بھارتی حکومت کی این ڈی ٹی وی کی نشریات پہ پابندی

طاہر یاسین طاہر
انتہا پسندانہ روش اور سوچ جہاں بھی ہو گی وہاں سب سے پہلا ہدف اختلاف رائے ہو گا۔پٹھان کوٹ حملہ پاک بھارت تعلقات میں تنائو کی وجہ بھی بنا،بھارت نے حسب سابق حملہ کی منصوبہ بندی اور حملے کا الزام پاکستان پر لگایا جبکہ پاکستان نے بھارت سے کہا کہ بھارت کے پاس حملے کے شواہد ہیں تو پاکستان کو دیے جائیں۔یہ امر واضح ہے کہ ابھی حملہ آوروں کی تعداد تک کا بھارتی قومی سلامتی کے اداروں کو علم نہ تھا کہ انھوں نے الزام پاکستان پر لگانا شروع کر دیا تھا۔یہ امر بھی واقعہ ہے کہ ہندوستان کی تحقیقاتی ایجنسی نے پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کے واقعے کی تحقیقات کے دوران انکشاف کیا ہے کہ ایئربیس سے ملحقہ علاقوں میں رہنے والے لوگ سیکیورٹی گارڈز کو محض 20 روپے دے کر ایئربیس میں داخل ہوتے تھے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کرنے والی ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے وزارت داخلہ کواپنی تحقیقات کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا کہ یہ معمول کی بات تھی کہ مقامی آبادی کے کئی افراد اپنے مویشیوں کو چَرانے اور ایئربیس میں موجود دکانوں سے خریداری کے لیے ایئربیس کے استعمال نہ ہونے والےگیٹس پر سیکیورٹی اہلکاروں کو 20 روپے دے کر داخل ہوتے تھے۔دریں اثنا فروری میں پٹھان کوٹ ایئربیس حملے کی تحقیقات کی غرض سے پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی ٹیم نے وزارت خارجہ سے کہا تھا کہ حملے سے متعلق ہندوستان سے مزید ثبوت طلب کیے جائیں۔ ہندوستان کی جانب سے پاکستان کو فراہم کردہ پانچ موبائل نمبروں کے حوالے سے اپنی تحقیقات مکمل کرلی ہیں، لیکن اسے ان نمبروں کے غیر رجسٹر ہونے اور جعلی شناخت کی وجہ سے کوئی خاص کامیابی نہیں ملی.یہ وہ مختصر پس منظر ہے مگر پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کے وقت این ڈی ٹی وی پر الزام ہے کہ اس نے بعض حساس معلومات کو اپنی نشریات کا حصہ بنایا جس سے بھارتی قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے۔
پٹھان کوٹ ایئربیس پر عسکریت پسندوں کے حملے کے دوران حساس معلومات نشر کرنے کے جرم میں ہندوستانی حکومت نے این ڈی ٹی وی کو حکم دیا ہے کہ وہ سزا کے طور پر 9 نومبر کو ایک دن کے لیے اپنی نشریات بند رکھے۔ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک بین الوزارتی کمیٹی نے قرار دیا کہ رواں برس جنوری میں پٹھان کوٹ حملے کی کوریج کرتے ہوئے مذکورہ چینل نے نشریات کے اصولوں کی خلاف ورزی کی۔کمیٹی کی جانب سے اس بات کے انکشاف کے بعد کہ چینل نے 2 جنوری کو ایئربیس پر حملے کی رپورٹنگ کے دوران ;حساس اسٹریٹیجک معلومات نشر کیں، وزارت اطلاعات و نشریات نے جمعرات 3 نومبر کو چینل پر پابندی کے فیصلے کا اعلان کیا۔رپورٹ کے مطابق چینل کے نیوز اینکر اور نمائندے نے اس حوالے سے معلومات دیں کہ کتنے عسکریت پسند ایئر بیس میں داخل ہوئے اور یہ کہ فوج انھیں زیر کرنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ہندوستان ٹائمز نے مذکورہ کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے لکھا،اس طرح کی اہم معلومات فوراً دہشت گردوں کے سہولت کار حاصل کرلیتے ہیں اور اس کی بنیاد پر وہ نہ صرف قومی سلامتی بلکہ عام شہریوں اور فوجی اہلکاروں کی زندگیوں کے لیے بھی بڑے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چینل نے اپنی کوریج کے دوران اسلحے، ایئربیس میں اسٹاک کیے گئے بارودی مواد، جنگی طیاروں اور فیول ٹینکوں کے بارے میں بھی بتایا، جن پر دہشت گرد حملہ کرسکتے تھے، یہ تفصیلات حملے کی سرکاری بریفنگ کے دوران نہیں بتائی گئی تھیں۔مزید کہا گیا کہ حملے کے مقام اور یرغمالی صورتحال کے دوران انسداد دہشت گردی کے آپریشن سے متعلق اس قسم کی معلومات نشر کرنا کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک (ترمیمی) قانون برائے 2015 کی خلاف ورزی ہے۔واضح رہے کہ مذکورہ قانون کی رُو سے سیکیورٹی فورسز کے انسداد دہشت گردی آپریشن کی براہ راست کوریج پر پابندی عائد ہوتی ہے۔رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ میڈیا کوریج کو اُس وقت تک روک دینا چاہیے جب تک متعلقہ افسران آپریشن کے اختتام کے بعد خود اس حوالے سے بریفنگ نہ دیں۔دوسری جانب قوانین کی خلاف ورزی پر شوکاز نوٹس جاری ہونے پر این ڈی ٹی وی نے اپنے جواب میں کہا کہ انھوں نے جو معلومات نشر کیں وہ زیادہ تر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر عام تھیں۔ہندوستان ٹائمز کے مطابق اس سے قبل بھی چینلز کی نشریات بند کی جاتی رہی ہیں، الجزیرہ ٹی وی کی نشریات کو ہندوستان کا غلط نقشہ دکھانے پر 5 دن کے لیے بند کردیا گیا تھا، اب تک چینل کی نشریات کی بندش کے تقریباً 28 واقعات ہوچکے ہیں۔ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے ہندی چینل این ڈی ٹی وی انڈیا کی نشریات پر ایک دن کی روک لگانے کے بین وزارتی کمیٹی کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے آج کہا کہ حکومت کے اس فیصلے سے ایمرجنسی کے دنوں کی یاد تازہ ہوگئی اور یہ میڈیا پر سخت سنسرشپ کے مترادف ہے ۔
یہ امر واقعی ہے کہ عوامی حکومتیں جب عوام کی بنیادی ضروریات پورا کرنے سے قاصر ہو جاتی ہیں تو پھر قومی مفاد اور ریاستی تحفظ کے نام پر زبان بندیاں کی جاتی ہیں۔ تاریخ اس امر پر شاہد ہے۔این ڈی ٹی وی نے جو معلومات نشر کی تھیں بقول ٹی وی انتظامیہ وہ ساری معلومات سوشل میڈیا پر ڈسکس ہو رہی تھیں۔ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور خواہش کو خبر بنانے کے بجائے معروضی خبریں دے ،جبکہ تجزیہ کاروں کو بھی سنسنی خیز تجزیات کے بجائے مشاہدات اور تاریخی واقعات سے استفادہ کرنا چاہیے،مگر حکومتیں یہ توقع کرتی ہیں کہ ہر میڈیا گروپ حکومتی ترجمان کا کردار ادا کرے۔ یہ صورتحال ایشیا میں قدرے زیادہ ہے۔بھارتی حکومت کا یہ فیصلہ کسی بھی طور ایک بڑے جمہوری ملک ہونے کے دعوے دار کا عکاس نہیں ۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply