مودی کے سپنوں کا اترپردیش:حفیظ نعمانی

ہر قوم کا ایک مزاج ہوتا ہے۔ ہندوستانی قوم وہ ہندو ہوں ، مسلمان ہوں یا سکھ ہوں قانون ضابطوں اور قاعدوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اسی کو صحیح سمجھتے ہیں جو وہ کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جن ہاتھوں میں قانون نافذ کرنا ہوتا ہے ان کا دھرم یہ ہے کہ ہم جتنی تنخواہ پاتے ہیں وہ صرف اتنے وقت کی ہے جو ہم دفتر میں گذارتے ہیں۔ رہا کام تو اس کے لیے پیسے لاؤ اور کام کراؤ۔ پرمٹ یا لائسنس دینے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جسے لائسنس دیں گے وہ کمائے گا اور عیش کرے گا۔ اس لیے اپنے عیش کا حصہ لینا غلط نہیں ہے۔
بغیر لائسنس کے سلاٹر ہاؤس کے بارے میں حکومت کا فیصلہ سر آنکھوں پر لیکن اس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ متعلق وزیر کا ایک ٹیپ ہر نیوز چینل پر تھوڑی دیر کے بعد بجایا جارہا ہے کہ حکومت نے صرف غیر قانونی مذبح خانوں اور بغیر لائسنس کی دکانوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ مرغی انڈے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ شاید منتری جی کو معلوم نہیں کہ ان کا جو حکم ہوتا ہے وہ افسروں کے لیے ہوتا ہے کہ غیر قانونی کام بن کرادیں وہ پولیس سے کہتے ہیں کہ غیر قا نونی سلاٹر ہاؤس بند کراؤ۔ وہ اس چکر میں نہیں پڑتے کہ کون قانونی ہے اور کون غیر قانونی۔ وہ ڈنڈا چلانا شروع کردیتے ہیں اور ان سب سے زیادہ حکم ان کا چلتا ہے جو زعفرانی رنگ کا کمل کے پھول والا انگو چھا گلے میں ڈال کر نکلتے ہیں۔ وہ اس دکان اور ہوٹل کو بھی بند کرادیتے ہیں جہاں گوشت کی بریانی یا قورمہ بکتا ہے۔ جیسے لال باغ کا مشہور ہوٹل ’’الذائقہ‘‘ بند کرادیا۔ اور کیوں کرایا؟ یہ کسی کو معلوم نہیں؟
گوشت کا کاروبار کرنے والے خاص طور پر بڑے یعنی بھینس کے گوشت کا کاروبار کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہندو بھائیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور حکومت یہ چاہتی ہے کہ کسی بھی بہانے سے گائے نہ کٹنے پائے۔ اور جب گائے یا بیل نہیں کٹتا تو جیسے چاہو ویسے کرو۔
ملک میں رہنے والوں کی ذہنیت غلامانہ انگریزوں نے بنادی تھی ان کے جانے کے بعد جو حکومتیں بنیں کسی نے یہ کوشش نہیں کی کہ ذہنیت بدلے۔ اور سب سے بڑا قصور پولیس کا ہے جس کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہے۔ آپ جو چاہیں کریں بس پولیس کو اس کا حق یعنی رشوت دے دیں۔
ہم نے پانچ دن پہلے لکھا تھا کہ چائے کے ٹھیلہ پر پان مسالہ ا ور سگریٹ رکھی تھی۔ پولیس آئی اور پانچ سو روپے لے کر چھوڑ دیا۔ اسے پڑھ کر ایک صاحب نے بتایا کہ اس ٹھیلہ والے کے آگے دوسرے سے ایک ہزار لے لیے اور اس کے آگے والی دکان سے دو ہزارلے لیا۔ یعنی صرف وزیر اعلیٰ کا یہ کہنا کہ سرکاری دفتر میں پان مسالہ کھاکر نہ آئیں۔ اس حکم کو پولیس نے نوٹ چھاپنے کی مشین بنالیا۔ اور وزیر اعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ اترپردیش کو مودی کے سپنوں کا پردیش بناؤں گا۔ تو کیا روتا ہوا پردیش ان کا سپنا ہے؟
تین دن پہلے دکھایا تھا کہ شراب کی دوکان کے آگے سڑک پر دس پندرہ شوقین کھڑے شراب پی رہے ہیں۔ پولیس کی گاڑی آئی اور حکومت کا ڈنڈا چلا۔کسی نے کان پکڑے، کسی نے ہاتھ جوڑے اور کسی نے توبہ کی یا کسی نے جیب گرم کردی۔ بعد میں داروغہ جی نے دکان کے مالک سے کہا کہ اب اگر دکان کے باہر دیکھا تو لائسنس کینسل کرادوں گا۔ یہ نہیں کہا کہ تمہاری دکان میں ہر بوتل میں آدھی شراب ہے اور آدھی الکوحل والی دوا اور پانی۔ شراب کے ایک بہت بڑے ٹھیکہ دار کے مطابق ہم اگر خالص شراب بیچیں تو گھر کے ’’زیور‘‘ گھر اور سب کچھ بک جائے۔ لاکھوں روپے میں ٹھیکہ لیتے ہیں۔ ایک لاکھ میں دکان لیتے ہیں، منیجر اور نوکر رکھتے اور ساری پونجی لگا کر ۵ لاکھ روپے مہینہ بھی نہ کمائیں تو زندگی کیسے گذرے۔ اس کے لیے آدھی شراب اور آدھا چونا ضروری ہے۔
بکرے کا گوشت فروخت کرنے والے اپنی دکان کے پیچھے بکرے کاٹتے رہتے ہیں اور بکرے وہیں بندھے رہتے ہیں۔بقرعید میں پر محلہ میں لوگ بڑے جانور خریدتے ہیں اور فی حصہ کے حساب سے کاروبار کرتے ہیں۔ ان دنوں میں ہر محلہ مذبح ہوجاتا ہے۔ اس وقت حکومت جو کچھ کررہی ہے اس کا اگلا قدم یہی ہوگا کہ جانور شہر سے باہر لائسنس والے سلاٹر ہاؤس میں کٹیں گے۔ پورے اترپردیش میں قریشی برادری کے ایسے بہت لوگ ہیں جو تمام پابندیوں والے سلاٹرہاؤس بنا سکتے ہیں۔ لیکن جتنے لوگ گوشت کا کاروبار کرتے ہیں ان میں ۷۵ فیصدی بے روزگار ہوجائیں گے۔
انھیں پولیس نے اس کا عادی بنادیا ہے کہ ان کا منہ بھردو سڑک کے کنارے جہاں چاہو گمٹی رکھ لو اور سلاٹر ہاؤس یا محلے میں جہاں کٹ رہا ہو وہاں سے گوشت لاؤ اور بیچنا شروع کردو۔ اس وقت جو کاروباری سڑک پر آگئے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ مال باہر سے نہیں آرہا ہے۔ اور وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں کیوں کہ بہار سے آئے یا پنجاب سے یا ایک شہر سے دوسرے شہر جائے۔ ہندو واہنی جیسی سینا کے جوان ہر اس ٹرک کو روک روہے ہیں جن میں جانور آرہے یا جارہے ہوں۔ اکثر ٹرک والوں نے جانوروں کا لانا لے جانا بند کردیا ہے اور اس کا اندازہ سب سے زیادہ اگست میں ہوگا جب نیپال اور اتراکھنڈ سے بکرے آئیں گے۔ اور ان کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اور پولیس کی ہمت نہیں ہوگی کہ ان سے کچھ کہہ سکے۔ کیوں کہ وہ کسی نہ کسی وزیر کی پرائیویٹ فوج ہوگی۔
ہر چینل پر جتنی باتیں گوشت کی ہورہی ہیں سب سے زیادہ ٹنڈے کے کباب کا ذکر ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کوئی بادشاہ کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ سو برس سے تحسین کی مسجد کے نیچے نالی کے اوپر تخت ڈال کر کباب پراٹھے بیچنے والے ٹنڈے کباب والے کے نام ۵۰ کروڑ کے انکم ٹیکس کا نوٹس آئے اور وہ کروڑوں روپے انکم ٹیکس ادا کرے۔ اور پوری دنیا میں اس کی شاخیں کھل جائیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اترپردیش سرکار کا اربوں رپیوں کا نقصان برداشت کرسکتے ہیں۔ لیکن مسلمان کی خوش حالی اور فارغ البالی برداشت نہیں کرسکتے۔ بھینس کے دودھ کا کاروبار تو کریں گے لیکن گوشت کا کاروبار نہ کریں گے نہ کرنے دیں گے۔ تو پھر چمڑا کہاں سے آئے گا۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply