رابطہ کمیٹی سے محلہ کمیٹی تک۔۔ذوہیب خان

گزشتہ دنوں ایم کیوایم (پاکستان) دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور ایک دوسرے پر وہ سنگین الزامات لگائے جس سے مخالفین خوب لطف اندوز ہوتے رہے، دونوں گروپ بہادرآباد اور پی،آئی، بی کے ناموں سے میڈیا کی شہہ سرخیوں میں آتے رہے، ہر گروپ اس بات کی بھر پور کوشش میں لگا رہا کہ اس کا گروپ  زیادہ مضبوط ہے ، اس دوران بہادرآباد میں میڈیا کے  سامنے غصہ سے بھرپور اعلانات بھی کیے گئے تو کبھی چشم ِ فلک نے رہنماوں کی بھری پریس کانفرنس میں آنکھوں سے آنسوﺅں کی لڑیا ں جاری ہوتے ہوئے بھی دیکھیں  ،جبکہ دوسری طرف پی آئی بی میں فاروق ستار گروپ نے انٹرا پارٹی الیکشن کرواکر پہلے گروپ کو منہ چڑایا،یہ سب واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد   کے ایم سی گراونڈ کی سوکھی گھاس پر بیٹھ کر میں ماضی میں کھوگیا۔۔۔۔2008 کے الیکشن کے بعد پی پی کی حکومت بنی تو ایم کیو ایم کے مخالفین کی بانچھیں ایسے کھلی ہوئی تھیں جیسے صبح سویرے باغ میں کوئی پھول کھلا ہوتا ہے۔ وہ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ حسب سابق ایم کیو ایم کا خاتمہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ہاتھوں ہونے والا ہے۔ لیکن شاید آصف علی زرداری نے پی پی پی سے انتقام لینے کی ٹھان رکھی تھی یا پھر حالات کی ستم ظریفی تھی کہ انہیں چار و ناچار 90 کے دربار پر حاضری دینا پڑی۔ اس وقت ان جیالوں پر کیا گزری ہوگی جو ایم کیو ایم کو اپنے کئی کارکنان و رہنماوں کی ہلاکت کا ذمہ دار سمجھتے تھے لیکن حرف غلط کی طرح بھی ان کے منہ سے کچھ نہ نکل سکا۔ بجز اس کے کہ یہ ”جمہوریت“ کا حسن ہے۔

چونکہ ایم کیو ایم کا سیٹ اپ پرویز مشرف کی  گود میں بیٹھنے کے بعد کافی مضبوط ہوچکا تھا اس طرح پی پی پی کے ساتھ اتحاد نے انہیں مزید مضبوط کردیا اور انھوں نے دیگر جماعتوں کے کارکنا ن کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دےدی ، اس کے بعد پی پی پی اور دیگر  تنظیموں  کے ایسے لوگ جو بدمعاشی کر نے کا شوق رکھتے تھے وہ کارکنان جوق در جوق ایم کیو ایم میں شامل ہونے لگے اور بات یہاں تک آگئی کہ یونٹ آفس  سکولوں میں کھلنے لگے۔ KTC سے بات GBOC, MOC,، PPOC تک پہنچ گئی ،ان تمام شعبہ جات کے دفاتر تقریباً کراچی کے ہر علاقہ میں ایسے نظر آنے لگے جیسے آج کل رینجرز کے جوان نظر آتے ہیں۔ ان دفاتر میں لوگوں کے مسائل سنے جاتے تھے اگر ہم KTCکا موازنہ دیگر شعبہ جات سے کریں تو ان کے ہاں ”انصاف“ فوراً ہی مل جایا کرتا تھا جس کی ایک مثال کا چشم دید گواہ میں خود بھی ہوں۔ کورنگی کے سیکٹر آفس میں ایک محترمہ نے اپنے مجازی خدا کے خلاف درخواست جمع کرا رکھی تھی اور مظلوموں کے ساتھیوں سے انصاف کی طلب گار تھی جس پرفوری عمل درآمد کیا گیا اور اس موصوف کی ”طبیعت“ کچھ اس ”شفقت“ سے صاف کی کہ سب مجمع کے سامنے اپنی بیگم سے معافی مانگی اور انہیں وہاں سے روانہ کیا گیا۔KTC میں عموما  َ اردو بولنے والوں کے مسائل کو سنا جاتا GBOC, MOC,، PPOC ایسے شعبے  تھے جہاں دیگر قومیتوں سے شامل ہونے والے اپنے اپنے ہم زبان کے مسائل کو سنتا ۔یہا ں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ان شعوں کے انچارج پنجابی ،پٹھان، بلوچی ،سندھی ،سرائیکی یا ہزارے وال ہوا کرتے تھے اور جب کہ کوئی فیصلہ  کرنے  کی سعی کرتے تھے تو معلوم یہ ہوتا تھا کہ موصوف کئی ہزار ایکڑ زمین  اور   سینکڑوں کمیوں کا مالک ہے، (آج جب ان لوگوں کو دیکھتا ہو ں تووہ زمانہ یاد آجاتا ہے جب یہ لوگ ہر نئے بنے والے گھر کے مالک کے پاس بھیڑیوں کے جھنڈکی طرح پہنچ جاتے تھے اور ان سے پارٹی فنڈ کا مطالبہ کرتے تھے لیکن آج ان لوگوں سے کوئی ٹھیک سے سلام کرنے کیلئے بھی  تیار نہیں ) علاقوں میں چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے مسئلے کے حل کے لیے یونٹ آفس یا سیکٹر آفس کی طرف دیکھا جاتا تھا۔ جہاں تھوڑی بہت کرپشن کے بعد مسئلہ حل کردیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ بلدیاتی نمائندے دن میں اپنے سرکاری دفاتر میں اور رات میں تنظیمی دفاتر میں اپنی خدمات سر انجام دیتے ہوئے نظر آتے تھے۔ میں یہاں ان تنظیمی دفاتر کے بارے میں ہر گز نہیں کہوں گا کہ وہ قانونی یا غیر قانونی زمین پر بنائے گئے تھے.۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر کراچی آپریشن شروع ہوتا ہے جس میں آہستہ آہستہ یونٹ آفس بند ہونے لگے اور نوبت یہاں تک آگئی کہ ان دفاتر کو مسمار کیا جانے لگا جو کبھی علاقوں میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ ان تمام کارروائیوں کے بعد بلدیاتی الیکشن ہوئے اور لوگوں نے الیکشن میں حصہ لیا لیکن کامیابی ایم کیو ایم کے حصے میں آئی لیکن اختیارات نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں نے بلدیاتی نمائندوں سے امیدیں باندھنے کے بجائے محلے کی سطح پر ایسی کمیٹیاں بنانا شروع کردیں جو اپنے مسائل اپنی مدد آپ کے تحت حل کرنے کا مشن لے کر اٹھیں۔ ان کمیٹیوں کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ جو لوگ ایم کیو ایم کو پسند نہیں کرتے تھے اور ایک غیر سیاسی زندگی گزارنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے آج وہ محلہ کمیٹی میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں اور وہ بھی بلا خوف و خطر جبکہ آج ایم کیوایم بھی کسی محلہ کمیٹی ہی کا منظر پیش کررہی ہے۔۔۔ اس سوچ سے باہر نکلا تو ہمارے دوست اور سینئرصحافی اے ۔کے محسن نے وہاں سے گزرتے پاپڑ بیچنے والے سے پاپڑخرید کر ہماری ضیافت کی ۔۔ اور وہاں سے اٹھنے کے بعد مزمل احمد فیروزی صاحب نے کیا خوب جملہ کہا کہ بعض اوقات کسی ایک شخص یا تنظیم پر پابندی سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ انہیں کھلی چھوٹ دینے سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ رابطہ کمیٹی جس غرور و تکبر میں مبتلا ہوچکی تھی اس کا توڑ دور دور تک نظر نہیں آرہا تھا۔ لیکن شاید قدرت نے ہر ایک چیز کے لیے ایک حد مقرر کر رکھی  ہے اور جو بھی اسے عبور کرنے کی سعی کرتا ہے وہ اپنے نقصان کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔

Facebook Comments

محمد زوہیب خان
ًمحمد زوہیب خان نجی ٹی وی میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اس کے علاوہ فری لانس جرنلسٹ اور قلم کار ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply