہئے ، یہ سب آسائشیں ضرورتیں ترقی کی علامت ہوتی ہیں اور ترقی کرنے کے بھی اس دنیا میں دو معیار ہیں ایک طبقہ ترقی کرتا ہے آرام دہ پر آسائش زندگی کے حصول کے لئے اور دوسرا طبقہ ترقی کرتا ہے دنیا کو دکھانے کے لئے کسی سے مقابلہ کرنے کے لئے، کسی کو نیچا دکھانے کے لئے لیکن ترقی کا معیار کیا ہے انفرادی اور اجتماعی ترقی کے کیا فوائد ہیں یہ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ہم 70سال پہلے آزاد ہوئے لیکن ان سات دہائیوں میں ہم قوم نہیں بن سکے۔ ہمارا ذاتی اور انفرادی معیار زندگی ضرور بلند ہوا مگر ہم ترقی نہیں کرسکے، ہم معاشرہ بھی نہیں بن سکے ہم سب صرف تماشائی ہیں ایک ہجوم کی مانند ہیں ہم انسان ضرور ہیں لیکن شاید انسانیت ہم میں سے ایک فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ ہم خود پسندی اور انفرادیت میں اس قدر غرق ہو چکے ہیں کہ بچپن سے ہی بچوں کو الگ تھلگ رہنا میرا،میرا کرنا سکھاتے ہیں ۔ فیڈر پینے والے بچوں سے لے کر سکول جانے والے بچوں تک ہم سب کو الگ رہنا اپنی چیزوں پر تسلط قائم کرنا، لوگوں سے دور رہنا سکھاتے ہیں۔ گھر میں کھلونے لے آئیں تو ایک ہی ماں باپ کی اولاد یہ میرا یہ میرا کر کے کھلونے پر قابض ہو جاتے ہیں اور کھلونے سے کھیلنے کی بجائے اسے چھپا کر سنبھال کر رکھنے لگتے ہیں کیونکہ ہم کھلونے لاتے ہی کہتے ہیں یہ تمہارا اور یہ تمہارا، بچے کو سکول لنچ دے کر بھیجیں تو یہ تاکید کر کے بھیجتے ہیں کہ خود ہی اکیلے ہی کھانا،بانٹتے نہ پھرنا نتیجہ کیا ہوتا ہے وہ سکول جا کر سب سے الگ جگہ پر بیٹھ کر کھاتا ہے۔ اب جب وہ بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس نے بچپن سے ہی سیکھا ہے کہ یہ میرا وہ میرا سب میرا۔اب وہ بچہ نہ تو کسی کے ساتھ اپنے اختیارات تقسیم کرنا چاہتا ہے، نہ کسی ساتھ اپنا فارغ وقت نہ کمائی، نہ آگے بڑھنے کے مواقع کیوں کہ ہم نے اسے گھٹی سے جوانی تک میرا میرا ہی تو سکھایا ہے اور یہ سب اسے خود سے کر کے دکھایا ہے۔ احساس، احسان، انسانیت کے جذبے تو ہم نے اس کی شخصیت میں پنپنے نہیں دئیے اب وہ کیوں کسی کو خاطر میں لائے۔ بچوں کو تو ہم سگے بہن بھائیوں سے دور کر چکے ہوتے ہیں صرف زبانی کہتے ہیں بیٹے بہن بھائیوں کے ساتھ مل جل کر پیار محبت سے رہا کرو مگر بچے اپنی آنکھوں سے ماں باپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں انکا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں کہ والدین اپنے بہن بھائیوں سے کتنی محبت کرتے ہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ ہم خود اپنے بہن بھائیوں سے کس طرح اپنا مال، اپنی چیزیں اپنے اختیارات چھپاتے ہیں، وہ دیکھتا ہے کہ میری ماں کتنی بااختیار تھی، وہ دیکھتا ہے کہ بجلی چوری کرنے کے لئے کون کون سے طریقے میرے گھر میں استعمال ہو رہے ہیں، وہ دیکھتا ہے کہ پیسہ کمانے کے لئے ہم کیسے کیسے ذرائع استعمال کر رہے ہیں، وہ دیکھتا ہے کہ والدین نے بچوں کو کتنے اختیارات دیے اور گھر کی فضا باپ کے خوف سے جامد ہے یا پرسکون ہے، تربیت زبان سے نہیں ہوتی عمل سے ہوتی ہے۔ خاندان معاشر ے کی اور فرد خاندان کی اکائی ہے۔ اب بنیاد میں ہی جب اتنے مسائل ہوں گے تو بے مثال معاشرہ، اعلیٰ خاندانی نظام اچھی کتابی باتیں ہیں حقیقت سے انکا کوئی تعلق نہیں، ہمیں اس خوش فہمی سے نکلنا ہو گا کہ ہم ایک بے مثال معاشرہ اور ایک اعلیٰ خاندانی نظام رکھتے ہیں ہمیں قباحتوں کو ختم کرنا ہوگا، مسائل کو درستگی کی طرف لے کر جانا ہو گا۔ ہمارا انفرادی سرمایہ اور انفرادی ترقی ٹاٹ میں مخمل کے پیوند سے بڑھ کر کچھ نہیں، کسی بھی ترقی یافتہ ملک اور قوم کی مثال لے لیں سب نے اجتماعیت کو بنیاد بنا کر ترقی کی ہے۔ چائنہ، یورپ امریکہ کسی بھی ملک کا نام لیں۔ وہ لوگ ذات ، برادری، رنگ ، نسل مذہب اور علاقائیت کے تعصبات سے نکل کر ایک قوم بنے ہیں پھر ترقی کی منزلیں طے کی ہیں، حالانکہ یہ تعلیمات تو اسلام کی ہیں اور ہم سے بڑا وارث بلکہ ٹھیکیدار کوئی نہیں اسلام کا۔ ہماری ترقی تو ایسی ہے کہ ان ترقی یافتہ ممالک سے کوئی منفرد چیز لے کر آتے ہیں کہ اس جیسی کسی اور کے پاس نہ ہو لیکن اس کو درست حالت میں رکھنے کے لئے کاریگر نہیں ملتے۔ اپنی بیماری کے علاج کے لئے یورپ امریکہ تک جاتے ہیں لیکن غریب گھریلو ملازم کو دس روپے کی دوائی لے کر دینے کے روادار نہیں۔ گاؤں گلی محلے میں عالیشان کوٹھی تو بنا لیتے ہیں مگر گلی کے کیچڑ اور پانی کے نکاس کا نہیں سوچتے۔خود اچھے عہدے پر چلے جائیں تو رشتے داروں اور حتیٰ کہ والدین کا تعارف کرواتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتے ہیں۔ ساری زندگی دولت اکٹھی کرنے میں گزارتے ہیں آسائش اور سکون نام کی کسی چیز سے ساری زندگی میل نہیں ہوتا اور بچے بچپن والدین کی دولت میں عیاشی سے گزار کر جوانی میں محنت سے کتراتے ہیں اور ترقی کا سفر دوسری ہی نسل میں آکر ختم ہو جاتا ہے۔ اب آپ اکیلے اونچائی پر ہوتے ہیں اور اس مقام پر چونکہ آپ کا عزیز اور کوئی نہیں ہوتا اور آپ نے بھی وہاں کسی کا ہاتھ نہیں تھاما ہوتا لہٰذا لوگ آپ کو ہاتھ دے کر بچانے کی بجائے زور سے دھکا دیتے ہیں۔ کیونکہ شاید آپ بھی کسی کو دھکا دے کر یہاں آئے بیٹھے ہیں، جب ہم اجتماعی ترقی کریں گے تو ہمارے اندر کا خوف بھی کم ہو گا اور معاشرتی لوٹ مار میں بھی کمی آئے گی۔
معاشرے ، ملک، اقوام اجتماعیت سے ترقی کرتے ہیں انفرادیت سے نہیں۔ پیسہ کمائیں مگر جائز طریقوں سے۔ جب ہم سب کا ایمان ہے کہ قدرت کا نظام انصاف پر مبنی ہے اور کس کو دینا ہے کب دینا ہے،کتنا دینا ہے، کس لئے دینا ہے اس کا اختیار تو خدائے بزرگ و برتر کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ایک طرف ہم اللہ پر توکل کا درس دیتے ہیں دوسری طرف اناج سے گھر اور پیسوں سے بینک بھر کر رکھتے ہیں۔ پیسوں کو ہوا نہیں لگواتے۔ اسلام کو دین فطرت بھی مانتے ہیں اور اس کے اصولوں سے انحراف بھی کرتے ہیں بخل کرتے ہیں حق کھاتے ہیں نتیجہ کیا نکلتا ہے بخیل کبھی آسائش نہیں پاتا ساری زندگی مال چھپاتا بچاتا اگلے جہان کوچ کر جاتا جبکہ سخی دونوں جہان میں پر آسائش اور پر سکون رہنے کا امیدوار رہتا ہے۔ اسلام اور تمام الہامی مذاہب پیسے کی گردش کے قائل ہیں، روپیہ جب تک ایک ہاتھ میں ہوتا ہے وہ ایک روپیہ ہی ہوتا ہے اور اگر وہ 100ہاتھوں سے گزر جائے تو 100روپے کا فائدہ دے جاتا ہے۔ بخیل کی دولت ہمیشہ گھٹتی ہے اور سخی ہمیشہ مالا مال ہی رہتا ہے، اللہ جب کسی کو مال اور اختیار دیتا ہے تو اسے آزماتا ہے اور جو اس آزمائش میں پورے نہیں اترتے وہ یا تو شداد اور فرعون کی طرح ٖغرق ہو جاتے ہیں یا اختیار اور دولت چھین لی جاتی ہے اور وہ محتاج ہو جاتے ہیں پیسے کو ضرورت ہی سمجھیں اور ضرورت مندوں کو بھی نظر میں رکھیں اور ڈریں اس وقت سے جب پکڑ ہو اور محتاجوں اور ضرورت مندوں کی لائن میں کھڑے ہونا پڑے۔ آپ کوشش تو کر کے دیکھیں کسی غریب کی کفالت کا ذمہ نہیں اٹھا سکتے گھر میں اجتماعیت اور ایثار کی بنیاد رکھیں، بچوں کو مل کر رہنا اور مل کر کھیلنا سکھائیں، غریب رشتہ داروں کو عزت دیں اور حسن سلوک سے پیش آئیں بلا شبہ اپنی اولاد پر لاکھوں کروڑوں خرچ کریں لیکن عزیزوں رشتہ داروں کو محض دو میٹھے بول چند محبت بھرے تحائف دے کر تو دیکھیں، بے چین زندگی میں سکون محسوس کریں گے اور یقین مانیں جدھر سانس بند ادھر کھیل ختم کیونکہ پیسہ انسان کو تو اوپر لے کر جا سکتا ہے مگر انسا ن پیسے کو اوپر نہیں لے کر جا سکتا۔
سب ٹھاٹھ دھرا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ!

Facebook Comments

نعمان نصیراعوان
سماجی شعبے میں عوامی خدمت کا کام کرتا ہوں اور سماجی مسائل کو اجاگر کر کے حل کی طرف لے کر جانا شوق ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply