باد کوبیدن نامی شہر میں۔۔مجاہد مرزا

جب کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر نے اپنی کتاب ’’قسطنطنیہ سے عمر خیام کے شہر تک‘‘ میں لکھا تھا ’’باکو دنیا میں استعمال کیے جانے والے تیل کا پانچواں حصہ پیدا کر رہا ہے‘‘ تب مامید امین رسول زادہ، ان کے کزن علی رٍضا رسول زادہ، عباس گلو کاظم زادہ اور تقی نکی اوگلو نے مساوات پارٹی، جس کا ابتدائی نام مسلم ڈیموکریٹک مساوات پارٹی تھا، کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ 1911ء تھا، پھر اسی مساوات پارٹی نے 1918ء میں اس علاقے کو وہ قدیم نام یعنی ’’آذر بائیجان‘‘ دے کر، جس کے معانی آگ کی سرزمین تھا، اسے عالم اسلام میں پہلی سکیولر ریاست ’’جمہوریہ آذر بائیجان‘‘ بنا دیا تھا۔ اس کا دارالحکومت باکو ہے جو دو فارسی الفاظ ’’باد‘‘ اور ’’کوبیدن‘‘ یعنی تھپیڑے مارتی ہوا کا مرکب ہے۔ اس شہر کی تصاویر دیکھ کر لگتا تھا کہ کوئی پرانا شہر ہے۔ ہے تو سہی لیکن اب ماڈرن ہو چکا ہو گا، یہی خیال تھا۔
پیر کی شام دبئی سے جواد چوہدری نے بتایا کہ آپ کو آج یا کل باکو پہنچنا ہے۔ بات تو کوئی دو ہفتے سے چل رہی تھی مگر پروگرام معلوم نہیں تھا۔ میں جھلا گیا کہ یہ کیا بات ہوئی۔ بات یہ ہے کہ بندہ خاصا سست الوجود واقع ہوا ہے، البتہ کوئی کام ذمے لے لے تو نا صرف اسے انتہائی مستعدی کے ساتھ کرتا ہے بلکہ احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک بھی پہنچاتا ہے، چاہے خود پر جتنی بھی کیوں نہ گزرے۔ عزیزم نے اعتراف کیا کہ غلطی اس کی تھی، قبل از وقت مطلع کرنے سے قاصر رہا تھا۔
جاؤں نہ جاؤں کی کشمکش میں میں نے جانے سے انکار کر دیا مگر جواد نے کہا کہ وہ تو ایئر ٹکٹ بکنگ کرانے بیٹھا ہے۔ اچھا تو کل سہ پہر کا ٹکٹ لے لو مگر ہوٹل کا بندوبست پہلے کرنا۔ جی ضرور، جن لوگوں سے آپ کو معاونت کرنی ہے وہ بدھ گیارہ بجے پہنچیں گے، اس نے بتایا تھا۔ آپ منگل کو چلے جائیں تاکہ کچھ آرام کر لیں۔ ای ٹکٹ تو دس بجے رات ای میل ایڈریس پر موصول ہو گیا مگر ہوٹل بکنگ رات بارہ بجے تک ندارد۔ پھر رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ اسے ہنگامی طور پر کسی کام کے لیے نکلنا پڑا ہے، رات کو کسی وقت بھی بکنگ کرا دے گا۔
خیر صبح یہ کام بھی ای میل ایڈریس پر ہوا پڑا تھا۔ دنیا کیسی ہو گئی ہے۔ ہر کام گھر بیٹھے ہو جاتا ہے۔ ہاتھ میں کوئی کاغذ بشکل ٹکٹ وغیرہ درکار نہیں رہا اب۔ نازک مزاج واقع ہوا ہوں۔ رات اس خدشے میں نیند اچھی نہ آ سکی کہ ہوٹل بک نہ ہوا تو کہاں ہوٹل تلاشتا پھروں گا۔ پھر اڑھائی بجے دن کی پرواز کے لیے دور کے ہوائی اڈے پر پہنچنے کی خاطر صبح دس ساڑھے دس بجے نکلنا تھا۔ اس لیے فون پر انٹرنیٹ چلوانے کے لیے وقت نہیں تھا۔ جن سے ملنا ہے ان سے رابطہ کیسے ہو گا، یہ سوچ بھی نیند کی دشمن رہی تھی۔
صبح دیکھا تو فشار خون کی ایک دوا ختم تھی۔ یہ دوا روس میں کم ملتی ہے، ویسے بھی ضرورت کے وقت چیز عموماً نہیں ملا کرتی۔ دوا بہت ضروری تھی چنانچہ ڈھونڈنے میں خاصا وقت لگ گیا۔ گھر پہنچا اور ناشتہ کرتے ہی نکل کھڑا ہوا۔ ایئر پورٹ پر پہنچا جہاں ایئر لائن ایس سیون کے چالیسیوں کاؤنٹر ہیں۔ ای ٹکٹ اسی ایئر لائن نے بک کیا تھا۔ پہلے ایک لائن میں، پھر دوسری لائن میں، مگر دونوں بار یہی کہا گیا کہ فقط یہ ہماری کمپنی نے جاری کیا ہے، ہے آزال یعنی آذربائیجان ایئر لائن کا۔ بھئی اس کا کاؤنٹر ہے کہاں، دونوں خواتین کا جواب تھا کہ ڈھونڈ لیں۔ معلومات کے کاؤنٹر سے جا کر پتا کیا تو کاؤنٹر 30 تا 34 بتایا گیا۔ میں کہیں 100 سے آگے خوار ہوتا پھرا تھا۔ کاؤنٹر نمبر 32 والی نے فوراً بورڈنگ کارڈ دینا چاہا تو میں نے کہا مجھے سائیڈ سیٹ دیں۔ ایسی سیٹ طیارے کے آخر میں بچی تھی جو اس نے مجھے دے دی۔
اپنی نشست پر جا کر کے بیٹھ گیا جو 38 سی تھی۔ میرے آس پاس منوں وزنی خواتین اپنی اپنی نشستوں پر دھڑام دھڑام سے یوں نشستیں رکھ رہی تھیں کہ طیارہ ہل جاتا تھا۔ ساتھ ہی اوپر کے خانوں میں دس کلو گرام کے نام پر اٹھارہ اٹھارہ، بیس بیس کلوگرام کے تھیلے، سوٹ کیس اور پیکٹ ٹھونسے جا رہے تھے۔ میری آنکھیں اوپر نیچے دیکھ کر پھٹی ہوئی تھی۔ ڈر رہا تھا کہ اڑھائی سو وزنی افراد اور ان کے سامان کو لے کر یہ طیارہ بلند بھی ہو پائے گا کہ نہیں۔ نشستیں تقریباً پُر ہو چکی تھیں مگر میرے ساتھ کی دو نشستیں خالی تھی۔ دعا مانگ رہا تھا کہ کوئی دھان پان ہی آ کر کے بیٹھے کہ ایک پہلوان اور اس کا تنومند بیٹا آن پہنچے۔ باپ کھڑکی والی سیٹ میں ٹک گیا اور باڈی بلڈر بیٹا ہم دونوں کے بیچ پھنس کر بیٹھ گیا۔ اس اٹھارہ بیس سال کے نوجوان کا اوپر کا دھڑ سلمان خان کے دھڑ ایسا تھا۔ بیچارہ سکیڑ بھی لیتا تو کتنا۔ بازو تو اسے ہتھے پر ہی رکھنا تھا۔ لڑکا خلیق تھا مگر اپنے حجم سے مجبور۔
میں تنگ صف میں نمازی کی طرح ایک جانب کو ہو کر بیٹھا رہا۔ پرواز ان تمام اوزان کے باوجود ہموار تھی۔ اللہ پائلٹ نسیم جعفروو کا بھلا کرے جس نے طیارہ ایسے اتارا جیسے مکھن پر بال گرا ہو۔
ایک تھیلا ہی تو ساتھ تھا جس میں بس دو شلوار قمیص سوٹ اور شیو کا سامان تھا۔ جھٹ سے امیگریشن سے کلیئر ہو کر خوبصورت ایئر پورٹ کے بیرونی ہال میں پہنچ گیا۔ دو سو ڈالر بھنوا کر 330 منات لیے اور باہر نکل گیا۔ شام کو معلوم ہوا کہ پونے دس منات کا نقصان کر لیا۔ شہر میں شرح زیادہ تھی۔ ایئر پورٹ کے سامنے کی پارکنگ میں ایک ہی طرح کی پچاسیوں نئی ٹیکسیاں کھڑی دکھائی دیں۔ ابھی ایئرپورٹ سے شاید کوئی اور مسافر باہر نہیں نکلا تھا۔ تین چار ڈرائیور میری جانب لپکے۔ ایک گاڑی کر دروازہ کھول کر بولے بیٹھیے۔ اوہ بھائی یہ تو بتاؤ کیا لو گے۔ بیٹھ کر ڈرائیور سے طے کر لیجیے گا۔ بیٹھنے سے پہلے کیوں نہ کروں؟ چلیے آپ بتائیں کہ کتنے دیں گے۔ دس منات دوں گا، ایک نے قہقہہ لگایا اور دوسرے نے کہا کم سے کم چالیس منات۔ چھوڑو بھائی میں تم سے زیادہ آذری ہوں، کہتا ہوا ان کے نرغے سے نکلنے لگا (اب اپنی کہی بات پر آذر بائیجانیوں سے معافی مانگتا ہوں کیونکہ ہم نے یہاں اس قوم کے پھل فروش ہی دیکھے ہیں، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمارے ہاں کے شیخوں کی طرح، زبانی کلامی آپس میں سودا کر کے بیچی جانے والی چیز کی قیمت بڑھا کر اللہ کی نگاہ میں صاف ہو کر قسم کھا کر گاہک سے کہتے ہیں کہ ہم نے یہ شے دس میں لی ہے، چاہے اس کی ابتدائی قیمت خرید دو ہی کیوں نہ رہی ہو)۔ ڈرائیوروں کے ہوش ٹھکانے آئے، کیونکہ دنیا بھر میں ایئرپورٹ پر آزاد ٹیکسی ڈرائیور ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جس نے کم سے کم چالیس کہا تھا، میرے پیچھے بھاگ کر پوچھا آپ زیادہ سے زیادہ کتنے دیں گے۔ میں نے کہا پندرہ یا بیس۔ مار کھا گیا نا، ایک ہندسہ نہیں دو بول دیے، طے، چلیے بیس دیں، آئیں۔ میں نے ہنس کر کہا، پندرہ کیوں نہ دوں۔ بولا آپ نے زبان دی ہے اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر نکل لیا۔
ٹیکسیاں ویسی ہی ہیں جیسے لندن میں مگر ان کا دروازہ عام کاروں کی مانند کھلتا ہے، لندن والیوں کا الٹا کھلتا ہے۔ لندن کی ٹیکسیوں میں آمنے سامنے نشستیں ہوتی ہیں، مگر یہاں دو نشستیں فراخ اور آرام دہ، جبکہ ڈرائیور کے علیحدہ کیبن کی پشت پر دو عارضی کھڑی کی جانے والی غیر آرام دہ نشستیں۔ ٹیکسی شہر میں داخل ہونے لگی تو ڈرائیور نے خودکار ٹول پر کارڈ نکالتے ہوئے مجھے مخاطب کر کے کہا، ’’دیکھیں تین منات تو یہاں ہی دینے پڑ رہے ہیں۔ ہم لوگوں نے بھی کنبے کو کھلانا ہوتا ہے، آپ مجھے پانچ منات مزید دے دینا۔ میں نے اسے بتایا کہ بھائی میں بھی پنشن خوار ہوں کوئی سیٹھ نہیں۔ چپ کر کے گاڑی چلاؤ۔ جو کہا ہے وہی دوں گا۔ شہر کیا تھا جیسے دبئی، روشن، کھلا، انتہائی صاف ستھرا۔ سارے نیون رومن انگلش میں درج۔ ہوٹل پہنچ گیا۔ کاؤنٹر پر بیٹھے نوجوان نے بکنگ چیک کی اور مجھے الیکٹرانک کی دے دی۔ میں جب کمرے میں داخل ہوا تو مجھے لگا جیسے میں کسی اور کے رہائشی کمرے میں داخل ہو گیا ہوں۔ ایش ٹرے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی۔ کمبل چادریں بستر پر بکھرے ہوئے۔ فون کیا، کسی نے اٹھایا نہیں۔ لفٹ لے کر خود ریسیپشن پہنچا۔ شکوہ کیا تو دوسرا نوجوان میرے ساتھ گیا اور مجھے ایک بہت فراخ اور مجہز کمرہ دے کر ہیٹر چلا کر دروازہ بند کر کے چلا گیا۔ میں منہ ہاتھ دھو کر ایک بار پھر نیچے اترا۔ جس نے میلا کمرہ دیا تھا، اس سے پوچھا کہ اس وقت کہاں گھوما جا سکتا ہے تو اس نے کہا کہ باہر والی شاہراہ پر گھوم لیجیے۔ میں نکل کھڑا ہوا اور پہلے ہی اشارے سے سڑک پار کر کے دوسری طرف کی چھوٹی سڑک پر ہو لیا کیونکہ مجھے اس طرف رونق دکھائی دے رہی تھی۔ تھوڑا سا آگے چلا تو کسی تعلیمی ادارے سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے انبوہ نکل کر آ رہے تھے۔ سبھی آپس میں روسی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ خاصی دور تک چلتا گیا۔ شہر مسحور کر رہا تھا۔ بہت پُر سکون، ہلکی مگر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں نے جیکٹ کا ہڈ سر پر ڈال لیا تھا۔ میں ایک پارک کے نزدیک آ گیا تھا، جس کے بیچوں بیچ لمبے حوض اور فوارے تھے، مگر نہ فوارے چل رہے تھے، نہ حوضوں میں پانی تھا۔ روشیں روشن تھیں۔ نوجوان لوگ گھوم رہے تھے۔ پارک گھوم کر لوٹنے کا سوچا۔
لوٹ رہا تھا تو میں نے ایک پرانی عمارت کے تہہ خانے پر لکھا دیکھا ’’کیفے‘‘۔۔ کھانوں کی تصویریں بھی بنی تھیں۔ سوچا یہاں روایتی کھانا ہو گا۔
نیچے اترا تو سگریٹوں کا دھواں تھا۔ میں لوٹنے لگا تو پہلی عورت نے اپنی زبان میں شور مچا دیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ میری جانب بڑھ رہی تھی۔ میں نے کہا سگریٹ کا دھواں ہے۔ اس نے مضبوطی سے میرا بازو پکڑ لیا اور کہا ’’نو۔۔۔ کابن‘‘ اور مجھے کھینچتی ہوئی ایک کیبن کا دروازہ کھول کے کہا بیٹھو۔ روسی کا ایک لفظ نہیں بولتی تھی۔ اپنی زبان میں بولے جا رہی تھی۔ میں نے منہ پر انگلی رکھ کے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور کہا ’’مینیو‘‘۔۔ اب مینو بھی آزری زبان میں تھا۔ خیر ششلیک اور پیتی، کوزے میں چربی والے گوشت اور کابلی چنوں سے تنور میں بنایا گیا سوپ لانے کو کہا۔۔۔ دوسری نازنین بہت محبت اور خوش اخلاقی سے ایک کٹا ہوا ٹماٹر، آدھے کھیرے کے قتلے اور پلاسٹک کے چھاپے میں ٹشو، مقامی روٹی اور چمچ لا کے رکھ گئی اور پہلے والی کیفے کی مالکن پہلے پیتی لائی۔۔ پھر ششلیک یعنی بھیڑ کی پونے تین چانپیں لے آئی۔ گھر کا سا عام ذائقے کا کھانا تھا۔ پھر نازنین پوری چائے دانی فنجان اور توڑی ہوئی قند رکھ کے بولی ’’نوش جان‘‘۔۔ ساتھ میں چاکلیٹ کے کٹے ہوئے ٹکڑے بھی تھے۔ مالکن شاید ڈر گئی تھی کہ کہیں پکڑ کے بٹھایا گاہک پیسے دیے بنا نہ بھاگ جائے چنانچہ کیلکیولیٹر لے کر آ گئی اور مجھے دکھایا، 13 منات۔ میں نے ادائیگی کی اور اٹھنے لگا تو اس نے پھر بازو پکڑ کے بٹھا دیا اور اپنی زبان میں بولی ساری چائے دانی پیو۔۔ اللہ معافی بھئی، خاتون اپنا کیفے چلانے کے چکر میں تھی اور وہ بھی زبردستی۔
واقعی خوش ہو کر ان دونوں خواتین کے ساتھ مسکراتے ہوئے سلفیاں بنا کے میں اسی مسکان کے ساتھ سات زینے چڑھ کر سڑک پر آیا اور ترنگ میں غالباً کسی اور طرف ہو لیا۔ سوچتا بھی گیا کہ اس راستے سے تو نہیں آیا تھا مگر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ شکر ہے کہ مجھے سڑک کا نام یاد تھا۔ کسی بھی شہر میں بسنے والوں کو اپنے شہر کے ہوٹلوں کے نام کہاں یاد ہوتے ہیں۔ ایک مرد سے عزیر حاجی بائیو سٹریٹ کا پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ ایک دو نوجوانوں سے پوچھا تو انہوں نے غیر ملکی جان کر مسکراتے ہوئے انگریزی میں نو ہی کہا۔ ایک معمر روسی جوڑا چہل قدمی کو نکلا ہوا تھا۔ خاتون نے استفسار پر انتہائی خوش اخلاقی کے ساتھ سمجھایا کہ آپ متوازی سڑک پر ہیں، دوسرے اشارے سے دائیں کو ہو لیں تو مطلوبہ سڑک پر پہنچ جائیں گے۔ سڑک پر لوگ کم ہو رہے تھے۔ ٹیکسیاں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ تھوڑا سا گھبرایا بھی مگر اتنا نہیں جتنا حج تمام کرنے کے بعد منیٰ سے پیدل چلتے ہوئے ہوٹل پہنچنے کی مہم جوئی میں گم ہو کر گھبرایا تھا اور رات کے پچھلے پہر تک خوار بھی۔ بس ایک اور شخص سے پوچھا تو اس نے کہا ٹیکسی والے سے پوچھ لیں۔ پوچھا کہاں ہے ٹیکسی تو اس نے سڑک پر کھڑی ٹیکسی کی جانب اشارہ کیا۔ اس میں بیٹھا ڈرائیور فون پر بات کر رہا تھا۔ میری ایک ہی دستک پر اس نے اپنے ہم کلام سے معذرت کر کے کھڑکی نیچے کی۔ روسی زبان سے تقریباً نابلد ہوتے ہوئے اس نے مجھے سمجھا دیا کہ دور نہیں بس آگے سے بائیں ہو لیں۔ کسی سے پوچھ لینا کیونکہ گنج علی پلازا ہوٹل سڑک سے ہٹ کر اندر کی جانب ہے۔ آگے مجھے وہ چھوٹا پارک دکھائی دیا جو ہوٹل سے بڑی سڑک پر نکلتے ہی تھوڑی دور تھا۔ ہوٹل پہنچ کر الیکٹرانک کنجی کارڈ لیا اور شلوار قمیض پہن کر بستر پر دراز ہو، فیس بک سے اٹھکھیلیاں شروع کر دیں۔
ماسکو اور یہاں کے وقت میں ایک گھنٹہ کا فرق تھا یعنی باکو میں ایک گھنٹہ زیادہ تھا۔ میں نے گھڑی پر وقت تبدیل نہیں کیا تھا کیونکہ موبائل پر خود بخود تبدیل ہو گیا تھا البتہ یہ کہ فون آن کرتے ہی مقامی اور ماسکو کا وقت دو گھنٹے کے فرق سے ظاہر ہوتا تھا جو غالباً موسم گرما کا تھا۔
نئی جگہ پر پہلی شب خوابی میں نیند اکثر نہیں آتی۔ چنانچہ تین چار گھنٹے سونے کے بعد ہی اٹھ بیٹھا۔ فجر کی نماز پڑھی۔ موبائل پر پاکستانی اخبارات دیکھے۔ ہم سب ڈاٹ کام پر کچھ مضامین پڑھے۔ ناشتے کے لیے ریستوران تو آٹھ بجے سے دس بجے تک کھلنے سے متعلق بتایا تھا ریسیپشن والوں نے مگر مجھے بیڈ ٹی لینے کی بہت پرانی عادت ہے چنانچہ ساڑھے سات بجے فون کرکے چائے کی پیالی منگوا لی۔ آذربائیجان چائے پیدا کرنے والا ملک ہے۔ بہت عرصے بعد چائے میں چائے کی پتی کا حقیقی ذائقہ محسوس ہوا۔ نہا دھو کر شلوار قمیص میں ہی، قریب نو بجے ناشتہ کرنے ریستوران میں گیا۔ کئی طرح کے پنیر، گوشت کے انواع و اقسام کے سرد پارچے، کٹے ہوئے تازہ کھیرے اور ٹماٹر، بھنے آلو کے قتلے، دودھ سے تیار کردہ مختلف چیزیں اور دلیہ ناشتے میں تھے، ساتھ میں ڈبل روٹی کے ٹکڑے، چائے اور کافی کے علاوہ دو تین طرح کے جوس بھی۔ جانور کی باقیات کو تو میں ناشتے میں چھوتا تک نہیں ہوں چنانچہ ڈبل روٹی کے ٹکڑوں، پنیر کی دو اقسام اور کٹے ہوئے کھیرے ٹماٹر نوش جان کرکے چائے پی اور پھر سے کمرے میں چلا گیا۔
میں نے رات کو ہی واٹس ایپ پر دبئی میں سونی کے اہلکار محمد ولید کو پیغام دے دیا تھا کہ وہ پہنچیں تو مجھے اسی میڈیم پر مطلع کریں۔ کمرے میں بیٹھا بیٹھا اکتا گیا چنانچہ پتلون کوٹ پہن کر نیچے اترا اور پوچھا ماریوت ( میریٹ ) کہاں ہے۔ ولید اور سونی کے جاپانی ڈائریکٹر کا قیام اسی ہوٹل میں طے تھا۔ ریسیپڑن پر بیٹھی خوش اخلاق اور خوش گل خاتون نے بتایا کہ بالکل نزدیک ہے، دروازے سے نکلتے ہی بائیں کو ہو لیں اور عمارت کے آخر میں پھر بائیں کو مڑ جائیں۔ آپ کو دکھائی دے جائے گا۔ ارے میں تو چار منٹ میں میریٹ کے عقبی دروازے سے داخل ہو چکا تھا، خیر پورا لاؤنج عبور کرکے ریسیپشن پر پہنچا جہاں “حسین” کی نیم پلیٹ والے ایک وجیہہ نوجوان ریسیپشنسٹ سے ولید کا پوچھا۔ اس نے کمپیوٹر سے تصدیق کرکے بتایا کہ ان کی بکنگ تو ہمارے ہاں ہی ہے مگر ابھی پہنچے نہیں۔ میں انتظار کرنے کی خاطر لاؤنج میں ہی بیٹھ گیا۔ پھر کچھ سوچ کر حسین سے وائی فائی کا پوچھا تو اس نے کہا فون مجھے دیجیے۔ فون دیا تو اس نے وائی فائی آن کر دیا۔ میں نے ولید کو میسیج دیا کہ میں میریٹ کے لاؤنج میں ریسیپشن کے سامنے بیٹھ کر آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ کوئی پونے بارہ بجے ولید کا میسیج ملا کہ وہ ابھی طیارے سے باہر آئے ہیں اور کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔ پھر بھی آدھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔ میری نگاہیں شیشے کے پار باہر ہی کی جانب تھیں۔ ایک ٹیکسی سے ایک جاپانی اترا اور سوٹ کیس لے کر دروازے کی جانب چل پڑا۔ دوسرا شخص ٹیکسی کو ادائیگی کرکے جاپانی کے ساتھ آ ملا۔ میں بھی اٹھ کر انہیں ملنے کے لیے آگے بڑھا۔ ولید سے ہاتھ ملا کر کہا، میں تو سمجھا تھا کوئی ادھیڑ عمر ہوگا، تم تو جوان نکلے۔ وہ بس مسکرایا اور جاپانی نے اپنا نام لے کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور دونوں ریسیپشن کی جانب چل پڑے۔ میں نے کہا کہ آپ آرام سے اپنا کام کریں۔ کمروں میں جا کر فریش ہو کر آ جائیں۔ ولید بولا بس پانچ منٹ سر۔ البتہ سات منٹ بعد پہلے جاپانی پہنچا اور اپنا کارڈ دیا۔ اس کا نام ساتوشی نیگورو تھا اور وہ مڈل ایسٹ اور افریقہ کے لیے سونی کمپنی کے ریکارڈنگ میڈیا اور انرجی ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ تھا۔ دبئی میں متعین ہے، اس سے پہلے چار برس پیرس میں رہا تھا۔ بیالیس بر کا یہ یہ بلند قامت، مستعد اور بظاہر سادہ شخص عملیت پسند تھا۔ اس نے سب سے پہلے مجھ سے میرے متعلق سب پوچھا۔ مجھے جواد نے بتا دیا تھا کہ آپ نے خود کو محض شاعر ادیب ظاہر نہیں کرنا۔ میں نے احتیاط برتی۔ اتنے میں ولید بھی پہنچ گیا اور کہا کہ تین بجے ہماری ایک میٹنگ ہے اور اس کے بعد ہم آپ کے ہمراہ مارکیٹ دیکھیں گے۔
میں ان کی آمد کے انتظار کے دوران باکو گائیڈ دیکھتا رہا تھا اور میں نے حسین سے پوچھ کر وہ لے بھی لی تھی چنانچہ فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کام تمام کرنے کے بعد کچھ مقامات دیکھ لیں گے۔ ولید نے کہا ابھی ہمارے پاس وقت ہے تو میں نے کہا چلو اس دوران قدیم شہر دیکھ لیتے ہیں۔ باہر انہیں مخصوص ٹیکسیوں کی ایک قطار تھی۔ پہلی ٹیکسی والے نے کرایہ پانچ منات بتایا یعنی تقریبا” تین سو روپے اور جا کر پرانے شہر کی فصیل کے ایک ٹکڑے میں بنے دروازے کے باہر جا اتارا۔
ساتوشی تو فورا” دروازے کے اندر جا کر موبائل سے تصویریں بنانے لگا، میں نے باہر دروازے پر ولید کی تصویر لی اور ولید نے دوسری تصویریں۔ اندر داخل ہو کر میں نے تجویز کیا کہ ایک گلی میں داخل ہو کر دوسری گلی سے نکل آئیں گے۔ سیاہ پتھر کے فرش کے چوک اور وہاں سے ویسے ہی فرش والی گلی میں داخل ہو گئے۔ بھئی کیا شہر تھا۔ لکڑی یا سفید سیمنٹ ایسے مادے کی بڑی بڑی بالکونیاں۔ چڑھتی اترتی شفاف کریم رنگ کی گلیاں۔ اس شہر میں لوگ رہتے ہیں۔ ہوٹل اور ریستوران بھی ہیں۔ ایک دو بلیاں بھی بیٹھی دکھائی دیں۔ دو چار جوان جوڑے اور ایک آدھ مرد بھی دیکھنے کو ملے مگر یوں لگا جیسے یہ شہر نہیں میوزیم ہے جسے دیکھنے والوں کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہو۔ قدیم شہر تھا۔ نالیاں نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ یقینا” زیر زمین ہونگی۔ کسی گھر سے کوئی پائپ نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔ کئی جگہ پر چڑھنے کے لیے چھوٹے یا بڑے زینے یا ڈھلوان۔ ہر جگہ ایسی صاف جسے کہتے ہیں کہ ابلے ہوئے چاول گرا کے کھائے جا سکتے ہوں۔ میں اور ساتوشی دھڑا دھڑ تصویریں بناتے رہے۔ ایک جگہ ایک راہی سے پوچھنا پڑا اور دوسری جگہ سکول یا کالج کی ایک لڑکی سے جو اپنے گھر میں داخل ہوا چاہتی تھی۔ دونوں نے اپنائیت، تعلق اور مہمان پروری کے انداز میں رہنمائی کی۔ پرانے شہر نے آنکھوں کی پتلیوں سے داخل ہو کر دل میں جگہ بنا لی۔ طے کر لیا کہ دوسری بار اسی کے اندر کے کسی ہوٹل میں قیام کروں گا۔ مجھے قدیم شہر بہت اچھے لگتے ہیں۔ اگر رہنے کے بارے میں پوچھا جائے تو میرے انتخاب میں صرف دو شہر تھے اور دونوں اطالیہ کے یعنی فلورنس اور وینس اب باکو بھی ایسا ایک شہر انتخاب بن چکا ہے میرے لیے۔ قدیم شہر سے نکلنے سے پہلے ہم نے چند سیڑھیاں اتر کے واقع ایک اطالیائی نام والے ریستوران میں ظہرانہ تناول کرنے کا طے کیا۔ نیچے اتر کے پہلے ویٹر سے پوچھا کہ تمہارے ہاں پکوان اطالوی ہوتے ہیں۔ اسے روسی نہیں آتی تھی، فورا”، ایک اور لپکا۔ اس نے بتایا کہ مقامی بھی اور اطالوی بھی۔ سیاحوں کا سیزن نہیں تھا چنانچہ ہم تینوں ایک طرف کے آئینوں سے مزین ہال میں بیٹھ گئے۔ میرے ساتھی جلدی میں تھے۔ انہوں نے پیزا کھانے کی خواہش کی، میں نے اور ساتوشی نے مارگریتا اور ولید نے چکن پیزا کی فرمائش کی۔ بیس منٹ بعد بڑی بڑی قابوں میں آٹھ آٹھ ٹکڑوں میں تقسیم شدہ پیزا پہنچ گئے۔ انتہائی لذیذ گرم گرم پیزا اتنا زیادہ تھا کہ پانچویں ٹکڑے کے بعد چھٹا زبردستی کھایا۔ دو دو ٹکڑے بچ رہے جو میں نے پیک کروا لیے۔ اگرچہ بعد میں وہ ٹکڑے میرے لیے عذاب بن گئے تھے کیونکہ ہم رات تک باہر رہے۔ چائے سمیت تین پیزا کی قیمت صرف 23 منات تھی۔ میں نے 25 منات دیے یعنی تقریبا” پندرہ سو پاکستانی روپے۔ زبردست۔
ولید اپنا لیپ ٹاپ ریسیپشن پر رکھ آیا تھا۔ باہر سے ویسی ہی ایک ٹیکسی لی، کہا پہلے ہوٹل میریوت اور پھر بیناگدی ہائی وے جانا ہے۔ ڈرائیور کو لگتا تھا بیناگدی ہائی وے کا معلوم نہیں تھا چنانچہ ولید نے کسی خاتون کو فون کرکے انگریزی میں کہا کہ ڈرائیور کو سمجھا دے۔ اب ڈرائیور کو سمجھ آ گئی کیونکہ خاتون نے کہا تھا کہ ” باکو الیکٹرونکس ” پر لے آؤ۔ یہ جگہ خاصی دور تھی، میں نے ڈرائیور کو بیس منات دیے اور وہ خوش ہو گیا۔ باکو الیکٹرونکس ایک بہت بڑی دکان تھی۔ جس کے اوپر دفاتر واقع تھے۔ کئی منٹ انتظار کرنے کے بعد سیکیورٹی والے نے فون وغیرہ کرکے اوپر جانے دیا۔ وہاں میٹنگ ہوئی، اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جو گروپ بحث کر رہا تھا، سبھی لوگ بہت اچھے تھے۔ ولید کا پریزنٹیشن کا انداز مجھے بہت اچھا لگا۔ بعد میں اس کمپنی کے ایک ڈائریکٹر عزیز اور دوسرے کمرشل ڈائریکٹر رینات نے ہمیں دکان گھمائی اور اپنی ایک کار میں رخصت کیا۔ انہوں نے ساتوشی کے استفسار پر مشورہ دیا تھا کہ دو شاپنگ مال میں جا کر مارکیٹ دیکھ لیں۔
ان کی گاڑی ہمیں ” گنجلک مال ” پر اتار گئی تھی۔ یہ بہت بڑا اور بہت جدید شاپنگ مال ہے۔ اس میں گھومے۔ اس کے اندر اچھے خاصے لوگ تھے۔ باہر نکلے تو واحد فقیر عورت دیکھی جو رو رو کر مانگ رہی تھی۔ میں نے جیب میں موجود سکے اسے دے دیے۔ ٹیکسی پکڑ کر 28 مال نام کے شاپنگ سنٹر پہنچے۔ وہاں میں نے کوشش کی کہ پیک کروائے پیزا کے ٹکڑے کسی ورکر کو دے دوں، ایک کو کہا اس نے نہ لیا تو میں نے اسے ایک کاونٹر پر چھوڑ دیا۔ باہر نکلے تو میرے ساتھیوں نے کہا ” فائر فلیم ” دیکھنے چلیں۔ میں یاندر دگ نام کی جگہ سے متعلق ٹریول گائیڈ میں دیکھ چکا تھا۔ ایک ڈرائیور ہمیں لے جانے پر تیار ہو گیا۔ اب جو گاڑی چلنا شروع ہوئی، شہر سے باہر نکلتے بھی آدھ گھنٹہ لگ گیا۔ اوپر سے ڈرائیور مسلسل باتیں کر رہا تھا۔ راستے میں ولید نے کہا کہا کہ لوٹ چلتے ہیں مگر میں نے انکار کر دیا کہ اب اتنی دور آ گئے ہیں تو دیکھ کر ہی جاتے ہیں۔
آذر بائیجان میں ہزاروں سالوں سے جگہ جگہ پر قدرتی آگ بھڑکتی رہی ہے۔ اسی لیے اسے “آگ کی سرزمین” یعنی آذربائیجان نام دیا گیا تھا اور بعد میں یہ آتش پرستوں کے لیے مقدس مقام رہا۔ ایسی ہی ایک آگ باکو سے 25 کلومیٹر باہر، ایک چرواہے کے جلتی سگریٹ پھینکنے سے بھڑک اٹھی تھی۔ 1950 سے اب تک جل رہی ہے جسے بارش اور ہوا نہیں بجھا پاتے۔ چنانچہ یہ ایک قابل دید مقام شمار ہوتا ہے۔ مسیر نام کے اس ادھیڑ عمر ڈرائیور نے ہماری رہنمائی کی۔ ڈرائیور کو ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ سیاحوں کو لے کر آتے ہیں۔ ہم نے دو دو منات کے ٹکٹ لیے اور آگ دیکھی بھی اور سینکی بھی۔ یہاں پاکستانی پنجابی بولنے والے تین نوجوان بھی آپس میں ٹخ ٹلیاں کرتے پائے گئے۔ آگ کی حرارت سے راستے بھر کی تکان اور کوفت دور ہو گئی۔
میں راستے میں چائے کا ذکر کر چکا تھا۔ آذربائیجان میں چائے اگائی اور بنائی جاتی ہے جو “آذر چائی” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ڈرائیور مسیر کہنے لگا کہ میں آپ کو ایک خاص دکان پر لے جاؤں گا، جہاں سے آپ جو چیز چاہیں مناسب قیمت پر اور معیاری خرید سکتے ہیں۔ میں نے ساتھیوں کی تھکاوٹ کے سبب کہا، ” نہیں کل لے لیں گے”۔ مسیر سمجھ گیا اور بولا،” دنیا بھر میں اگر ٹیکسی والا کوئی پیشکش کرے تو سمجھا جاتا ہے کہ وہ کچھ اینٹھنے کے چکر میں ہے۔ مگر یقین کریں، آپ میرے مہمان ہیں، میں آپ کی ہر طرح سے مدد کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ آپ کو معلومات نہیں ہیں”۔ میں نے اسے تسلی دی کہ میں اسے غلط نہیں سمجھ رہا، وہ واقعی سوویت زمانے کا ایک بے غرض انسان دوست شخص تھا۔ جلتی پہاڑی یعنی یاندر دگ سے فارغ ہو کر ساتھیوں نے “فائر فلیم” دیکھنے کی خواہش کی جس پر مسیر نے کہا، آپ کا مطلب ہے “فیئر مونٹ”۔ جب میں نے یاندر دگ جانے کو کہا تھا تو یہ دونوں اسے فائر فلیم ہی سمجھے تھے۔ فیر مونٹ نام کے اس بلند، مہنگے، جدید اور منفرد طرز کی حامل عمارت والے ہوٹل کو ہی فائر فلیم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی ہر منزل پر قمقموں کی مسلسل قطار بار بار رنگ تبدیل کرتی ہے۔ فائر فلیم کی جانب جاتے ہوئے مسیر کی مجوزہ دکان بھی راستے میں تھی جہاں سے میرے علاوہ باقی دونوں ساتھوین نے بھی چائے کی پتی بطور سوغات خرید کی۔ فائر فلیم کے نیچے تصاویر بنانے کے بعد ہم ہوٹل کو چل دیے۔ مسیر نے کہا، کل آپ نے جہاں جانا ہو میں اپ کو لے جاؤں گا۔ ولید کے کہنے پر میں نے اسے کل صبح ساڑھے نو بجے ہوٹل پہنچنے کو کہا۔ میریت کے سامنے اتر کر اسے میں نے چالیس منات دیے، اس نے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور کل آنے کا وعدہ کرکے چلا گیا۔ لابی میں جا کر میں نے ساتھیوں سے کہا کہ ایک گھنٹہ آرام کر لیں، پھر یہیں ملتے ہیں۔ کل میں نے قریب ہی ” تندیر ” ( تندور ) نام کا ایک چھوٹا سا ریستوران دیکھا ہے، وہاں ہم روایتی آذری کھانا کھائیں گے۔
جب میں ایک گھنٹے بعد وہاں پہنچا تو صرف ولید ملا۔ ساتوشی اپنی بے تحاشا ای میلز کی وجہ سے نہیں آیا تھا۔ میں اور ولید تندیر پہنچے تو وہ بند ہو چکا تھا۔ کرسیاں الٹی کرکے میزوں پر رکھی جا چکی تھیں۔ دروازہ البتہ کھلا تھا۔ ایک آذری نوجوان موجود تھا جو روسی زبان سے نابلد ہونے کے سبب میرے اس سوال کا جواب دینے سے قاصر رہا کہ نزدیک کوئی اور ریستوران ہو تو بتاؤ۔ ہم دونوں کباب ہاؤس نام کے ایک اور ریستوران میں گھس گئے اور لکڑی کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے۔ خاصے لوگ تھے جن یں عرب اور روسی بھی تھے۔ ہم سڑک کی جانب شیشوں کے پاس چار نشستوں والی ایک میز کے گرد بیٹھ گئے۔ یہ ترک ریستوران تھا۔ آرڈر لے کر بیرا پہلے کٹے ہوئے ٹماٹر، کھیرے، سلاد کے پتے اور ہرا دھنیا لے کر آیا پھر لکڑی کے ایک پھٹے پر بڑی سی تلوں والی تندوری روٹی جو اندر سے کئی مقام پر حدت سے پھولی ہوئی تھی۔ ابھی ہم روٹی کے لقمے ٹماٹر سے کھا رہے تھے کہ وہ ایک اور لکڑی کی طشت پر میرے لیے لیمب تکے، چاول اور مختلف سلاد اور ولید کے لیے اسی طرح چکن تکے لے آیا۔ مناسب مقدار میں اس قدر لذیذ اور ہلکا پھلکا کھانا ہم چند منٹوں میں چٹ کر گئے۔ چائے کا کہہ کر میں ہاتھ دھونے نیچے گیا تو ایک شخص جھک کر سلام کرتے ہوئے بولا “رجب”۔ میں نے روسی میں ہیلو ہائی کرنے کی کوشش کی تو اس نے انگریزی میں کہا کہ اسے روسی زبان نہیں اتی۔ وہ ریستوران کا ترک مالک تھا جو بہت اچھے اخلاق کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ چائے سمیت کھانا محض 27 منات کا تھا۔ میرا اب بھی وہاں کھانا کھانے کو جی کر رہا ہے۔ جب جانے لگے تو میں نے اسے خدا حافظ کہا وہ “مجاہد خدا حافظ” کہنے کے لیے باہر تک آیا۔ اس سے پہلے وہ بیٹھی ہوئی ایک حور سے بات کر رہا تھا۔ جو بھی تھی فی الواقعی بہت حسین تھی۔ رجب نے پیچھے سے کہا، میں آپ کا پھر انتظار کروں گا۔ میں نے ولید سے کیا، مجاہد تو ایسے کہہ رہا تھا جیسے بچپن میں اکٹھے کھیلے ہوں ہم۔ ولید کا گھومنے کو جی تھا لیکن میں نے کہا، آرام کرتے ہیں بھائی۔
چونکہ ولید اور ساتوشی نے مجھے سوا نو بجے صبح میریٹ لابی میں پہنچنے کی درخواست کی تھی اس لیے اگرچہ جلد بجلی بجھا دی مگر تین بار آنکھ کھلی کہ کہیں تاخیر نہ ہو جائے۔ وعدہ کرکے نہ پورا کرنا میرے دستور میں نہیں ہے۔ سوا نو بجے پہنچ گیا۔ ولید ابھی ناشتہ کر رہا تھا۔ ساڑھے نو بجے مسیر پہنچ گیا تھا۔ آج دھند بہت زیادہ تھی۔ گذری کل ہم نے کئی بار بحیرہ کیسپین کو سڑک سے دیکھا تھا۔ ارادہ تھا کہ آج دیکھیں گے مگر دھند کے باعث ممکن نہیں رہا تھا۔ ساتوشی کی ہدایت پر مسیر کو “صدرک بازار” چلنے کو کہا۔ یہ شہر سے بہت باہر وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھوک مال کی بہت بڑی منڈی ہے۔ مسیر نے مدد کی یوں ہم جلد ان دکانوں تک پہنچ گئے جو الیکٹرونک ایکسیسریز کا تھوک بزنس کرتی ہیں۔ جس شخص سے معاملات طے کرنے کو مناسب جانا اس نے اپنا نام “دومود” بتایا چونکہ ایران، تاجکستان اور سلطنت ایران کی سابق باجگزار آذر بائیجان میں الف کو واؤ بولا جاتا ہے تو اس کا مطلب تھا “داماد”۔ میں نے پوچھا، وہی جو کسی کی بیٹی کا شوہر ہوتا ہے تو بولا جی میرا پورا نام دومود فتح الائیو ہے۔ میں نے کہا کہ میں تمہیں فتح الائیو ہی بلاؤں گا۔ بات چیت میں اتنی دیر ہو گئی کہ مزید کہیں جانے کا وقت نہیں تھا۔ مسیر کو ہوٹل میریٹ چلنے کو کہا۔ وہاں پہنچ کر اسے کہا کہ وہ ایک گھنٹے بعد پہنچ جائے اور ہمیں ایرپورٹ لے جائے۔
میں ہوٹل سے نکلتے ہوئے “چیک آؤٹ ” کر آیا تھا، اگرچہ بیگ اپنے ہوٹل کی ریسیپشن پر رہنے دیا تھا کہ شاید بارہ بجے کے بعد آؤں۔ ولید مجھے اپنے ساتھ پندھرویں فلور پر اپنے کمرے میں لے گیا۔ سامنے نیچے تک شفاف شیشہ ہی بطور دیوار تھا۔ مجھے اونچائی سے خوف آتا ہے۔ میں کچھ دور کھڑے ہو کر نظارہ کر رہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اگر کوئی اتفاقا” شیشے سے ٹکرا جائے تو، ولید سے کہا تو وہ بولا ، سر یہ بہت مضبوط شیشہ ہے۔ ظاہر ہے 27000 ہزار روپے رات لے کر مہمان کو اتفاقی طور پر مرنے سے تو بچائیں گے ہی۔
ان دونوں کی پرواز سوا تین بجے سہ پہر تھی اور میری ساڑھے پانچ بجے شام۔ میں نے سوچا تھا کہ انہیں رخصت کرکے کچھ دیر مزید شہر گھوموں گا مگر دھند نے ایسا نہ کرنے دیا۔ ایر پورٹ پر پہنچ گئے تو دسیوں قطریوں کو اپنے جبوں، چپلوں اور پگڑیوں کے ساتھ ہاتھوں پر باز بٹھائے گھومتے پایا۔ میرے دونوں ساتھی چلے گئے۔ میں بہت دیر ان لوگوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا یہاں اس نایاب پرندے کو اس طرح سرعام لے جائے جانے کی اجازت ہے کیا؟ جب میں بورڈنگ کارڈ لے رہا تھا تو قطر ایر لائن کے کاؤنٹر کے سامنے کھڑا شیخ اپنے فون پر کسی کو ایسے ڈانٹ رہا تھا جیسے وہ قطر میں ہی کھڑا ہو۔ ڈیپارچر لاؤنج میں بہت وقت بسر کرنا پڑا۔ ان بدووں کے علاوہ ایرپورٹ کے مختلف شعبوں کی طناز ، خوش شکل اور خوش بدن لڑکیوں کو بھی مختلف طرح کی یونیفارموں میں ملبوس سنجیدہ اور پرتدبر انداز میں گھومتے پھرتے پایا۔ دختران آذری فی الواقعی کوہ قاف کی پریوں کی مانند تھیں۔ حیف کہ آتش جوان نہیں رہا اوپر سے حاجی بھی ہو چکا۔
واپسی پر ایس سیون ایر لائن کا ہی طیارہ تھا اور اس بار میرے پہلو میں شہر تمبوو کی بہت ہی منحنی لڑکی تھی جو آرکیٹیکچر کی طالبہ تھی۔ سنا ہے تمبوو میں لڑکے لڑکیوں کا تناسب 3: 9 کا ہے یعنی لڑکیاں دوگنی زیادہ۔ ہلکی ہلکی بو آ رہی تھی جو بہت ناگوار نہ سہی مگر خوشگوار بھی نہیں تھی۔ بڑی سونگھ کے بعد معلوم ہوا کہ تمبوو کی لڑکیاں نہانے سے بدکتی ہونگی۔ یہ حسینہ کے بدن پر جمے پسینے کی بو تھی۔ شکر ہے زیادہ نہیں تھی۔ سفر مناسب رہا مگر طیارہ پتہ نہیں کہاں اتار دیا۔ اس کے باہر آ کر کھڑی بس میں سوار ہو کر سفر کرتے ہوئے ایسے لگا جیسے شاہدرہ سے گنجو متا جا رہے ہوں۔ لوٹ تو آیا لیکن جاؤں گا ضرور اور ہو سکا تو بار بار۔ باکو باکو ہے بھئی۔
پس نوشت: باز فروشی کے ماہر دوست امتیاز چانڈیو نے بتایا کہ قطری پرندے خرید کر نہیں بلکہ اپنے لائسنس یافتہ پرندے لے کر آذربائیجان میں واپس جاتے ہوئے ہوبارڈ بسٹرز یعنی تلور کا شکار کرنے آتے ہیں۔ ظالم قطری پرندوں کو گھر جاتے ہوئے بھی مار دیتے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply