’’واحد قابل عمل راستہ” اور ایک تمثیلی کہانی!

وہ شہر کے مشرق میں اچھا خاصا بڑا، بہت پرانا مگر ایک نہایت بدنصیب محلہ تھا… سب محلے والے نظریاتی اعتبار سے گرچہ ایک تھے… مگر ثقافتی پس منظر، عادات اور مزاج سب الگ الگ رکھتے تھے!

Advertisements
julia rana solicitors

اس محلے پر شروع سے بدنصیبی کے سائے نہ تھے… صدیوں پہلے یہ محلہ شہر کا سب سے حسین گوشہ شمار ہوتا تھا… محلے والوں کا دبدبہ ایسا تھا کہ دوردراز کے محلوں میں رہنے والی مائیں اپنے بچوں کو اس محلے کے سپوتوں سے ڈرایا کرتیں… سارے شہر میں اس محلے کا حکم چلتا اورخود یہ محلے والے آسمانی احکام کے پابند تھے… یہاں کی درس گاہیں مشہور تھیں… سارے شہر کے بچے یہاں پڑھنے آتے اور علم کی روشنی پاتے… اپنی اچھی صفات کی وجہ سے محلے والوں پر صبح شام آسمان سے گویا ہن برستا مگر…
مگر پھر نجانے کیا ہوا کہ اس محلے کی چند عورتیں غداروں کو جنم دینے لگیں!
یہ سنپولیے ایسے تھے کہ دوسرے محلے والوں کے بہکاوے میں آ کر اپنے ہی فرشتہ صفت بھائیوں کو ڈسنے لگے… آستین کے سانپ بن کر یہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے لگے… آپسی لڑائیاں کیا شروع ہوئیں، محلے کا زوال شروع ہو گیا… عروج کی تابناکی زوال کی ظلمت میں ڈھلنے لگی…دھیرے دھیرے نحوست اس محلےپر، پر پھیلائےسایہ فگن ہو گئی… طرح طرح کی خطرناک بیماریاں محلے میں پھیلنے لگیں… آخر ایک دن ایسا منحوس بھی آیا کہ اس محلے میں اقتدار کا سورج غروب ہو گیا اور صدیوں سے محکوم… شہر کے مغربی محلے میں طلوع ہو گیا…وہ محلہ جو’’زمین‘‘ کی پوجا کرتا تھا!
اس ساری ہزیمت کے باوجود… یہاں چند دیوانے کسی نہ کسی درجے میں چوں کہ آسمانی احکام کو زندہ رکھے ہوئے تھے، سودبیز ظلمتوں میں بھی کسی کسی گھر میں کوئی شمع روشن ہوتی رہتی، کچھ تتلیاں ادھر کا بھی رخ کرتی رہتیں… پہلے کی سی بہار تو نہ تھی مگر چند گل تھے جو خوشبو بکھیرتے رہتے …
مگر تقریباً سو سال قبل ایک ایسا ہولناک جرثومہ اس محلے میں پھیلایا گیا کہ یہاں کی عورتوں کی کوکھ ویران ہونے لگی… ان کے ہاں فطری انداز میں بچے پیدا ہونا بند ہو گئے… وہ حسین خوش بخت بچے جو کبھی یہاں کی روشن علامت تھے، نظر آنا بند ہو گئے…شمعیں گل ہونے لگیں، وہ جو چند پھول تھے باقی، وہ بھی مرجھا گئے… رنگ برنگی تتلیاں یہاں کے باسیوں سے روٹھ کرکہیں دور چلی گئیں…
صدیوں سے آفت زدہ یہ لوگ اس افتاد پر تو حواس باختہ ہو گئے…بچے نہیں ہوں گے تو ان کے اقتدار کا سورج دوبارہ کیسے طلوع ہوگا… وہ سنہری دن دوبارہ کیسے آئیں گے جن کی یاد انہیں صدیوں سے بے کل کیے ہوئے تھی…
بہرحال ایک دن مغربی محلے سے تعلق رکھنے والے شہر کے ظالم حکمرانوں نے بظاہر بڑی ہمدردی جتاتے ہوئے ان مظلوم محکوموں کو بتایا کہ اپنے بچے پیدا کرنے کے لیے ہماری عورتوں کی کوکھ کرائے پر لو… اسی میں تمہاری کامیابی ہے…
بس پھر کیا تھا… یہاں کے غلام گھرانوں نے دھڑا دھڑ حکمران محلے کی عورتوں کی کوکھ کرائے پر (سروگیسی) لینا شروع کر دی… عیار حکمرانوں نے تلبیس کی ایسی گرد اڑائی کہ یہاں کے سادہ دل لوگوں نے دشمن عورتوں کی آوارہ کوکھ کو آسمانی صحیفے کی طرح مقدس مان لیا …ایسی مقدس کہ وہ اس کے لیے جانیں قربان کرنے لگےاور ’’شہید کوکھ‘‘ کہلوانے لگے…
دھول آنکھوں میں یہاں تک جھونکی گئی کہ عام لوگ ہی نہیں بلکہ خواص جو آسمانی احکام کی تبلیغ کیا کرتے تھے، کی غالب اکثریت نے بھی آسمانی ہدایت کو بھلا کر …اس ’نجات دہندہ ‘ کو پانے کے لیے دشمنوں کی کوکھ کا انتخاب کیا… جو ان کے خیال میں دشمن کی کوکھ سے پیدا ہو کر، انہیں دشمنوں کے شکنجے سے نجات دلائے گا…
بارآوری شروع ہوئی… اور دشمن عورتوں کی آوارہ کوکھ سے بچے پیدا ہو نے لگے… مگر کیسے؟ لولے لنگڑے، اندھے کانے… اور مغربی محلے کے وفادار… اور بھلا کیوں نہ ہوتے، کوکھ کا اثر تو ہوتا ہی ہے!
مگر یا اسفاہ…سادہ دل مخلصین نے امید کا دامن پھر بھی نہ چھوڑا… چند عقل مند جو اس محلے میں باقی رہ گئے تھے، جب انہیں سمجھاتے توآگے سے کہتے…
“یہ واحد قابل عمل راستہ ہے”، “نجات دہندہ” کی آمد کا…
عقل مند انہیں کہتے: “بے وقوفو!… چلو اسے حالت اضطرار سمجھتے ہو تو ٹھیک ہے، اس بدبودار کرائے کی کوکھ سے لولے لنگڑے بچے پیدا کرتے رہو مگر یاد رکھو وہ حسین موتی، وہ گوہر آبدار، وہ نجات دہندہ جس کی تم امید کر رہے ہو… وہ دشمن کی کوکھ سے کبھی پیدا نہیں ہو گا… کیوں کہ کوکھ کا اثر تو ہوتا ہی ہے!
اور اگر قسمت سے کسی بچے میں کوکھ کا اثر کم آئے اور’باپ‘ کا خون جوش مارنے بھی لگے تب بھی یہ ظالم حکمران اپنی ہی کوکھ سے پیدا کردہ اس بچے کو مار دیں گے… وہ اسے زندہ نہ رہنے دیں گے جیسے وہ کونے والے ’بابا مصری‘ کے بچے کو مار دیا گیا اور تین گھر چھوڑ کر ’جمال ترک‘ کے بچے پر گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔”
مخلص مگر بے وقوف محلے والوں نے عقل کے ناخن نہ لیے… اور بجائے نصیحت پکڑنے کے تمسخر بھرے انداز میں عقل مندوں کو چیلنج کرنے لگے کہ اگر تم اس کرائے کی کوکھ کے بغیر نجات دہندہ پیدا کر سکو تو کر کے دکھاؤ!
’پاک گل‘ کے پڑوسی ’طالب افغان‘ نے یہ چیلنج قبول کر لیا… اس نے آسمانی ہدایت کو پیش نگاہ رکھا اور جلد ہی ان کے ہاں فطری انداز میں ثمر بارآور ہوا… ایک نہایت حسین بچے کی کلکاریاں فضا میں گونجیں تو محلےوالوں نے ہی نہیں، شہر بھر نے انگلیاں دانتوں میں دبا لیں… ہر طرف خطرے کے الارم بجنے لگے… (پھر کیا ہوا یہ سب کو معلوم ہے)
قصہ مختصر اس محلے کے ناعاقبت اندیش لوگ ابھی بھی پرائی کوکھ کے دیوانے ہیں… وہ گویا اس بات پر ایمان لے آئے ہیں کہ اس پرائی زمین سے ہی وہ لالہ و گل اگیں گے جن کی مشک بار خوشبوئیں، خوشیوں کی تتلیوں کوکھینچ لائیں گی…
لیکن بے چارے نہیں جانتے کہ
شورزدہ زمین میں گلاب بونے سے گل نہیں، کانٹے دار جھاڑ جھنکاڑ ہی اگتے ہیں…دشمن کی آوارہ کوکھ سے تمہارے دشمن ہی پیدا ہونے ہیں… تمہارے نجات دہندہ نہیں!
٭٭٭
پس مضمون:
٭’’سروگیسی‘‘ کرائے کی کوکھ کو کہتے ہیں!
وہ جوڑے جو بچہ خود پیدا نہیں کرنا چاہتے یا نہیں کر سکتے، وہ پیسے کے زور پر’گروسیٹ مدر‘ یعنی کرائے کی ماں کا بندوبست کرتے ہیں، جومخصوص مدت تک اپنی کوکھ ضرورت مند جوڑے کو کرائے پر دے دیتی ہے!
٭اگر آپ کے ہاں آپ کے ’’کالے کرتوتوں‘‘ کی وجہ سے نیک صالح بچہ جنم نہیں لے پا رہا…تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ عالمی طوائف (جمہوریت) کی آوارہ کوکھ کرائے پر لے کر اس سے نیک اور صالح بچے کی امید رکھیں…
مگر ایک صاحب کی عقل کو سلام ہے… کہتے ہیں یہی ’’واحد قابل عمل راستہ‘‘ ہے اسلامی نظام کے نفاذ کا!
بھلا ’’جمہوریت‘‘ کی کوکھ سے اسلامی نظام جنم لے سکتا ہے…ایں چہ بوالعجبی است!؟

Facebook Comments

محمد فیصل شہزاد
فیصل کو منفرد سوچنے کی عادت ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply