• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ملک کو جرنیلوں اورججوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔۔اسد مفتی

ملک کو جرنیلوں اورججوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔۔اسد مفتی

ہمارے معاشرے میں جرائم کی رفتار جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس سے دو ہی نتیجے اخذ کیے جاسکتے ہیں ۔پہلا نتیجہ یہ کہ انتظامیہ اور حکومت اس رفتار کو خاطر میں نہیں لاتی لہذا ان کے نزدیک کوئی تشویشناک بات نہیں ۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جرائم کو ختم کرنے کے ذرائع انتظامیہ کے پاس نہیں ہیں ،لہذا وہ بے بس ہے ۔اورس اس پر طرہ یہ کہ جرائم کی نوعیت میں بھی فرق آچکا ہے،چوری،ڈکیتی،لوٹ مار ،قتل و غارت تو روز مرہ کے جرائم   ہیں اب ان میں جنسی جرائم بھی نمایاں ہو رہے ہیں ۔

جرائم میں اضافے کے کئی اسباب ہیں ،معاشرے میں اقتصادی تغیر رونما ہوچکا ہے۔ قدیم زمانے کی وہ اخلاقی قدریں ختم ہوچکی ہیں ،جن قدروں کے حوالے سے اخلاقیات کا رونا رویا جاتا ہے۔ ہم معاشرتی تبدیلیوں کو محسوس تو کرتے ہیں لیکن ان کا تجزیہ کرنے کو تیار نہیں۔ ہماری فکر کے ڈانڈے ماضی سے ملتے ہیں ۔ حال کو دیکھنے اور پرکھنے کی جرات نہیں ،یہی وجہ ہے کہ اب گفتگو اور تحریر میں مبہم اور غیر یقینی باتیں پائیں گے۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ معاشرے کی تنظیم نو کے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ان کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں ہے کہ معاشرے کی تنظیم نو میں پرانے اور قدیم نظریات اور تصورات کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ کہ اب معاشرے میں اصلاحات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ تنظیم نو کے ضمن میں بنیادی بات تو یہ  ہے کہ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ معاشرتی زندگی کی بنیاد نظریات نہیں بلکہ “پیداواری رشتے “ ہیں۔معاشرے کی ہیت اس کی پیداوار کے ذرائع اور اس کی تقسیم میں بہت تبدیلی آچکی ہے لیکن ہم اس تبدیلی کو معاشرے کی پرانی ہیت پر اثر انداز نہیں ہونے دیتے، ہم صنعت و تجارت اور زرعی پیداوار کے نئے طریقوں اور انداز کو بحیثیت حقائق نہیں لیتے۔

یہ بھی پڑھیں : عظیم رہنماؤں کااستحقاق کیسے مجروح ہوتا ہے؟۔۔ آصف محمود

مثال کے طور پر ہم چور بازاری ،رشوت، اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف نظام معیشت برقرار رکھنے پر تیار ہیں تو پھر چور بازاری ،مہنگائی ،ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ہمارے ہاں ایسے سیاستدانوں اور رہنماؤں کی کمی نہیں جو ان معاشرتی برائیوں کو اخلاقیات کی تعلیم سے ختم کرنا چاہتے ہیں ۔یہ دراصل معاشرتی حقائق سے چشم پوشی کرنے کے مترادف ہے ۔وہ سرمایہ دار اور جاگیردارانہ ذہنیت کے مالک ہیں ۔

پنڈٹ جواہر لال نہرو جاگیرداری کے خلاف اپنے دلائل دیتے ہو ئے اکثر کہا کرتے تھے کہ روس نے زار کےبعد یہ کام انتہائی مختصر عرصے میں کرلیا تھا ،تو بھارت ایسا کیوں نہیں کرسکتا ۔؟

ہمارے ہاں کے قائدین اور راہنماؤں کے لیے سائنٹیفک تنظیم نو کا لفظ انتہائی تکلیف دہ بن گیا ہے ۔دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے کی تبدیلی کے خواہاں نہیں ۔ یہی وہ صاحب ِ اثر ہیں جو تنظیم نو کے لفظ سے بدکتے ہیں، یہ تمام لوگوں کی بھلائی ہر گز نہیں چاہتے۔ بلکہ یہ لوگ ذاتی ملکیت کو زندگی کا محور سمجھتے ہیں اور ملکیت کے زمرے ہی میں اخلاق آجاتا ہے۔ اور اخلاق بھی ذاتی ملکیت بن گیا ہے۔

ضرورت اس  بات کی ہے کہ ہم معاشرتی زندگی کے اقتصادی اور مادی عوامل کو زیرِ بحث لائیں اور معاشرتی برائیوں اور اس کے اسباب کا سائنٹیفک مطالعہ کریں  اور حقیقت پسندانہ نگاہ سے معاشرتی زندگی کو دیکھیں ۔جب تک آپ اور ہم ایسا نہیں کریں گے اس وقت تک معاشرے میں انتشار موجود رہے گا۔

میرے حساب سے سائنٹیفک تحقیق کا انحصار کسی مسئلے کے بارے میں ذاتی نقطہ نظر ، تجزیہ ،یا تجربے یا احساس پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ تحقیق ،ریسرچ اور دستیاب مواد کو سائنسی نقطہ نظر سے زیر تجزیہ لانے کا عمل ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ پاکستان کی معاشی ،سماجی، مذہبی ، سیاسی اور اقتصادی و معاشرتی زندگی میں تیزی سے پھیلتی ہوئی کرپشن سے افواج پاکستان بھی نہیں بچ سکی، کہ فوج کی طاقت بے حساب ہے ،اس لیے اس کی کرپشن کی بھی کوئی حد نہیں کہ کون اپنے “سیاسی کردار” سے دستبردار ہونا چاہے گا، جب کہ اس کردار کے ساتھ وافر مال و دولت وابستہ ہو۔

ایک بار اگر اس ادارے نے اپنی بیرکوں سے نکل کر اپنے آپ کی ملک شاد باد کی معاشی مین سٹریم سے جوڑا تو بعض افراد کی دولت   میں بے حساب و بے پناہ اضافہ لازم تھا۔ میرے حساب سے جب سیاسی اور معاشی مفادات کو یکجا ہوجائیں تو فوج کا اپنی بیرکوں میں رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اب آئیے ایک حکایت سنیے۔۔
یار رہے کہ اس حکایت کا میرے کالم سے ہرگز کوئی تعلق و واسطہ نہیں ۔

ایک ایسے ہی انتشار زدہ معاشرے اور لہولہان ملک کا “بادشاہ” جنگل میں شکار کھیلنے گیا اس نے  ایک  خوبصورت ہرنی کا نشانہ لیا جو خطا گیا۔

بولا “بچ گئی” ۔۔۔

پھر ایک خرگوش کا نشانہ لیا وہ بھی خطا گیا۔

بولا “بچ گیا”۔۔۔

اتنے میں پہاڑ سے ایک بھاری پتھر لڑھکا ،قریب تھا کہ بادشاہ اس پتھر کے نیچے آکر کچلا جاتا مگر وہ تیزی سے پہلو بچا گیا ۔اتنے کہیں سے آواز آئی۔۔۔”بچ گیا”!

Advertisements
julia rana solicitors

لوگ بچتے ہیں محبت کی پریشانی سے
میں نے سیکھاہے محبت میں پریشاں ہونا!!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply