پنجاب یونیورسٹی میں مفادات کی جنگ

پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے بات آئے توجمعیت کے نام سے تو کسی نہ کسی صورت آپ واقف ہوں گے۔ البتہ پنجاب یونیورسٹی میں پشتون کا اکثریت کو علم نہیں ہے۔ سابقہ وائس چانسلر مجاہد کامران نے اپنی رئیس جامعہ کی کرسی بچانے کے لئے وہ تمام تر قانونی اور غیر قانونی اختیارات کو استعمال کیا جس کی بدولت وہ چار سال کی بجائے ساڑھے نو سال تک جامعہ پنجاب پر حکمرانی کرتے رہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے اساتذہ کے اندر اپنے گروپ کو مضبوط بنانے کےلئے نہ صرف ان کو ترقیوں اور عہدوں سے نوازا،بلکہ جس بھی استاذ یا ملازم نےان کے اس مقصد کی حکم عدولی کی اس کو دیوار سے لگا ئےرکھا۔ عام طالب علم کو پنجاب یونیورسٹی کی اندرونی سیاست کا زیادہ علم نہیں ہوتا ۔اس لئے سابقہ وائس چانسلر نے ہمیشہ جمعیت کو اپنے لئے رکاوٹ سمجھا کیونکہ جمعیت کا وجود اول روز سے ہی جامعہ پنجاب کے ساتھ رہا ہے اور جمعیت کے ارکان عام طلبہ سےزیادہ اندرونی سیاست سے واقف ہوتے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ پہلے اگر جمعیت، انتظامیہ یا مجاہد کامران کے خلاف کوئی چیز لے کر سامنے آجاتی تھی تو تصادم کی صورت میں جمعیت کے مقابلے وہ اساتذہ آجاتے تھے جن کو منشاء کے مطابق عہدوں اور سفارشات سے نوازاگیا تھا اورپھر آرام سے میڈیا پر خبر چلتی تھی کہ جمعیت نے اساتذہ پر تشدد کیا۔پشتون طلباء جو اس اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں موجود ہیں وہ ایچ ای سی اور پنجاب یونیورسٹی کے بلوچستان کے لئے مختص مخصوص سیٹوں پر آئے ہوئے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان کے طلباء کے لئے پنجاب یونیورسٹی کے ہر ڈیپارٹمنٹ کے تمام پروگراموں میں ایک ایک سیٹ مختص ہے لیکن ان سیٹوں پر صرف 10 فیصد سے بھی کم بلوچ طلباء کا داخلہ ہوا ہے اور باقی 90 فیصد سے زائد سیٹوں پر ان پشتون کا داخلہ ہوا ہے جو میرٹ پر ہی پوا نہیں اترتے ہیں۔ ان کو خصوصی رعایت حاصل ہیں۔ داخلہ فیس کے علاوہ رہائش بھی بالکل مفت اور ماہانہ وظیفہ بھی ملتا ہے۔میں خود بھی اسی یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اس لئے ایسے افراد ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں کہ جب وہ یونیورسٹی میں آئے تھے تو ان کی حالت دیکھ کر ترس آرہا تھا آج وہی لوگ رئیسوں کی طرح شاہانہ انداز میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔مجاہد کامران بالآخر تخت جامعہ سے اتر ہی گئے لیکن ان کا بنایا ہوا گروپ آج بھی وفاداری کے ساتھ اس مشن پر قائم ہے ۔ نئے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین آتے ہی “Right man for right job” کے اصول کے تحت چند اساتذہ کو جو تدریس کے ساتھ ساتھ بیک وقت کئی انتظامی عہدوں پر بھی قابض تھے ان کو فارع کر کے صرف تدریسی عہدوں پر بھیج دیا۔ لیکن ابھی وہ قائم مقام وائس چانسلر ہیں اور ان کے اختیارات بھی محدود ہیں اور سابق وائس چانسلر کے گروپ کے بہت سے افراد اب بھی ایک سے زیادہ عہدوں پر براجماں ہیں اور موجودہ قائم مقام وی سی کو اپنے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں۔
اس مقصد کی خاطر وہ اب بھی ان پشتون طلبہ کو جن کو میرٹ سے ہٹ کر داخلہ اور دیگر رعایات سے نوازا گیا ہے ان کو جمعیت کے مدمقابل لا کر یونیورسٹی میں ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ جن سے ایک طرف یہ تاثر دیا جائے کہ قائم مقام وائس چانسلر سے یونیورسٹی کے حالات نہیں سنبھالے جا رہے ہیں لہٰذا انہی کے گروپ کو ہی یونیورسٹی میں اعلی ٰاختیارات دئے جائے.۔ دوسری طرف جمعیت کو اس لحاز سے کمروز کردیا جائے کہ وہ بھی ان کے خلاف لب کشائی سے گزیر کرے۔ جمعیت اور پشتوں طلباء کے درمیان لڑائی سے پورے پاکستان میں ایک طرف لسانی پھر صوبائی تعصبات کو مزید ہوا مل رہی ہے تو دوسری طرف اسلام پسند اور قوم پرست دونوں کے ہم خیال افراد میں بھی مزید نفرتیں جنم لیتی ہیں۔ جمعیت کے اندر بھی بہت زیادہ تعداد میں پشتون طلباء موجود ہیں اور پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس کے ناظم سکندراعظم خود بھی پشتون اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 21 مارچ کو جہاں جمعیت نے یوم پاکستان کے حوالے سے تصویری نمائش کا انعقاد کیا دوسری طرف اسی دن پشتون طلباء نے بھی اپنا کلچر ڈے منانے کا فیصلہ ۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی یونیورسٹی اور وسیع و عریض جگہ ہونے کے باوجود انتظامیہ نے پشتون طلبہ کو بھی اسی جگہ پروگرام کرانے کی اجازت دی جہاں جمعیت کا یوم پاکستان کے حوالے سے تصویری نمائش کا پروگرام ہونا تھا۔ دوسری طرف چند قدم کے فاصلے پر طالبات کے پروگرام کے لئے اجازت دی گئی۔ اسی طرح ایک ہی دن میں تین پروگرام ایک ہی جگہ طے ہو گئے۔ ایک طرف قومی و ملی ترانوں میں پاکستان کی تصویری نمائش جاری تھی تو مدمقابل دوسری طرف ڈھول کی ٹھاپ پر ڈانس۔ انتظامیہ آگ بھڑکا کر تماشائی بن گئی نتیجے میں جمعیت کے چند افراد مشتعل ہو گئے اور زبردستی گانے اور ڈانس رکوانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں تصادم ہوا ۔ پشتوں طلباء نے نہ صرف جمعیت کے کیمپ کو آگ لگادی بلکہ طالبات کے پروگرام پر بھی دھاوا بول دیا ۔ اور اسٹیج کو آگ لگادی جس کی وجہ سے تمام شرکاء جن میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل (ممبر اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان) جو کہ خود بھی پختون ہیں سمیت متعدد سماجی کارکن مہمان تھیں اپنی جان بجانے کے لئے وہاں سے نکل گئیں۔بقول ڈاکٹر سمیحہ وہ پختون کی ماں اور بلوچ کی بہو ہیں اور انھوں نے پشتو میں ان روکنے کی ہرممکن کوشش کی لیکن وہ جس مقصد کے لئے آئے تھے وہ پورا کرکے گئے۔ پشتون مشعل طلباء نے جمعیت کے کارکنان کے کمروں کو توڑا اور لیپ ٹاپ سمیت تمام سامان بھی اٹھا کر لے گئے .سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پورے پاکستان میں کہیں بھی 21 مارچ کو پشتون کلچر ڈے نہیں منایا جا تا تو صرف پنجاب یونیورسٹی ہی میں کیوں؟ اسی وقت، اسی دن اور اسی جگہ کلچر ڈے منایا گیا۔ جہاں دوسرے طلبہ تنظیم کا پروگرام تھا؟ حالانکہ اس سے پہلے 13 مارچ کو بلوچ کلچر ڈے جمعیت اور بلوچستان کے طلباء مل کر مناچکے تھے اس میں پشتون کلچر کے بھی اسٹال موجود تھے ۔۔
اس کے باوجود 21 مارچ کو دوبارہ کلچر ڈے منانا اپنے اندر بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔انتظامیہ کا اصل چہرہ اس میں واضح نظر آتا ہے۔ ہنگامہ آرائی کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کے اشاروں پر پشتون طلباء پریس کانفرنس کے لئے پریس کلب گئے جہاں پنجاب یونیورسٹی کے PRO خرم شہزاد ان کو ہدایات دیتے رہے کہ آپ نے کیا کچھ کہنا ہے اور کس انداز میں کہنا ہے۔اس وقت دونوں طرف سے 12 افراد ہسپتال میں ہیں جن میں سے ایک طالب علم کو پشتون طلباء نےزندہ جلانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ان کے جسم کا 20 فیصد حصہ جھلس چکا ہے۔ آج اگر پشتون طلباء لسانی بنیاد پر سر اٹھارہے ہیں اور ان کو مخصوص طبقےکی سرپرستی بھی حاصل ہے تو بعید نہیں کہ ان کی دیکھا دیکھی کل کو لسانی بنیاد پر پنجابی، بلوچ، پٹھان،سرائیکی یا پھر صوبائی اور ذات پات کی بنیاد پر مختلف تنظیمیں سر اٹھائیں گی۔ جمعیت کے اندر بہت سی خامیوں کے ساتھ ایک بنیادی خوبی یہ ہے کہ اس کے اندر بلوچ، پشتون، پنجابی، سندھی ہر علاقے اور ہر ذات کے طلباء موجود ہیں۔ جمعیت کے ناظم اعلیٰ خود پختون ہیں جو پورے پاکستان کی جمعیت کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس لیے یہ جمعیت اور پشتون کی لڑائی نہیں ہے ۔پنجاب یونیورسٹی وہ واحد یونیورسٹی ہے جہاں دوسرے صوبوں اور علاقوں سے آئے ہوئے طلبہ خود کو پورے پاکستان میں سب سے ذیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ زندہ دلان لاہور نے اپنیزندہ دلی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے دل میں ان کو جگہ دی ہیں۔ طلباء میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ بھی موجود ہیں۔اس وقت چھتیس ہزار کے قریب سٹوڈنٹ زیر تعلیم ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں جوان خون کا ایک جگہ جمع ہونا اور پھر سال میں ایک یا دو بار لڑائی کا واقعہ پیشآنا کوئی زیادہ تشویش والی بات نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ اس کو آگ اب گھر کے چراغ سے لگنے لگی ہے۔

Facebook Comments

عبدالحلیم شرر
اک سنگ بدنما ہے بظاہر میرا تعارف ۔۔ کوئی تراش لے تو بڑے کام کا ہوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply